اگر میت کا کچھ حصہ ہو تو کیا اس پر نماز جنازہ پڑھی جائے گی؟ 

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین مسئلہ ذیل میں کہ اگر میت کا کچھ حصہ ہو تو کیا اس پر نماز جنازہ پڑھی جائے گی؟ 

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب۔

نماز جنازہ کے درست ہونے کے لیے میت کا امام کے سامنے ہونا ضروری ہے لہذا میت کا کل، یا اکثر یا نصف حصہ مع سر کے موجود ہو تو اس کی نماز جنازہ پڑھ سکتے ہیں وگرنہ نہیں۔

بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع میں ہے ” ﻭﻻ ﻳﺼﻠﻰ ﻋﻠﻰ ﺑﻌﺾ اﻹﻧﺴﺎﻥ ﺣﺘﻰ ﻳﻮﺟﺪ اﻷﻛﺜﺮ ﻣﻨﻪ”

ترجمہ: انسان کے کچھ حصہ پر نمازِ جنازہ نہیں پڑھی جائے گی یہاں تک کہ اس کا اکثر حصہ مل جائے۔

(بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع، کتاب الصلاۃ، ﻓﺼﻞ ﺑﻴﺎﻥ ﻓﺮﻳﻀﺔ ﺻﻼﺓ اﻟﺠﻨﺎﺯﺓ ﻭﻛﻴﻔﻴﺔ ﻓﺮﺿﻴﺘﻬﺎ، جلد 01 صفحہ 311 مطبوعہ دارالکتب العلمیہ)

الدر المختار شرح تنوير الأبصار وجامع البحارمیں ہے “وشرطها أيضا حضوره (ووضعه) وكونه هو أو أكثر (أمام المصلي)”

ترجمہ: نمازِ جنازہ کی یہ شرط بھی ہے کہ جنازہ نمازیوں کے آگے ہو، زمین پر رکھا ہوا ہو اور میت کا کل یا اکثر حصہ موجود ہو۔

(الدر المختار شرح تنوير الأبصار وجامع البحار باب صلاۃ الجنازۃ صفحہ 119 مطبوعہ دارالکتب العلمیہ)

اسی کے تحت ” ردالمحتار” میں ہے ” قَوْلُهُ ( حُضُورُهُ ) أَيْ كُلُّهُ أَوْ أَكْثَرُهُ كَالنِّصْفِ مَعَ الرَّأْسِ”ترجمہ: ان کے قول ( حُضُورُهُ ) کا مطلب یہ ہے کہ میت کا کل حصہ یا اکثر حصہ جیسے آدھا بدن سر کے ساتھ موجود ہو۔

(رد المحتار علی الدر المختار ، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ، ج 3، ص 123 مطبوعہ دارالمعرفہ بیروت لبنان )

بہارِ شریعت  میں ہے ” جنازہ کا وہاں  موجود ہونا یعنی کُل یا اکثر یا نصف مع سر کے موجود ہونا، لہٰذا غائب کی نماز نہیں  ہوسکتی”۔

(بہارِ شریعت حصہ 04، جنازہ کا بیان، صفحہ 828 مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی)

واللہ اعلم عزوجل و رسولہ الکریم اعلم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

              کتبہ

سگِ عطار محمد رئیس عطاری بن فلک شیر غفر لہ

( مورخہ 28 جمادی الثانی 1442ھ بمطابق 11 فروری 2021 بروز جمعرات)