جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کی شرعی حیثیت

سوال: جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

    “الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب”

اگر مسجد محلے کی ہو جس کا امام و جماعت معین ہو اور اتنے فاصلے پر ہو کہ وہاں مؤذن اگر بغیر اسپیکر کے منار پر کھڑے ہو کر اذان دے تو اس اذان کی آواز حالتِ سکوت (جیسے عموماً وقتِ فجر) میں کان تک پہنچ سکتی ہو جبکہ ثقل سماعت وغیرہ کوئی رکاوٹ بھی نہ ہو تو ایسی صورت میں  پانچوں نمازوں میں اس مسجد کی جماعت اولی واجب ہے جس کا چھوڑنا بغیر کسی شرعی عذر کے جائز نہیں۔ لہذا ایسی صورت میں جائے نماز قائم کر کے وہاں نماز پنجگانہ کی ہر گز اجازت نہیں۔ ایسے لوگ مسجد کے پڑوسی ہیں اور حدیث پاک میں بطور تہدید فرمایا کہ مسجد کے پڑوسی کی نماز مسجد کے علاوہ ہوتی ہی نہیں۔

مصنف عبد الرزاق میں ارشاد نبوی صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلم ہے؛ : ’’لا صلاۃ لجار المسجد إلا فی المسجد۔ قال الثوری فی حدیثہ قیل لعلی ومن جار المسجد؟ قال من سمع  الندائ۔‘‘ یعنی مسجد کے پڑوسی کی نماز نہیں مگر مسجد میں۔ امام ثوری رحمۃ اللہ علیہ کی حدیث میں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے عرض کی گئی کہ مسجد کا پڑوسی کون ہے ارشا د فرمایا کہ جو اذا ن کی آواز سنے ۔  

        (مصنف عبد الرزاق رقم الحدیث1915، جلد1، صفحہ497 المکتبۃ الاسلامی بیروت)مصنف ابن ابی شیبہ (جلد 1 ، صفحہ303)، سنن دار قطنی (جلد2، صفحہ292)، المستدرک للحاکم (جلد 1، صفحہ373)، السنن الکبری  للبیہقی (جلد3، صفحہ81)، معرفۃ السنن والاٰثار (جلد 4، صفحہ104)، کنز العمال (جلد4، صفحہ426)

ایک حدیث پاک میں رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اذان سن کر بلا عذر جماعت چھوڑنے کو ظلم اور نفاق سے تعبیر فرمایا۔ چنانچہ معجم کبیر للطبرانی اور مسند امام احمد میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، والنظم لمسند احمد:  ’’الجفاء کل الجفاء والکفروالنفاق من سمع منادی اللہ ینادی بالصلاۃ یدعو إلی الفلاح ولا یجیبہ۔‘‘ یعنی ظلم، پورا ظلم اور کفر اور نفاق یہ ہے کہ آدمی اللہ کے منادی کو نماز کی ندا کرتا اور فلاح کی طرف بلاتا سنے اور حاضر نہ ہو۔

(مسند احمد بن حنبل جلد24، صفحہ390 مؤسسۃ الرسالۃ بیروت)

شیخ الاسلام و المسلمین، امام اہلسنت، مجدد دین و ملت، اعلی حضرت شاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فتاوی رضویہ میں فرماتے ہیں: ’’مسجد محلہ میں، جس کے لئے امام وجماعت معین ہیں، اس اعتماد پرکہ ہم اپنی جماعت دوبارہ کرلیں گے بلاعذر شرعی، مثلِ بدمذہبیِ امام وغیرہ، جماعت اُولی کاقصداً ترک کرناگناہ ہے۔‘‘

(فتاوی رضویہ جلد7، صفحہ198 رضا فاؤنڈیشن لاہور)

اسی فتاوی رضویہ شریف میں فرمایا: ’’بلاعذر ِشرعی ترکِ مسجد گناہ ہے،حدیث میں ہے: لاصلاۃ لجار المسجد إلّا فی المسجد۔ (یعنی مسجد کے پڑوسی کی نماز مسجد ہی میں ہوسکتی ہے)۔‘‘

(فتاوی رضویہ،ج6،ص618،رضافاؤنڈیشن،لاہور)

مراٰۃ المناجیح شرح مشکاۃ المصابیح میں مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں: ’’جہاں تک اذان کی آواز پہنچے وہاں تک کہ لوگوںکو مسجد میں آنا بہت ضروری ہے۔ وہ دور کے لوگ جہاں اذان نہ پہنچی ہو ان کے لیے بھی مسجد آنا بہت بہتر ہے، مگر اتنی سختی نہیں۔ اس حدیث کا یہی مطلب ہے: لا صلاۃ لجار المسجد إلا فی المسجد۔ (یعنی مسجد کے پڑوسی کی مسجد کے علاوہ کوئی نماز نہیں۔) ……… اذان کی آواز پہنچے سے مراد آج کل کے لاؤڈ اسپیکر کی آواز نہیں، یہ تو دو دو میل تک پہنچ جاتی ہے۔‘‘

(مراٰۃ المناجیح جلد2، صفحہ168 نعیمی کتب خانہ گجرات)

لیکن اگر گمان غالب ہو کہ اذان کی آواز نہیں پہنچے گی تو چونکہ مسجد کے پڑوسی والا حکم نہیں اور اتنی دوری پر جماعت تلاش کرنے میں واضح حرج ومشقت بھی موجود ہے لہٰذا اس مسجد کی جماعت واجب نہیں، اگرچہ عظیم سعادت ضرور ہے۔

ردالمحتار میں ہے: ’’أن الوجوب عند عدم الحرج، وفی تتبعھا فی الأماکن القاصیۃ حرج لا یخفی۔‘‘ یعنی جماعت سے نماز پڑھنے کا وجوب حرج نہ ہونے کے وقت ہے، اور دوردراز مقامات پر جماعت کو تلاش کرنے میں ایسا حرج ہے جو مخفی نہیں ۔

(رد المحتار شرح درمختار ،کتاب الصلاۃ ،باب الامامۃ،جلد1،صفحہ555، دار الفکر ،بیروت)

جماعت کے واجب ہونے کے حوالے سے علامہ کاسانی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : “فَقَدْ قَالَ عَامَّةُ مَشَايِخِنَا: إنَّهَا وَاجِبَةٌ۔۔۔فَقَوْلُهُ تَعَالَى: {وَارْكَعُوا مَعَ الرَّاكِعِينَ} [البقرة: 43] ، أَمَرَ اللَّهُ – تَعَالَى – بِالرُّكُوعِ مَعَ الرَّاكِعِينَ وَذَلِكَ يَكُونُ فِي حَالِ الْمُشَارَكَةِ فِي الرُّكُوعِ، فَكَانَ أَمْرًا بِإِقَامَةِ الصَّلَاةِ بِالْجَمَاعَةِ، وَمُطْلَقُ الْأَمْرِ لِوُجُوبِ الْعَمَلِ.

(وَأَمَّا) السُّنَّةُ فَمَا رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ – ﷺ – أَنَّهُ قَالَ: «لَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ آمُرَ رَجُلًا يُصَلِّي بِالنَّاسِ فَأَنْصَرِفَ إلَى أَقْوَامٍ تَخَلَّفُوا عَنْ الصَّلَاةِ فَأُحَرِّقَ عَلَيْهِمْ بُيُوتَهُمْ» ، وَمِثْلُ هَذَا الْوَعِيدِ لَا يَلْحَقُ إلَّا بِتَرْكِ الْوَاجِبِ.ترجمہ:ہمارے مشائخ عامہ نے یہ فرمایا ہے کہ جماعت واجب ہے پس اللہ تعالیٰ کا فرمان “رکوع کرنے والوں کیساتھ رکوع کرو” تو اللہ عزوجل نے رکوع کرنے والوں کیساتھ رکوع کرنے کا حکم ارشاد فرمایا اور یہ آیت رکوع کے دوران ایک دوسرے کیساتھ شریک ہونے کے بارے میں ہے تو یہ جماعت کیساتھ نماز قائم کرنے کا امر ہوا اور مطلقاً امر عمل کے وجوب کے لیے ہی ہوتا ہے.

اور جماعت کے متعلق وہ حدیث ہے جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے مروی ہے فرمایا “میں ارادہ رکھتا ہوں اس بات کا کہ کسی کو حکم دوں کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائے اور میں ان لوگوں کی طرف جاؤں جو نماز میں حاضر نہیں ہوئے اور انکے گھروں کو آگ لگا دوں” اس طرح کی وعید کسی واجب کو چھوڑنے پر ہی ہوتی ہے.

(بدائع الصنائع ،کتاب الصلوۃ، جلد 1،صفحہ 155،مطبوعہ دارالکتب علمیہ بیروت)

      واللہ اعلم ورسولہ اعلم عزوجل و صلی اللہ علیہ و سلم

کتبہ :محمد انس رضا عطاری المدنی بن محمد یامین

نظر ثانی :ابو احمد مفتی محمد انس رضا قادری حفظہ اللہ

09اگست2021ء01صفر المظفر.1443ھ