ستونوں کے درمیان صف بنانا کیسا؟

سوال: ستونوں کے درمیان صف بنانا کیسا؟

الجواب بعون الملک الوھاب، اللھم ھدایۃ الحق والصواب

بلاضرورت ستونوں کے درمیان صف قائم کرنا مکروہ ہے کیونکہ یہ قطع صف کا سبب ہے اور قطعِ صف بحکمِ حدیث ممنوع ہے چنانچہ سننِ ابوداؤد شریف میں ہے:

 رسول ﷲ صلی الله تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں: من وصل صفا وصلہ ﷲ ومن قطعہ قطعہ ﷲ۔ جس نے صف کو ملایا ﷲ تعالٰی اسے ملائے گا اور جس نے صف کو قطع کیا ﷲ تعالٰی اسے قطع فرمائے گا۔

(سنن ابوداؤد باب تسویۃ الصفوف مطبوعہ آفتاب عالم پریس لاہور۱/۹۷)

نیز ستونوں کے درمیان صف بندی کی ممانعت پر نصِ صریح بھی موجود ہے جیسا کہ سنن ابنِ ماجہ میں ہے: عن معویۃ بن قرۃ عن ابیه رضي ﷲ تعالٰی عنہ قال کنا ننھی ان نصف بین السواری علی عھد رسول ﷲ ونطرد عنھا طردا یعنی قرہ بن ایاس مزنی رضی ﷲ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول ﷲ کے زمانہ میں ہمیں دو ستونوں کے بیچ صف باندھنے سے منع فرمایا جاتا اور وہاں سے دھکے دے کر ہٹائے جاتے تھے۔

(سنن ابن ماجہ باب الصّلوٰۃ بین السواری فی الصف مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص ۷۱)

مسند امام احمد و سنن ابی داؤد و جامع ترمذی و سنن نسائی و صحیح حاکم میں ہے: عن عبدالمجید بن محمود قال صلینا خلف امیر من الامراء فاضطرنا الناس صلینا بین الساریتین فلما صلینا قال انس بن مالک رضی ﷲ عنہ کنا نتقی ھذا علی عھد رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم یعنی ایک تابعی کہتے ہیں ہم نے ایک امیر کے پیچھے نماز پڑھی لوگوں نے ہمیں مجبور کیا کہ ہمیں دو ستونوں میں نماز پڑھنی ہوئی (جب ہم نماز پڑھ چکے تو) انس بن مالک نے فرمایا ہم زمانہ اقدس حضور سید عالم میں اس سے بچتے تھے۔

(جامع الترمذی باب ماجاء فی کراہیۃ الصف بین السواری مطبوعہ امین کمپنی دہلی ۱/۳۱)

عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری میں قبیل باب الصلوٰۃ الی الراحلۃ سیدنا عبدﷲ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہے کہ انہوں نے فرمایا: لاتصفوا بین الاساطین واتموا الصفوف۔ ستونوں کے بیچ میں صف نہ باندھو اور صفیں پوری کرو۔

(عمدۃ القاری شرح البخاری باب الصلوٰۃ بین السواری فی غیر جماعۃ مطبوعہ ادارۃ الطباعۃ بیروت ۴/۲۸۶)

یاد رہے! کہ قطعِ صف کی ممانعت اس صورت میں ہے جبکہ کوئی عذر نہ ہو لہٰذا اگر نمازیوں کی کثرت ہو جیسا کہ جمعہ وعیدین میں ہوتا ہے اور جگہ تنگ ہو تو ایسی صورت میں ستونوں کے درمیان صف قائم کرنا بلاکراہت جائز ہو گا. چنانچہ، عمدۃ القاری میں ابن حبیب سے ہے: لیس النھی عن تقطیع الصفوف اذاضاق المسجد وانما نھی عنہ اذکان المسجد واسعا۔ جب مسجد تنگ ہو تو اس وقت صفوں کو توڑنا منع نہیں، یہ اسوقت منع ہے جب مسجد کشادہ ہو۔

(عمدۃ القاری شرح البخاری باب الصلاۃ بین السواری فی غیر جماعۃ ادارۃ الطباعۃ المنیریہ بیروت۴/۲۸۶)

اُسی میں ہے: قال مالک فی المدونۃ لاباس بالصلاۃ بینھما لضیق المسجد۔ ثم ذکر قول ابن حبیب اقول ولا یخفی انہ مستقیم علی قواعد مذھبنا۔

امام مالک مدوّنہ میں فرماتے ہیں جب مسجد تنگ ہو تو دو ستونوں کے درمیان نماز پڑھنے میں حرج نہیں۔ پھر اُنھوں نے ابن حبیب کا قول نقل کیا ہے کہ “مخفی نہ رہے یہ ہمارے مذہب کے قواعد پر درست ہے”.

(عمدۃ القاری شرح البخاری باب الصلاۃ بین السواری فی غیر جماعۃ ادارۃ الطباعۃ المنیریہ بیروت ۴/۲۸۶)

والله ورسوله أعلم بالصواب

كتبه

ابوالعطاء محمد شھباز ضیاء