اپنی بیوی کو اکٹھی تین طلاقیں دی تو تینوں ہو جاتی ہیں یا ایک ہوتی ہے

سوال : کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے میں کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ تین اکٹھی طلاقیں دی جائیں تو ایک ہوتی ہے اس پر وہ ایک مسلم شریف کی حدیث بھی پیش کرتے ہیں قرآن وحدیث کی روشنی میں ارشاد فرمائیں کہ ایک شوہر اپنی بیوی کو اکٹھی تین طلاقیں دی تو تینوں ہوجاتی ہیں یا ایک ہوتی ہے؟

الجواب

اگر کسی نے اپنی بیوی کو اکھٹی تین طلاقیں دیں تو تینوں طلاقیں واقع ہو جائیں گی اور بیوی اس کے لیے حرام ہو جائے گی  اور حلالہ شرعیہ کیے بغیر دوبارہ اس سے نکاح جائز نہیں ہوگا اور یہ قرآن اور احادیث صحیحہ سے ثابت ہے اور اسی پر جمہور صحابہ کرام ،تابعین ؒ اورائمہ کااجماع ہے۔ جیسا کہ احادیث صحیحہ میں ہے۔

قرآن پاک کی سورہ بقرہ کی آیت 230 میں ارشاد ہوتا ہے’’فان طلقھا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجاً غیرہ

اس آیت کی تفسیر میں کتاب احکام القرآن میں ہے کہ

’’فحکم بتحریمھاعلیہ بالثالثۃ بعد الاثنین ولم یفرق بعد ایقاعھا فی طہر واحدوفی اطہار فوجب الحکم بایقاع الجمیع علی ای وجہ اوقعہ من مسنون او غیرمنسون ومباح او محظور‘‘۔

یعنی دوکے بعد تیسر ی طلاق سے حرمت کا حکم لگایا ہے اور اس میں فرق نہیں کیا کہ ایک طہر میں دی گئی ہوں یا مختلف اطہار میں پس طلاقیں واقع ہو نے کا حکم واجب ہو گا۔ جس طرح بھی دی ہو چاہے مسنون طریقہ سے دی ہو یا غیر مسنون طریقہ سے، مباح طریقے سے دی ہو یا ممنوع سے ۔

اور اسی کتاب میں آگے جا کر یہ بھی ذکر ہے کہ’’وقال ھذہ الآیۃ تدل علی ایقاع الثلاث معاًمع کونہ منھیاًعنھا‘‘ :

ترجمہ:یہ آیت تین طلاق کے واقع ہو نے پر دلالت کر تی ہے اگر چہ ایسا کر نا ممنوع ہے ۔

(احکام القرآن للجصاص جلد 2 صفحہ83)

اسی طرح کتاب محلی ابن حزم میں ’’فان طلقھا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجاً غیرہ‘‘ کی تفسیر میں ہے :’’فھذا یقع علی الثلاث مجموعۃ ومفرقۃ ولایجوز ان یخص بھذا الآیۃ بعض ذلک دون بعض بغیر نص‘‘۔

ترجمہ :یہ آیت تین طلاق کے اکٹھے اور علیحدہ علیحدہ واقع ہو نے پر دلالت کر تی ہے اور اس آیت سے اکٹھی اور علیحدہ علیحدہ میں تخصیص کر لینا بغیر نص کے جائز نہیں۔

(محلی ابن حزم جلد 10صفحہ 170)

(۱) صحیح بخاری میں یہ  روایت ہے۔’’عن عائشۃؓ ان رجلاً طلق امرأتہ ثلاثاً فتزوجت فطلق فسئل النبی صلی اللہ علیہ وسلم اتحل للاول قال لاحتی یذوق عسیلتھا کما ذاق الاول ‘‘

ترجمہ: حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاق دے دی پھر اس عورت نے دوسرا نکاح کر لیا پھر اس شخص نے بھی طلاق دے دی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کیا یہ عورت پہلے شخص کے لئے حلال ہو گئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں یہاں تک یہ بھی اس کے شہد سے چکھے (جماع کرے ) جیسا کہ پہلے نے چکھا تھا۔

 (صحیح بخاری شریف جلد 5 صفحہ2014)

اس حدیث سے ثابت ہوا کے ایک ساتھ تین طلاقیں واقع ہو جاتی ہیں ، اور بیوی حرام ہو جاتی ہے ۔

(۲)اسی طرح  بخاری شریف میں ایک اور روایت ہے :’’عن نافع ؒکان ابن عمرؓ اذا سئل عمن طلق ثلاثا ً قال لوطلقت مرۃً اومرتین فان النبی صلی اللہ علیہ وسلم امرنی بھذا فان طلقتھا ثلاثاًحرمت حتی تنکح زوجاً غیرک‘‘ ۔

ترجمہ: حضرت نافعؒ روایت کر تے ہیں کہ جب ابن عمرؓ سے اس شخص کے بارے میں پوچھا گیا جس نے اپنی بیوی کو تین طلاق دی تھیں تو آپ ؓ نے فرمایا اگر تو نے ایک یا دو طلاق دی ہو تی تو رجوع ہو سکتا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اسی کا حکم فرمایا تھا اور جبکہ تو نے تین طلاق دے دی ہیں تو بیوی حرام ہو گئی جب تک کہ وہ تیرے علاوہ کسی اور سے حلالہ شرعیہ کے طور پر نکاح نہ کر ے  ۔

(بخاری جلد 5 صفحہ 2015)

(۳) صحیح مسلم شریف کی روایت ہے :’’عن شعبی عن فاطمۃ بنت قیس قالت طلقنی زوجی ثلاثاً فاردت النقلۃ فاتیت النبی صلی اللہ علیہ وسلم فقال انقلی الیٰ بیت ابن عمک عَمَروابن ام مکتوم فاعتدی عندہ ‘‘ ۔

ترجمہ : شعبی ؒ سے مروی ہے کہ فاطمہ بنت قیسؓ نے فرمایا کہ میرے شوہر نے مجھے تین طلاق دے دیں تو میں نے عدت میں نقل مکانی کر نا چاہی تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضرہو ئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنے چچازاد عمرو ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر چلی جا اور وہا ں عدت گذارو

 یعنی کہ حضور ﷺ نے  تین طلاق کو نافذ فرماتے ہوئے فاطمہ بنت قیسؓ کو شوہر کا گھر چھوڑنے کا فرمایا حالانکہ طلاق رجعی میں بیوی شوہر ہی کے گھر پر عدت گزارے گی۔

(مسلم شریف حدیث 2818)

(۴) ایک طویل روایت میں ہے کہ حضرت حسن  بن علیرضی اللہ عنہما نے اپنی بیوی کو تین طلاق دے دیں وہ بہت روئیں آپ رضی اللہ عنہ کو پتاچلاتو آپ رضی اللہ عنہ کو افسو س ہو ا اور فرمایا:’’لولاانی ابنت الطلاق لرجعتھا ولکنی سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایما رجل طلق امرأتہ ثلاثاًعندکل طہر تطلیقۃ اوعندرأس کل شہر تطلیقۃ ًاوطلقھا ثلاثاًجمیعاً لم تحل لہ حتی تنکح زوجاً غیرہ‘‘۔

ترجمہ :یعنی اگر میں نے اس کوبائنہ طلاق نہ دی ہو تی تو میں رجوع کر لیتا لیکن میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ جس شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاق دے دیں ہر طہر میں ایک ایک کر کے یا ہر مہینے میں ایک ایک کر کے یا اکٹھی تین طلاق دے دی ہوں تو جب تک وہ عورت دوسرا خاوند نہ کر لے پہلے شوہر کے لئے حلال نہیں ہو تی ۔

(۵) حضرت ابن عمررضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں ایک طلاق دی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھاتو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا رجوع کر لو تو اس پر ابن عمر رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا :’’ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ارأیت لوانی طلقتھا ثلاثاً اکان لی ان اراجعھا قال لا کانت تبین منک وتکون معصیۃً‘‘ ۔

ترجمہ :یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا فرماتے ہیں آپ اس بارے میں کہ اگر میں اس کو تین طلاق دے دیتا تو کیا میرے لئے رجوع جا ئز ہو تا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں وہ تجھ سے بائنہ ہو جاتی اور ایسا کر نا گناہ ہے۔

(سنن دارقطنی جلد 4 صفحہ 31)

(۶) اسی طرح صحیح حدیث ہے کہ:’’عن معاذ ابن جبلؓ یقول سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا معاذمن طلق للبدعۃ واحدۃً او اثنین او ثلاثاًالزمناہ بدعتہ ‘‘

ترجمہ : حضرت:معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااے معاذ رضی اللہ عنہ اگر کوئی شخص طلاق بدعی دے ایک دے یا دو دے یا تین دے تو ہم وہ طلاقیں اس پر نافذ کر دیں گے۔

(سنن دارقطنی جلد 4 صفحہ 20)

(۷) اسی طرح صحیح حدیث ہے کہ :’’عن ابراہیم بن عبداللہ بن الصامت عن ابیہ عن جدہ قال طلق بعض آبائی امرأتہ الفاً فانطلق بنوہ الیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقالوا یا رسول اللہ ان ابانا طلق أمّنا الفاًفھل لہ من مخرج فقال ان اباکم لم یتق اللہ فیجعل لہ من امرہ مخرجاً بانت منہ بثلاثٍ علی غیرالسنۃ وتسعمائۃ وسبعۃ وتسعون اثم فی عنقہ ‘‘

ترجمہ :حضرت ابراہیم بن عبداللہ بن عبادۃ بن صامت رضی اللہ عنہم نقل کر تے ہیں اپنے والد سے اور وہ دادا سے کہ (باپ دادا میں سے کسی نے اپنی بیوی کو ہزار طلاق دے دیں) تو ان کے بیٹے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو ئے اور عرض کیا ہمارے باپ نے ہماری ماں کو ہزار طلاق دے دیں ہیں تو کیا ان کے لئے راستہ (رجوع) ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہار ا باپ اللہ سے نہیں ڈرا (یعنی سنت طریقے پر طلاق نہیں دی) تو کیسے اس کے لئے راستہ (رجوع) ہو تین طلاق سے بیوی بائنہ ہو گئی۔ باقی 997اس کی گردن پر گناہ ہے۔

(دارقطنی جلد 4 صفحہ 20)

اسی طرح جب ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اس شخص کے بارے میں جس نے اپنی بیوی کو اکٹھی تین طلاق دیںدریافت کیاگیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا :’’قال ابن عباس وانک لم تتق اللہ فلااجد لک مخرجاً عصیت ربک وبانت منک امرأتک ‘‘۔

ترجمہ: ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تو اللہ سے نہیں ڈرا تو میں تیرے لئے مخرج (رجوع)نہیں ڈھونڈ سکتا تو نے اپنے رب کی نافرمانی کی تیری بیوی تجھ پر بائنہ ہو گئی۔

(سنن ابی دائود جلد 2 صفحہ 240)

 امام بخاری علیہ الرحمہ  نے کتاب صحیح بخاری میں ’’الطلاق مرتان …الخ‘‘سے بھی یہی استدلال کیا ہے ۔باب من اجازالطلاق الثلاث لقول اللہ تعالیٰ الطلاق مرتان فامساک بمعروف اوتسریح باحسان۔

(صحیح بخاری ص۲۰۱۳ج۵)

نیز صحابہ کرام علیہھم الرضوان کا بھی اسی پر اجماع ہےکہ ایک ساتھ تین طلاقیں دینے سے واقع ہو جاتی ہیں. حضرت عمر ،حضرت عثمان غنی،حضرت علی،ام المؤمنین حضرت عائشہ ،ام المؤمنین حضرت اُم سلمہ، حضرت عبداللہ ابن مسعود،حضرت عبداللہ ابن عباس ،حضرت عبداللہ ابن عمر،حضرت ابوہریرہ،حضرت انس،حضرت حسن بن علی ،حضرت ابو قتادہ، حضرت زیدبن ثابت،حضرت مغیرۃ بن شعبہ ،حضرت عمران بن حصین، حضرت عبداللہ بن مغفل ان تمام حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا مسلک تین طلاق کے تین ہونے کا ہے چاہے اکٹھی دی جائیں چاہے الگ الگ۔

(تفصیل وحوالہ جات کے لئے خیر الفتاویٰ جلد 5 صفحہ 345)

اور اسی پر جمہور ائمہ کا اتفاق ہے :’’فالکتاب والسنۃ واجماع الصالحین تو جب ایقاع الثلاث معاً وان کان معصیۃ‘‘۔

 (احکام القرآن للجصاص  جلد 2 صفحہ 85)

چنانچہ فقہ حنفی میں ہے :’’وذھب جمہور الصحابۃ ؓ والتابعینؒ ومن بعدھم من ائمۃؒ المسلمن الیٰ انہ یقع ثلاثاً ‘‘

 (فتح القدیرجلد 3 صفحہ 449)۔

اور فقہ مالکی میں ہے :’’وکلماطلق من ذلک یلزمہ‘‘

(مواہب الجلیل جلد 3 صفحہ 39)۔

فقہ شافعی میں ہے :’’قال شافعیؒ ومالکؒ وابو حنیفہؒ واحمد ؓ وجماہیر العلماؒء من السلف والخلف یقع ثلاث ‘‘

 (نووی شرح صحیح مسلم جلد 10 صفحہ 70)

اسی طرح فقہ حنبلی میں ہے :’’وان طلق ثلاثاً بکلمۃ واحدۃ وقع ثلاثاً وحرمت علیہ حتی تنکح زوجا ً غیرہ‘‘۔

(المغنی جلد 7 صفحہ 284)

پس احادیث صحیحہ اور اجماع امت سے یہ بات ثابت ہو گئی کہ ایک مجلس کی ’’تین طلاق تین ہی ہو تی ہیں ‘‘

بعض لوگ جو مسلم شریف کی اس حدیث سےعن ا بن طاوس عن أبيه عن ابن عباس قال كان الطلاق على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبي بكر وسنتين من خلافة عمر طلاق الثلاث واحدة فقال عمر بن الخطاب إن الناس قد استعجلوا في أمر قد كانت لهم فيه أناة فلو أمضيناه عليهم فأمضاه عليهم.

صحیح مسلم ج1 ص477،ص478،

 ابن عباس رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے کہ ’’زمانہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور خلافت صدیقی اور ابتدائی دور فاروقی میں تین طلاق ایک ہوتی تھی …الخ‘‘ استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ تین اکٹھی طلاقیں دی جائیں تو ایک ہوتی ہے

تو اس حدیث کے جوابات یہ ہیں

(۱) یہ حدیث سند ومتن کے اعتبار سے مضطرب ہے سند میں کبھی ’’عن طاؤس عن ابیہ ان اباصہبائ‘‘ اور کبھی ’’عن طاؤس ان اباصہبائ‘‘ ہے اور متن میں کبھی ’’لم یکن الطلاق ثلاثاً ‘‘اور کبھی ’’کانت الثلاث تجعل واحداً‘‘ اور کبھی ’’کان الطلاق علی عہد رسول اللہ ﷺ ‘‘ اور کبھی ’’الم یکن الطلاق‘‘ ہے اس لئے یہ روایت احادیث صحیحہ کے مقابلے میں قابل اعتبار نہیں

(۲) یہ حدیث منکر ہے لہٰذا احادیث صحیحہ کے مقابلے میں قابل حجت نہیں

جیسا کہ کتاب  احکام القرآن للقاضی اسماعیل میں ہے کہ’’طاؤس مع فصلہ وصلاحہ یروی اشیاء منکرۃ وعنھا ہذا الحدیث ‘‘

ترجمہ کا خلاصہ : طاؤس راوی منکر احادیث روایت کرتے ہیں جن میں سے یہ حدیث بھی ہے

 احکام القرآن للقاضی اسماعیل (الطلاق ثلاث ص۱۴۵) لھیئۃ الکبار العلماء ۔

(۳) یہ حدیث شاذ ہے اس لئے  صحیح کے مقابلے میں  متروک ہے’’قال ابن عبدالبر شذ طاؤس فی ھذاالحدیث‘‘

ترجمہ: ابن  ابن عبدالبر نے کہا کہ طاؤس نے اس حدیث میں شاذ کیا

(الطلاق ثلاث ص۱۴۵)

(۴) تین اکٹھی طلاقیں دی جائیں تو ایک ہوتی ہے یہ مذہب شاذ ہےجیسا کہ فتح الباری میں ہے کہ’’انہ مذہب شاذ ‘‘

ترجمہ کا خلاصہ: تین اکٹھی طلاقیں دی جائیں تو ایک ہوتی ہے یہ مذہب شاذ ہے

(فتح الباری شرح صحیح بخاری جلد 9 صفحہ 343)

(۵) یہ مجہول روایت ہے.جیسا کہ کتاب عون المعبود میں ہے کہ’’قال المنذری روایت عن الطاؤس مجہولۃ ‘‘

ترجمہ کا خلاصہ : المنذری نے کہا کہ طاؤس سے روایت مجہول ہے

 (عون المعبود جلد 4 صفحہ 197)

(۶) یہ مرجوح روایت ہے :جیسا کہ فتح الباری میں ہے کہ

’’ عن ابن منذر انہ لایظن بابن عباسؓ انہ یحفظ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم شیأً ویفتی بخلافہ فیتعین المصیر الی الترجیح ‘‘

ترجمہ کا خلاصہ : ابن منذر کہتے ہیں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اس بات کا تصور نہیں ہو سکتا کہ وہ حضور ﷺ سے سنی ہوئی بات کے خلاف فتوی دیں لہذا یہ روایت مرجوح ہے

 (فتح الباری جلد 9 صفحہ 343)

(۷) یہ صحابی کا قول ہے پس مرفوع روایت کے مقابلے میں متروک ہے.جیسا کہ فتح الباری میں ہے کہ’’ماثبت فیہ تقریرہ صلی اللہ علیہ وسلم فلاحجۃ فیہ‘‘ ۔

اس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تقریرثابت نہیں  پس مرفوع روایت کے مقابلے میں متروک ہے

(فتح الباری شرح صحیح بخاری جلد 9 صفحہ 345)

(۹) یہ حدیث منسوخ اور متروک العمل ہے کیونکہ راوی کا عمل اس کے خلاف ہے.خود حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا اپنا فتوی اس روایت کے خلاف ہے۔ کیونکہ ابن عباس رضی اللہ عنہ تین طلاق کو تین ہی فرماتے ہیں:عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ أَنَّہُ أَتَاہُ رَجُلٌ فَقَالَ طَلَّقْتُ اِمرَأتِیْ ثَلاَ ثًا فَقَالَ عَصَیْتَ رَبَّکَ وَحَرُمَتْ عَلَیْکَ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجاًغَیْرَکَ.

(جامع المسانید ج 2ص148، )

اور اصول حدیث کا قاعدہ ہے:عمل الراوی بخلاف روایتہ بعد الروایۃ مما ہو خلاف بیقین یسقط العمل بہ عندنا

(المنار مع شرحہ ص194،)

کہ راوی کا روایت کرنے کے بعد اس کے خلاف عمل کرنا اس روایت پر عمل کو ساقط کر دیتا ہے۔

لہذا اس اصول کی رو سے بھی مذکورہ روایت قابلِ عمل نہیں ہے۔

10)خود غیر مقلدین کے فتاوی میں ہے :’’ یہ کہ مسلم کی یہ حدیث امام حازمی و تفسیر ابن جریر و ابن کثیر وغیرہ کی تحقیق سے ثابت ہے کہ یہ حدیث بظاہرہ کتاب و سنت صحیحہ و اجماع صحابہ رضی اللہ عنہم وغیرہ ائمہ محدثین کے خلاف ہے لہذا حجت نہیں‘‘

(فتاوی ثنائیہ ج2 ص219)

(۱۰) یہ حدیث غیر مدخولہ کی طلاق کے بارے میں ہے۔

جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی ایک حدیث سنن ابی داود میں ہے، جس میں راوی سے سوال کرنے والا شخص ایک ہی ہے یعنی ابو الصَّہباء، اور دونوں روایتوں کے الفاظ بھی تقریباً ملتے جلتے ہیں۔ روایت یہ ہے:

قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ بَلَى كَانَ الرَّجُلُ إِذَا طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلاَثًا قَبْلَ أَنْ يَدْخُلَ بِهَا جَعَلُوهَا وَاحِدَةً عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- وَأَبِى بَكْرٍ وَصَدْرًا مِنْ إِمَارَةِ عُمَرَ.

(سنن ابی داؤد: ج1 ص317 باب نسخ المراجعۃ بعد التطليقات الثلاث)

اسی طرح صحیح مسلم کے راوی طاؤوس یمانی کی خود اپنی روایت میں بھی غیر مدخول بہا کی قید موجود ہے۔ علامہ علاء الدین الماردینی (م745ھ) لکھتے ہیں:

ذكر ابن أبى شيبة بسند رجاله ثقات عن طاوس وعطاء وجابر بن زيد انهم قالوا إذا طلقها ثلاثا قبل ان يدخل بها فهى واحدة.

(الجوہر النقی: ج 7ص331)

ان دونوں روایات میں ”قَبْلَ أَنْ يَدْخُلَ بِهَا“ (غیر مدخول بہا) کی تصریح ہے۔ معلوم ہوا کہ حدیث صحیح مسلم مطلق نہیں بلکہ ”غیر مدخول بہا“ کی قید کے ساتھ مقید ہے۔ ایسی عورت کو خاوند الگ الگ الفاظ (أنت طالق أنت طالق أنت طالق) سے طلاق دے تو پہلی طلاق سے ہی وہ بائنہ ہو جائے گی اور دوسری تیسری طلاق لغو ہوجائے گی، اس لیے کہ وہ طلاق کا محل ہی نہیں رہی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے دور، حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دور میں غیر مدخول بہا کو طلاق دینے کا یہی طریقہ رائج تھا اس لیے ان حضرات کے دور میں غیر مدخول بہا کو دی گئی ان تین طلاقوں کو ایک سمجھا جاتا تھا۔ لیکن بعد میں لوگ ایک ہی جملہ میں اکٹھی تین طلاقیں دینے لگے(یعنی انت طالق ثلاثا) تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اب تین ہی شمار ہوں گی، کیونکہ غیر مدخول بہا کو ایک ہی لفظ سے اکٹھی تین طلاقیں تین ہی واقع ہوتی ہیں۔

 واللہ اعلم ورسولہ اعلم عزوجل و ﷺ

کتبہ   محمد وقاص عطاری

نظر ثانی  ابو محمد مفتی انس رضا قادری حفظہ اللہ تعالی

27 محرم الحرام 1443 ہجری