تقلید شخصی کی شرعی حیثیت

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین مسئلہ ذیل میں کہ تقلید شخصی کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب۔

قرآنی آیات، احادیثِ صحیحہ، عملِ امت اور اقوالِ مفسرین سے تقلید کا واجب ہونا ثابت ہے۔ جو شخص خود مجتھد نہ ہو اس پر چاروں اماموں ( یعنی امامِ اعظم ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل علیھم الرحمہ ) میں سے کسی ایک کی تقلید کرنا واجب ہے؛ کیونکہ جو شخص جاہل، ان پڑھ ہو، دینی تعلیم حاصل نہ کی ہو اور اپنے کام کاج میں مصروف رہتا ہو اس پر یہ ذمہ داری لگا دینا کہ اپنے روزمرہ کے مسائل کو خود قرآن و حدیث سے نکالے اور ان پر عمل کرے تو یہ اس کے لئے بہت مشکل ہے، مشقت میں ڈالنے والا ہے اور قرآنی احکامات کے بالکل خلاف ہے۔ اگر دینی تعلیم حاصل بھی کی ہو یا پھر یا عالم ہو تو وہ خود براہِ راست قرآن و حدیث سے مسائل نکالنے پر قادر نہیں ہو گا بلکہ کسی نہ کسی عالم کی کتاب سے پڑھ کر ہی جواب دے گا تو یوں یہ بھی کسی نہ کسی مجتھد کی تقلید کرنے ان  تقلید کرنا ان مجتھدین کی واجب ہے جن کے اصول و فروع جمع شدہ اور مدون ہوں ( یعنی ان کو تحریری شکل میں لایا گیا ہو )، اور انہی چاروں اماموں کے اصول و فروع کو جمع اور مدون کیا گیا ہے، ان کے علاوہ جتنے بھی مجتھدین گزرے ہیں ان کے اصول و فروع جمع اور مدون نہیں ہیں لہذا ان کی تقلید کرنا بھی جائز نہیں ہے۔  ( یاد رہے کہ پاک وہند والوں پر امامِ اعظم ابو حنیفہ علیہ الرحمہ کی تقلید کرنا واجب ہے کیونکہ یہاں نہ تو کسی دوسرے مذہب کے علماء ہیں اور نہ ہی کتابیں ہیں جنہیں کوئی خود پڑھ کر سمجھ سکے )۔

اللہ پاک قرآنِ کریم میں ارشاد فرماتا ہے: ” فَسْــٴَـلُوْۤا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَۙ۔

ترجمہ کنزالایمان : تواے لوگو! علم والوں سے پوچھو اگر تمہیں علم نہیں۔

( سورة النخل، پارہ 14، آیت 43 ).

اس آیت کی تفسیر میں امام فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ” الـمـكـلف إذا نزلت به واقعة فإن كان عالماً بحكمها لم يجز له القياس وإن لم يكن عالماً بحكمها وجب عليه سؤال من كان عالماً بها لظاهر هذه الآية “.ترجمہ: مکلف کو اگر کوئی مسئلہ درپیش ہو تو اگر وہ اس کے حکم سے آگاہ ہے تو اس کے لئے قیاس جائز نہیں اور اگر اسے معلوم نہیں تو اس پر اس آیت کی روشنی میں کسی جاننے والے سے پوچھنا واجب ہے۔

( تفسیرِ کبیر، جلد 7، صفحہ 211، مطبوعہ مکتبہ علومِ اسلامیہ لاہور )۔

اس آیت مبارک کی تفسیر میں روح المعانی میں ہے: ” واستـدل بهـا أيضاً على وجـوب الـمـراجـعـة لـلـعـلماء فيما لا يعلم و في الإكليل للجلال السيوطي أنه استـدل بـهـا عـلـى جـواز تـقليد العامي في الفروع “.ترجمہ: آیت سے اس بات پر استدلال کیا گیا ہے کہ جس چیز کا علم خود نہ ہو اس میں علماء سے رجوع کرنا واجب ہے اور علامہ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ اکلیل میں لکھتے ہیں کہ اس آیت سے عام آدمیوں کے لئے فروعی مسائل میں جوازِ تقلید پر استدلال کیا گیا ہے۔

( تفسیرِ روح المعانی، جلد 14، صفحہ 148، مطبوعہ دار إحياء التراث العربي بيروت)۔

کثیر احادیث سے بھی تقلید کا ثبوت ملتا ہے۔چنانچہ ترمذی شریف کی حدیث پاک میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ” من نظر في دينه إلى من هو فوقه فاقتدى بہ “.ترجمہ: جو شخص دین کے معاملے میں اپنے سے بلند مرتبہ شخص کود یکھے تو اس کی اقتداء کرے۔

( جامع ترمذی، کتاب صفة القيامة والرقائق — جلد 04، صفحہ 665، مطبوعہ دار إحياء التراث العربي بيروت )۔

دوسری حدیثِ پاک میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ” الا سـئـلـوا ان لـم يـعلموا فانما شفاء العى السؤال “۔ترجمہ: اگر وہ نہیں جانتے تو پوچھتے کیوں نہیں؟ کیونکہ جہالت کی شفاء سوال کرنا ہے ۔

( سننِ ابی داؤد، کتاب الطہارت، باب المجروح يتيمم، جلد 01, صفحہ 145، مطبوعہ دار الفکر بیروت )

امام عارف باللہ سیدی عبدالوہاب شعرانی قدس سرہ الربانی میزان الکبری میں فرماتے ہیں: ” یـجـب على المقلد العمل بالارجح من القولين في مذهبه ۔۔۔ كما عليه عمل الناس فـي كـل عصر “. ترجمہ: مقلد پر واجب ہے کہ خاص اسی بات پر عمل کرے جو اس کے مذہب میں راجح ٹھہری ہو۔۔۔ جیسا کہ  ہر زمانے میں علماء کا اسی پر عمل رہا ہے۔

( الميزان الكبرى، فصل فان قال قائل فهل يجب، جلد 01، صفحہ 11، مطبوعہ مصطفی البابی،مصر )

شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ” فاذا كان إنسان جاهل في بلاد الهند أو في بلاد ما وراء النهر وليس هناك عالم شافعی ولا مالکی ولا حنبلي و لا كتاب من كتب هذه الـمـذاهـب وجـب عليه أن يقلد لمذهب أبي حنيفة ويحرم عليه أن يخرج من مـذهبـه لأنه حينئذ يخلع ربقة الشريعة ويبقى سدى مهملا “ترجمہ: اگر کوئی جاہل شخص ہندوستان یا ماوراء النہر کے علاقے میں ہو اور وہاں کوئی شافعی، مالکی یا حنبلی عالم موجود نہ ہو اور نہ ان مذاہب کی کوئی کتاب دستیاب ہو تو اس پر صرف امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی تقلید واجب ہو گی اور ان کے مذہب کو چھوڑنا اس کے لئے حرام ہو گا، کیونکہ اس صورت میں وہ شخص شریعت کی پابندیاں اپنے گلے سے اتار کر بالکل آزاد اور مہمل ہو جاۓ گا۔

( الانصاف في بيان اسباب الاختلاف، صفحه 78، مطبوعہ دار النفائس )۔

حجیتِ فقہ میں ہے: ” ائمہ اربعہ کے بعد سب علماء و مجتہد ین نے تقلید پر اجماع کر لیا اس کے بعد سے مسلمانوں میں چار اماموں کی تقلید رائج ہے۔جو غیرِ مجتھد ان چاروں ائمہ کی تقلید کے علاوہ کوئی اور راہ لے وہ صراط مستقیم سے ہٹ گیا ۔ علامہ طحطاوی حاشیہ درمختار میں نقل فرماتے ہیں: ” مـن شـذ عن جمهور اهل الفقه والعلم والسواد الاعظم فقد شذ فيما يدخله فی النار “۔ترجمہ: جوشخص جمہور اہل علم و فقہ سوادِ اعظم سے جد اہو جاۓ وہ ایسی چیز میں تنہا ہوا جوا سے دوزخ میں لے جاۓ گی ۔ (حاشية الـطـحـطـاوى على الدر المختار، کتاب الذبائح، جلد 04، صفحه 153، مطبوعه دارالمعرفة بیروت ).

( حجیتِ فقہ، صفحہ 146، مطبوعہ مکتبۃ فیضانِ شریعت لاہور )