ایمان ابی طالب  اور یزید پلید

 مفتی صاحب کی بارگاہ میں سوال عرض ہےکہ اہلسنت یزید کے کفر میں خاموشی اختیار کرتے ہیں کہ لاکھ ظالم لعین پلید تھا مگر کافر نہیں کہا جاتا لیکن !

ابو طالب کے لیے کافر لکھا جاتا ہے جب اہلسنت یزید کے ایمان  کے معاملہ میں خاموش ہے تو ابو طالب کے کافر ہونے کی ایسے کونسی احادیث یا  اقوال موجود ہیں کہ ہم ان کے کافر ہونےمیں  خاموشی اختیار نہیں کرتے ۔اس پر مدلل اور تفصیلی جواب دار کار ہے۔

الجواب:

اس سوال کا مختصر جواب یہ ہے کہ ابوطالب کا ایمان نہ لانا صحیح حدیث پاک سے ثابت ہے اور یزید کا کافر ہونا صحیح حدیث یا اجماع امت سے ثابت نہیں البتہ یزید پلید کا فاسق و فاجر ہونا بالاتفاق ثابت ہے اور امام احمد بن حنبل کے نزدیک یزید کافر ہے۔

قرآن و حدیث اور محدثین و علماء سے یہ  ثابت  ہے کہ ابو طالب حالتِ کفر میں د نیا سے گئے ۔ صحیحین و  مسند امام احمد میں حضرت سیدنا عباس رضی اللہ عنہ سے ہے”انہ قال للنبی صلی اللہ  تعالیٰ علیہ وسلم ما اغنیت عن عمک فواﷲکان یحوطک ویغضب لک قال ھو فی ضحضاح من  نارولولا انا لکان فی الدرک الاسفل من النار ”ترجمہ: انہوں نے خدمت ِ اقدس حضور  سید المرسلین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم میں عرض کی حضور نے اپنے چچا ابوطالب کو  کیا نفع دیا؟ خدا کی قسم وہ حضور کی حمایت کرتا اور حضور کے لیے لوگوں سے لڑتا  جھگڑتا تھا۔ فرمایا میں نے اسے سراپا آگ میں ڈوبا ہوا پایا تو اُسے کھینچ کر پاؤں  تک آگ میں کردیا اور اگر میں نہ ہوتا تو وہ جہنم کے سب سے نیچے طبقے میں  ہوتا۔       

 (صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب الشفاعۃ النبی صلی اللہ علیہ وآلہ  وسلم لابی طالب۔۔، جلد1،صفحہ115،قدیمی کتب خانہ ،کراچی)

    امام احمد رضا خان  علےہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں :”اس میں شک نہیں کہ ابوطالب تمام عمر حضور سیّد  المرسلین سیّدالاولین و الاخرین سیدالابرار صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وعلی آل وسلم الیٰ  یوم القرار کی حفظ و حمایت و کفایت و نصرت میں مصروف رہے ۔ اپنی اولاد سے زیادہ  حضور کو عزیز رکھا، اور اس وقت میں ساتھ دیا کہ ایک عالم حضور کا دشمنِ جاں ہوگیا  تھا، اور حضور کی محبت میں اپنے تمام عزیزوں قریبیوں سے مخالفت گوارا کی،سب کو چھوڑ  دینا قبول کیا، کوئی دقیقہ غمگساری و جاں نثاری کا نامرعی نہ رکھا،اور یقیناً جانتے  تھے کہ حضور افضل المرسلین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اﷲکے سچے رسول ہیں، ان پر  ایمان لانے میں جنت ابدی اور تکذیب میں جہنم دائمی ہے،بنوہاشم کو مرتے وقت وصیت کی  کہ محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی تصدیق کرو فلاح پاؤ گے، نعت شریف میں قصائدان  سے منقول ، اور اُن میں براہ فراست وہ امور ذکر کیے کہ اس وقت تک واقع نہ ہوئے تھے۔  بعد بعثت شریف ان کا ظہور ہوا، یہ سب احوال مطالعہ احادیث و مراجعتِ کُتب سیر سے  ظاہر، ایک شعر ان کے قصیدے کا صحیح بخاری شریف میں بھی مروی

        وابیض  یستسقی الغمام بوجھہ             ثمال الیتامٰی عصمۃ للارامل

( وہ گورے رنگ  والے جن کے رُوئے روشن کے توسّل سے مینہ برستا ہے، یتیموں کے جائے پناہ بیواؤں کے  نگہبان صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم۔)

    محمد بن اسحٰق تابعی صاحبِ سیر و مغازی  نے یہ قصیدہ بتما مہما نقل کیا جس میں ایک سو دس بیتیں مدحِ جلیل و نعتِ منیع پر  مشتمل ہیں۔ شیخ محقق مولانا عبدالحق محدث دہلوی قدس سرہ،شرح صراطِ مستقیم میں اس  قصےدہ کی نسبت فرماتے ہیں ”دلالت صریح داروبرکمال محبت ونہایت نبوت او انتہی”  ترجمہ:یہ قصیدہ ابوطالب کی رسول ا ﷲصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ کمال محبت  اور آپ کی نبوت کی انتہائی معرفت پر دلالت کرتا ہے۔

    مگر مجردان امور سے  ایمان ثابت نہیں ہوتا۔ کاش یہ افعال واقوال اُن سے حالتِ اسلام میں صادر ہوتے تو  سیّدنا عباس بلکہ ظاہراً سیّدنا حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے بھی افضل قرار پاتے  اور افضل الاعمام حضور افضل الانام علیہ وعلی آلہ وافضل الصلوۃ والسلام کہلائے جاتے  ۔ تقدیر الہٰی نے بربنا اُس حکمت کے جسے وہ جانے یا اُس کا رسول صلی اللہ تعالیٰ  علیہ وسلم انہیں گروہِ مسلمین و غلامانِ شفیع المذنبین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم  میں شمار کیا جانا منظور نہ فرمایا(فاعتبروایا اولی الابصار ) تو عبر ت لو اے نگاہ  والو۔

صرف معرفت گو کیسی ہی کمال کے ساتھ ہوا یمان نہیں، دانستن و شناختن اور  چیز ہے اور اذعان و گرویدن اور، کم کافر تھے جنہیں رسول اﷲصلی اللہ تعالیٰ علیہ  وسلم کے سچے پیغمبر ہونے کا یقین نہ تھا”جحدوا بھا واستیقنتہا انفسھم ” اور ان کے  منکر ہوئے اور ان کے دلوں میں ان کا یقین تھا  ۔”                                                      

                                    (فتاوٰی رضویہ،جلد29،صفحہ657،رضا  فاؤنڈہشن،لاہور)

    پھر مزید دلائل دیتے ہوئے لکھتے ہیں ۔مرقاۃ شرح مشکوۃ میں  اُس شخص کے بارے میں جو قلب سے اعتقاد رکھتا تھا اور بغیر کسی عذر و مانع کے زبان  سے اقرار کی نوبت نہ آئی ،علماء کا اختلاف کہ یہ اعتقاد بے اقرار اُسے آخرت میں  نافع ہوگا یا نہیں ،نقل کرکے فرماتے ہیں ”قلت لکن بشرط عدم طلب الاقرار منہ فان  ابی بعد ذٰلک فکافراجماعا لقضیۃ ابی طالب”یعنی یہ اختلاف اس صورت میں ہے کہ اس سے  اقرار طلب نہ کیا گیا ہو اور اگر بعد طلب باز رہے جب تو بالا جماع کافر ہے۔ ابو  طالب کا واقعہ اس پر دلیل ہے۔

    اُسی کی فصل ثانی باب اشراط الساعۃ میں ہے  ”ابوطالب لم یؤمن عنداھل السنۃ ”ترجمہ:اہل سنت کے نزدیک ابوطالب مسلمان نہیں۔   

  ( مرقات المفاتیح شرح مشکٰوۃ المصابیح،کتاب الفتن،  جلد9،صفحہ360،المکتبۃ الحبیبیۃ ،کوئٹہ )

    شیخ محقق مولانا عبدالحق محدث دہلوی  شرح سفر السعادۃ میں فرماتے ہیں ”مشائخ حدیث وعلمائے سنت بریں اند کہ ایمان ابو  طالب ثبوت نہ پذیر فتہ و در صحاح احادیث ست کہ آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم در  وقتِ وفات وے برسردے آمد و عرض اسلام کرد وے قبول نہ کرد ”مشائخ حدیث اور علماء ِ  اہلسنت کا مؤقف یہ ہے کہ ابو طالب کا ایمان ثابت نہیں ہے،صحیح حدیثوں میں آیا ہے کہ  ابو طالب کی وفات کے وقت رسول اﷲصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اسکے پاس تشریف لائے اور  سلام پیش فرمایا مگر اس نے قبول نہیں کیا۔                  

  (شرح سفر السعادۃ  ،فصل دربیان عیادت بیماراں و نماز جنازہ ،صفحہ249،مکتبہ نوریہ رضویہ ،سکھر  )

بعض علماء نے ابوطالب کا ایمان ثابت کرنے کی کوشش کی ہے لیکن  عدم ایمان پر جو اوپر صحیح حدیث پاک پیش کی ہے اس کا جواب دینے سے عاجز آجاتے ہیں۔صائم چشتی صاحب نے مسلم شریف کی حدیث کی یہ تاویل کی ہے کہ ابو طالب کو تھوڑی دیر کے لیے عذاب ہوگا جبکہ یہ تاویل بالکل باطل ہے کیونکہ اگر ابوطالب صحابی تھے تو صحابی کبھی جہنم میں نہیں جاسکتا جیسا کہ دیگر احادیث سے ثابت ہے۔ لہذا صحیح یہی ہے کہ ابوطالب کا ایمان لانا ثابت نہیں لیکن اگر کوئی عالم دین ان کا ایمان ثابت کرتا ہے تو اسے کافر نہیں کہا جاسکتا بلکہ خطا کار کہیں گے اور اگر کوئی جاہل پیر یا عالم یہ کہے کہ جو ابوطالب کو مسلمان نہیں مانتا وہ خود کافر ہے تو ایسا کہنے والا خود گمراہ ہے۔

جہاں تک یزید کا مسئلہ ہے تو اس بارے میں واضح صحیح حدیث موجود نہیں۔ البتہ ایک حدیث میں یزید نامی شخص کے متعلق صراحت موجود ہے۔مسند ابویعلی کی حدیث پاک ہے ”عن أبی عبیدۃ قال قال رسول اللہ صلی  اللہ علیہ وسلم لا یزال أمر أمتی قائما بالقسط حتی یکون أول من یثلمہ رجل من بنی  أمیۃ یقال لہ یزید ”ترجمہ: میری امت میں عدل وانصاف ختم نہ ہوگا یہاں تک کہ پہلا  رخنہ انداز وبانی ستم بنی امیہ کا ایک شخص ہو گا جس کا نام یزیدہو  گا۔

(مسند أبی یعلی،مسند أبی عبیدۃ بن  الجراح،جلد2،صفحہ176،دار المأمون للتراث ،دمشق)

    امام جلال الدین سیوطی رحمۃ  اللہ علیہ نے اس حدیث کو ضعیف فرمایا ہے چنانچہ تاریخ الخلفاء میں فرماتے  ہیں”وأخرج أبو یعلی فی مسندہ بسند ضعیف عن أبی عبیدۃ۔۔”

     (تاریخ الخلفائ،یزید  بن معاویۃ أبو خالد الأموی،صفحہ158،مکتبۃ نزار مصطفی الباز)

    لیکن اسی متن کی  حدیث پاک دوسری سند سے بھی مروی ہے چنانچہ کنزالعمال کی حدیث پاک ہے حضرت ابوذر رضی  اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے”أول من بدل سنتی رجل من بنی أمیۃ ہو یزید”ترجمہ:بنو  امیہ میں سے پہلا شخص جو میری سنت کو بگاڑے گا وہ یزید ہے۔

  (کنزالعمال،کتاب القیامۃ،الفصل الثانی فی خروج الکذابین والفتن ،جلد14،صفحہ219، مؤسسۃ الرسالۃ ،بیروت)

یزید کے متعلق یہ دو احادیث صحیح مان بھی لیں تو یہ اس کے فسق و فجور ہی پر دلیل بنیں گے اس کے کافر ہونے پر نہیں۔

واللہ و رسولہ اعلم عزوجل و صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

نظر ثانی: مفتی محمد انس رضا قادری

02فروری2021