فنائے مسجد کے کسی حصہ مثلاً اسٹور وغیرہ کو کرایہ پر دینا

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں کہ فنائے مسجد کے کسی حصہ مثلاً اسٹور وغیرہ کو کرایہ پر دینا کیسا ہے؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

مسجد کے کسی بھی جز کو کرائے پر دینا جائز نہیں ہے بلکہ یہ ناجائز و حرام ہے کیونکہ یہ مسجد کی حرمت (ادب) کے خلاف ہے اور اس معاملے میں فنائے مسجد بھی مسجد کے حکم میں ہے۔

اعلی حضرت امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ و الرضوان فتاوی رضویہ میں اسی طرح کے سوال کے جواب میں فرماتے ہیں: جو زمین مسجد ہوچکی اس کے کسی حصہ کسی جز کا غیرمسجد کردینا اور اگرچہ متعلقات مسجد ہی سے کوئی چیز ہو حرام قطعی ہے۔ قالﷲ تعالٰی” وَّ اَنَّ الْمَسٰجِدَ لِلہِ”(ﷲتعالٰینے فرمایا:بیشك مسجدیںﷲ تعالٰی کی ہیں) پہلے جو ایک حصہ فرش کا زینہ میں شامل کرنا چاہا تھا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ تمام فرش گرگیا اب فرش مسجد کو دکانیں کرناچاہتے ہیں،یہ حرام اور سخت حرام ہے،ان دکانوں میں بیٹھنا حرام ہوگا،ان سے کوئی چیزخریدنے کےلئے جانا حرام ہوگا،فنائے مسجد میں دکانیں کرنے کو تو علماء نے منع فرمایا نہ کہ معاذﷲ نفس مسجد میں۔

بزازیہ اوردرمختار میں ہے: لایجوز ان یتخذ شیئ منہ مستغلا

مسجد کے کسی حصہ کو کرایہ حاصل کرنے کےلئے مقرر کرنا جائز نہیں۔

مبسوط السرخسی اور عالمگیریہ میں ہے: قیم یرید ان یبنی حوانیت فی فناء المسجد لایجوز ذٰلك لانہ یسقط حرمۃ المسجد لانہ فناء المسجد لہ حکم المسجد

کوئی متولی فنائے مسجد میں دکانیں بنانا چاہتا ہے تو اسے ایسا کرنا جائز نہیں اس لئے کہ یہ حرمت مسجد کو ساقط کردیتا ہے کیونکہ فنائے مسجد کا حکم وہی ہے جو خود مسجد کا ہے.

(فتاوی رضویہ ج 16ص484 رضا فاؤنڈیشن لاہور).

“فتاوی نوریہ” میں شیخ الحدیث و فقیہ اعظم ابو الخیر مولانا نور اللہ نعیمی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:

مسجد میں دکانیں بنانا٬ کرائے پر دینا مسجد کی بے حرمتی و اہانت ہے جو شرعاً حرام اور سخت حرام ہے  افسوس بعض اہل اسلام کے حوصلے اتنے پست ہوگئے ہیں کہ خانۂ خدا کے اجزا کو کرائے پر دینے کیلئے تیار ہوگئے یہ ہرگز ہرگز جائز نہیں ہے قرآن کریم کا ارشاد ہے “ان المساجد للله بے شک مسجدیں خاص اللہ کیلئے ہیں” فتاوی امام قاضی خان ص٧١٣  ج٤ ٬ بحر الرائے ص۲٤٩ ج٥، فتح القدير ص٤٤٦ ج٥ ، فتاوي عالمگیر٣٤٩ ص ٢ میں ہے و النظم من الھندیۃ قیم المسجد لا یجوز لہ ان یبنی حوانیت فی حد المسجد او فی فنائہ لان المسجد اذا حانوتا او مسکنا تسقط حرمتہ وھذا لا یجوز یعنی متولی مسجد کیلئے جائز نہیں ہے کہ وہ مسجد کی حد میں یا صحن میں دکانیں بنائے کیونکہ مسجد کو جب دکان یا مسکن بنایا جاتا ہے تو یہ اس کی بے حرمتی ہے جو کہ جائز نہیں ہے. بحرالرائق ص۲٥١ ج٥ ٬ فتاوی قاضی خان ص۷١٣ ج٤ ، درالمختار ص ٥١٣ ج٣ مطبوعہ مع ردالمحتار میں ہے:و النظم من البحر لایجوز للقیم ان یجعل شیئا من المسجد مستغلا او مسکنا تسقط حرمتہ و ھذا لا یجوز یعنی متولی کیلئے جائز نہیں ہے کہ وہ بنائے مسجد کو نفع کمانے یا  بسنے کی جگہ. ردالمحتار ص٥١٣ ج٣ میں ہے والمراد من المستغل ان يؤجر منه شئ لاجل عمارته  اور مستغل سے مراد یہ ہے کہ مسجد کا کوئی حصّہ کرایہ پر دیا جائے کہ اس پر خرچ کیا جائے. فتاوی عالمگیری ص٣٤٧ ج ۲ میں ہے اذا اراد انسان ان يتخذا تحت المسجد الحوانيت غلة لمرمة المسجد أو فوقه ليس له یعنی جب کوئی شخص ارادہ کرے کہ مسجد کے نیچے دکانیں بنائے یا اس کے اوپر کہ ان کی آمدنی مسجد پر خرچ کرے گا تو یہ اس کیلئے جائز نہیں ہے. پس ان عبارات سے امس و شمس کی طرح واضح ہوگیا کہ ایسا کرنا شرعا ناجائز اور سخت ناجائز ہے اور اس میں مسجد کی بے حرمتی ہے.

(فتاوی نوریہ ج1 کتاب الوقف(مساجد وغیرہ) ص 140،141 ناشر شعبہ تصنیف و تالیف دارالعلوم  حنفیہ فریدیہ بصیر پور ضلع اوکاڑہ).

“بہار شریعت” میں صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں: مسجد کا کوئی حصّہ کرایہ پر دینا کہ اسکی  آمدنی مسجد پرصَرف(خرچ) ہوگی حرام ہے اگرچہ مسجد کو ضرورت بھی ہو.

(بہار شریعت حصہ 10 مسجد کا بیان ص 564 مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)

“فتاوی ہندیہ” میں ہے : قیم یرید ان یبنی حوانیت فی فناء المسجد لایجوز ذٰلك لانہ یسقط حرمۃ المسجد لانہ فناء المسجد لہ حکم المسجد

کوئی متولی فنائے مسجد میں دکانیں بنانا چاہتا ہے تو اسے ایسا نہیں کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ فنائے مسجد کا حکم وہی ہے جو خود مسجد کا ہے.

(فتاوٰی ہندیۃ ج ۲ کتاب الوقف الباب الحادی عشرفی المسجد ص ٤٦٢نورانی کتب خانہ پشاور )

واللہ تعالی اعلم بالصواب والیہ المرجع والمآب

مجیب :ابو معاویہ زاہد بشیر عطاری مدنی

نظرثانی:ابو احمد مفتی محمد انس رضا قادری المدنی زید مجدہ

27/08/2021