خرید و فروخت چھوڑ دو اس سے مراد پہلی اذان ہے جو زوال کے بعد ہوتی ہے یا دوسری؟

سوال: کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ قرآن پاک میں یہ جو حکم ہے کہ جب جمعہ کی اذان ہو تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو اور خرید و فروخت چھوڑ دو۔ تو اس سے مراد پہلی اذان ہے جو زوال کے بعد ہوتی ہے یا دوسری جو امام کے منبر پر بیٹھنے کے بعد ہوتی ہے؟ برائے کرم ! رہنمائی فرمادیں۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب

قرآن پاک میں یہ جو حکم ہے کہ جب جمعہ کی اذان ہو تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو اور خرید و فروخت چھوڑ دو۔ اس سے مراد پہلی اذان ہے جو زوال کے بعد ہوتی ہے، اگرچہ پہلی اذان حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں اضافہ کی گئی مگر نماز کی تیاری کے واجب ہونے اور خرید و فروخت ترک کر دینے کا تعلق اسی سے ہے۔ کیونکہ اگر اس سے اذان ثانی مراد لی جائے تو سنتیں، خطبہ سننے، اور رہائش دور ہونے کی صورت میں نماز جمعہ ہی فوت ہو جانے کا اندیشہ ہے۔

قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: يا أيها الذين آمنوا إذا نودي للصلاة من يوم الجمعة فاسعوا إلى ذكر الله وذروا البيع ذالكم خير لكم إن كنتم تعلمون۔
ترجمۂ کنزالایمان: اے ایمان والو جب نماز کی اذان ہو جمعہ کے دن تو اللّٰہ کے ذکر کی طرف دوڑو اور خرید و فروخت چھوڑ دو یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو۔
(القرآن، سورہ جمعہ، آیت9)

روح المعانی فی تفسير القرآن میں ہے: وقال مفتي الحنفية في دار السلطنة السنية الفاضل سعد الله جلبي: المعتبر في تعلق الأمر يعني قوله تعالى الآتي: فاسعوا هو الأذان الأول في الأصح عندنا لأن حصول الإعلام به لا الأذان بين يدي المنبر۔۔۔۔۔۔۔وهذا القول هو الصحيح في المذهب۔
ترجمہ: دارالسلطنت سنیہ میں حنفی مفتی فاضل سعد اللہ جلبی فرماتے ہیں کہ: ہمارے نزدیک اصح قول کے مطابق اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد ’’فاسعوا‘‘ کے حکم کا تعلق اذان اول سے ہے نہ کہ منبر کے سامنے ہونے والی دوسری اذان کیونکہ اس سے اعلان مقصود ہے۔۔۔۔۔۔۔اور یہی قول مذہب حنفی میں صحیح ہے۔
تفسیر قرآن روح المعانی، جلد14، 293، مطبوعہ دار الكتب العلميہ، بيروت، لبنان)

صراط الجنان فی تفسیرالقرآن میں اس آیت کے تحت مفتی قاسم مدظلہ العالی فرماتے ہیں کہ: اس آیت میں اذان سے مراد پہلی اذان ہے نہ کہ دوسری اذان جو خطبہ سے مُتَّصِل ہوتی ہے۔ اگرچہ پہلی اذان حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے زمانے میں اضافہ کی گئی مگر نماز کی تیاری کے واجب ہونے اور خرید و فروخت ترک کر دینے کا تعلق اسی سے ہے۔
(صراط الجنان فی تفسیرالقرآن، جلد10، صفحہ152، مکتبۃ المدینہ، کراچی، پاکستان)

صحیح بخاری میں ہے: عن ‌السائب بن يزيد قال: «كان النداء يوم الجمعة، أوله إذا جلس الإمام على المنبر، على عهد النبي صلى الله عليه وسلم وأبي بكر وعمر رضي الله عنهما، فلما كان عثمان رضي الله عنه، وكثر الناس، زاد النداء الثالث على الزوراء.»
ترجمہ: حضرت سائب بن یزید سے مروی ہے، فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ابوبکر صدیق وعمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے زمانے میں جمعہ کی پہلی اذان جب ہوتی تھی جب امام ممبر پربیٹھتا، جب حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا زمانہ آیا اور لوگ بڑھ گئے تو آپ نے مقام زوراء پر تیسری اذان زیادہ کی۔
(صحیح بخاری، جلد2، كتاب الجمعہ، باب الأذان يوم الجمعہ، صفحہ8، مطبوعہ دار طوق النجاہ، بيروت، لبنان)

مراٰۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح میں مفتی احمد یارخان نعیمی اس حدیث کی شرح میں ارشاد فرماتے ہیں کہ: یعنی پہلی اذان خطبے کی ہوتی ہے اور دوسری اذان خطبہ کے بعد یعنی تکبیر، شریعت میں تکبیر کو بھی اذان کہا جاتا ہے اس حدیث کی بنا پر بعض لوگوں نے کہا کہ خطبہ کی اذان سے تجارتیں اور دنیاوی کاروبار حرام ہوتے ہیں کیونکہ آیت کریمہ’’اذا نودی للصلوۃ‘‘الخ جب نازل ہوئی تو پہلی اذان تھی ہی نہیں۔۔۔۔۔چونکہ یہ اذان ایجاد کے لحاظ سے تیسری ہے اس لیئے اسے ثالث فرمایا گیا۔۔۔۔۔خیال رہے فتویٰ اس پر ہے کہ تجارتیں اور کاروبار بند کرنا اذان اول پر فرض ہے کیونکہ اِذَا نُوۡدِیَ مطلق ہے آیت کے معنے یہ ہیں کہ جب جمعہ کی ندا ہوجائے کاروبار چھوڑدو خواہ خطبہ کے وقت ہو یا اس سے پہلے۔
(مراٰۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح، جلد2، صفحہ337، مطبوعہ نعیمی کتب خانہ، گجرات، پاکستان)

نور الإيضاح ونجاة الأرواح میں ہے: ويجب السعي للجمعة وترك البيع بالأذان الأول في الأصح۔
ترجمہ: اصح مذہب میں جمعہ کیلئے اذان اول پر سعی کرنا اور خرید و فروخت چھوڑدینا واجب ہے۔
(نور الايضاح ونجاة الارواح، صفحہ104، مطبوعہ مكتبة العصريہ، بیروت، لبنان)

مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح میں ہے: يجب بمعنى يفترض “ترك البيع” وكذا ترك كل شيء يؤدي إلى الاشتغال عن السعي إليها أو يخل به كالبيع ماشيا إليها لإطلاق الأمر “بالأذان الأول” الواقع بعد الزوال “في الأصح۔
ترجمہ: خرید و فروخت ترک کردینا یہاں واجب بمعنیٰ فرض ہے، اور اسی طرح ہر وہ چیز جو ایسی مشغولیت کی طرف لے جائے جو سعی سے دور کرتی ہو یا سعی میں خلل واقع کرے جیساکہ جمعہ کیلئے جاتے ہوئے خرید و فروخت کرنا اذان اول کے مطلق حکم کی وجہ سے، اصح مذہب میں اذان اول سے مراد وہ اذان ہے جو زوال کے بعد دی جائے۔
(مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح، صفحہ197، مطبوعہ مطبوعہ مكتبة العصريہ، بیروت، لبنان)

ہدایہ فی شرح بدایۃ المبتدی میں ہے: إذا أذن المؤذنون الأذان الأول ترك الناس البيع والشراء وتوجهوا إلى الجمعة ” لقوله تعالى: {فاسعوا إلى ذكر الله وذروا البيع}۔
ترجمہ: جب مؤذن پہلی اذان دے دیں تو لوگ خرید و فروخت چھوڑدیں اور نماز جمعہ کی طرف متوجہ ہوجائیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: تو اللّٰہ کے ذکر کی طرف دوڑو اور خرید و فروخت چھوڑ دو۔
(ہدایہ فی شرح بدایۃ المبتدی، جلد1، صفحہ84، دار احياء التراث العربي، بيروت، لبنان)

مختصر القدوری میں ہے: وإذا أذن المؤذنون يوم الجمعة الأذان الأول ترك الناس البيع والشراء وتوجهوا إلى صلاة الجمعة۔
ترجمہ: اور جب مؤذن جمعہ کے دن پہلی اذان دے دیں تو لوگ خرید و فروخت چھوڑدیں اور نماز جمعہ کی طرف متوجہ ہوجائیں۔
(مختصر القدوری، صفحہ40، مطبوعہ دار الكتب العلميہ، بیروت، لبنان)

در مختار شرح تنوير الأبصار میں ہے: (ووجب سعي إليها وترك البيع) ولو مع السعي، وفي المسجد أعظم وزرا (بالاذان الاول) في الاصح وإن لم يكن في زمن الرسول بل في زمن عثمان. وأفاد في البحر صحة إطلاق الحرمة على المكروه تحريما۔
ترجمہ: جمعہ کی سعی کرنا اور خرید و فروخت چھوڑدینا واجب ہے، اگر وہ خریدو فروخت دوران سعی ہو، اور اگر یہ خرید و فروخت مسجد میں ہو تو بڑا گناہ ہے، اصح یہی ہے، اگرچہ اذان اول رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ والہ وسلم کے زمانے میں نہ تھی لیکن حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں تھی۔
(در مختار شرح تنوير الأبصار، صفحہ11، مطبوعہ دار الكتب العلميہ، بيروت، لبنان)

ردالمحتار شرح درمختار میں ہے: والأصح أنه الأول باعتبار الوقت، وهو الذي يكون على المنارة بعد الزوال. اهـ. والزوراء بالمد اسم موضع في المدينة۔
ترجمہ: اصح قول کے مطابق وقت کے اعتبار سے اذان اول مراد ہے اور وہ منار پر زوال کے بعد دی جاتی ہے، زوراء مد کیساتھ ایک ایسی جگہ کا نام ہے جو مدینے میں واقع ہے۔
(ردالمحتار شرح درمختار، جلد2، صفحہ161، مطبوعہ دار الفكر، بيروت، لبنان)

بنایہ شرح ہدایہ میں ہے: (جرى التوارث) من زمن عثمان بن عفان إلى يومنا هذا. (ولم يكن على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم إلا هذا الأذان) أي الأذان الذي يؤذن بين يدي المنبر حين صعد الإمام المنبر، لما روى البخاري من حديث السائب بن يزيد رحمه الله قال «: كان البداء يوم الجمعة أوله إذا جلس الإمام على المنبر على عهد النبي صلى الله عليه وسلم وأبي بكر وعمر رضي الله عنهما فلما أن كان عثمان رضي الله عنه – وكثر الناس زاد النداء على الزوراء» كما ذكرناه، وعن الحسن بن زياد عن أبي حنيفة – رحمه الله -: هو أذان المنارة؛ لأنه لو اشترطوا الأذان عند المنبر يفوته أداء السنة وسماع الخطبة، وربما يفوته أداء الجمعة إذا كان المصر بعيد الأطراف۔
ترجمہ: اذان اول حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور سے لیکر آج تک رائج ہے۔ حالانکہ اذان اول رسول اللہ صلی اللہ علیہ کے دور میں نہیں تھی مگر وہ اذان جو امام کے ممبر پر بیٹھنے پر امام کے سامنے دی جاتی ہے، جیساکہ امام بخاری نے سائب بن یزید رضی اللہ عنہ کی حدیث روایت کرتے ہیں کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ابوبکر صدیق وعمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے زمانے میں جمعہ کی پہلی اذان جب ہوتی تھی جب امام ممبر پر بیٹھتا، جب حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا زمانہ آیا اور لوگ بڑھ گئے تو آپ نے زوراء کے مقام پر نداء( یعنی اذان) کا اہتمام کیا جیساکہ ہم پہلے ذکر کرچکے، امام اعظم ابو حنیفہ سے حسن بن زیاد نقل کرتے ہیں کہ اس سے مراد منارے کی اذان ہے، کیونکہ اگر اس حکم کو اذان ثانی کے ساتھ مشروط کیا جائے تو سنتیں، خطبہ سننے، اور بعض اوقات نماز جمعہ ہی فوت ہو جانے کا اندیشہ ہے جبکہ رہائش بھی دور ہو۔
(بنایہ شرح ہدایہ، جلد3، صفحہ90، مطبوعہ دار الكتب العلميہ، بيروت، لبنان )

عناية شرح الهدايہ میں ہے: والأصح أن المعتبر في وجوب السعي وكراهة البيع هو الأذان الأول إذا كان بعد الزوال لحصول الإعلام به مع ما ذكرنا في قول الحسن آنفا وهو اختيار شمس الأئمة السرخسي
ترجمہ: سعی واجب ہونے اور خرید و فروخت کے مکروہ ہونے میں اصح قول یہ ہے کہ اذان اول مراد ہے، جبکہ زوال کے بعد دی جائے، باوجود یہ کہ حسن بن زیاد کا قول جو ہم نے ابھی بیان کیا اسے شمس الائمہ امام سرخسی نے اختیار کیا ہے۔
(عناية شرح الهدايہ، جلد2، صفحہ69، مطبوعہ دار الفكر، بیروت، لبنان)

مبسوط سرخسی میں ہے: والأصح أن كل أذان يكون قبل زوال الشمس فذلك غير معتبر والمعتبر أول الأذان بعد زوال الشمس سواء كان على المنبر أو على الزوراء۔
ترجمہ: اصح قول یہ ہے کہ ہر وہ اذان جوکہ زوال شمس سے پہلے ہو اس کا اعتبار نہیں کیا جائے گا۔ بلکہ زوال شمس کے بعد جو بھی پہلی اذان ہو اس کا اعتبار کیا جائے گا خواہ وہ امام کے ممبر پر آجانے کے بعد دی جائے یا بازار میں۔
(مبسوط سرخسی، جلد1 صفحہ134، دار المعرفہ، بيروت، لبنان)

کنزالدقائق میں ہے: ويجب السعي وترك البيع بالأذان الأول۔
ترجمہ: پہلی اذان پر سعی کرنا اور خریدوفروخت کو چھوڑدینا واجب ہے۔
(کنزالدقائق، صفحہ190، مطبوعہ دار البشائر الإسلاميہ، دار السراج، بیروت لبنان)

بحرالرائق شرح کنزالدقائق میں ہے: (قوله ويجب السعي وترك البيع بالأذان الأول) لقوله تعالى {يا أيها الذين آمنوا إذا نودي للصلاة من يوم الجمعة فاسعوا إلى ذكر الله وذروا البيع} [الجمعة: ٩] ، وإنما اعتبر الأذان الأول لحصول الإعلام به ومعلوم أنه بعد الزوال إذ الأذان قبله ليس بأذان وهذا القول هو الصحيح في المذهب۔
ترجمہ: (اور ان کا یہ قول سعی کرنا اور خریدوفروخت چھوڑدینا اذان اول پر واجب ہے) کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: اے ایمان والو جب نماز کی اذان ہو جمعہ کے دن تو اللّٰہ کے ذکر کی طرف دوڑو اور خرید و فروخت چھوڑ دوـ(سورہ جمعہ، آیت9) اذان اول کا اعتبار اعلان کے حصول کیلئے ہے اور اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ اذان جو زوال کے بعد ہو کیونکہ زوال سے پہلے دی جانے والے اذان، اذان نہیں ہے، اور یہی قول مذہب میں صحیح ہے۔
(بحرالرائق شرح کنزالدقائق، جلد2، صفحہ168، مطبوعہ دار الكتاب الإسلامي، قاھرہ، مصر)

فتاویٰ عالمگیری میں ہے: ويجب السعي وترك البيع بالأذان الأول، وقال الطحطاوي: يجب السعي ويكره البيع عند أذان المنبر وقال الحسن بن زياد المعتبر هو الأذان على المنارة والأصح أن كل أذان يكون قبل الزوال فهو غير معتبر والمعتبر أول الأذان بعد الزوال سواء كان على المنبر أو على الزوراء، كذا في الكافي.
ترجمہ: سعی کے واجب ہونے اور خرید و فروخت کے چھوڑنے میں اذان اول کا اعتبار کیا جائے گا، جبکہ امام طحاوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ: منبر کی اذان کے وقت سعی واجب اور بیع مکروہ ہوگی اور حسن بن زیاد علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ منارے پر دی جانے والی اذان مراد ہے۔ اصح یہ ہے کہ ہر وہ اذان جوکہ زوال شمس سے پہلے ہو اس کا اعتبار نہیں کیا جائے گا۔ بلکہ زوال شمس کے بعد جو بھی پہلی اذان ہو اس کا اعتبار کیا جائے گا خواہ وہ امام کے ممبر پر آجانے کے بعد دی جائے یا بازار میں۔ جیساکہ کافی میں ہے،
(فتاویٰ عالمگیری،جلد1، صفحہ149، كتاب الصلاة، الباب السادس عشر في صلاة الجمعة
مطبوعہ دار الفكر بيروت، لبنان)

فتاویٰ رضویہ میں ہے: جمعہ کی پہلی اذان کے وقت بیع اگرچہ صحیح ہے لیکن مکروہ تحریمی ہے۔
(فتاویٰ رضویہ، جلد23، صفحہ605، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاہور، پاکستان)

بہارشریعت میں ہے: پہلی اذان کے ہوتے ہی سعی واجب ہے اور بیع وغیرہ ان چیزوں کا جو سعی کے منافی ہوں چھوڑ دینا واجب یہاں تک کہ راستہ چلتے ہوئے اگر خرید و فروخت کی تو یہ بھی ناجائز اور مسجد میں خرید و فروخت تو سخت گناہ ہے اور کھانا کھارہا تھاکہ اذان جمعہ کی آواز آئی اگر یہ اندیشہ ہو کہ کھائے گا تو جمعہ فوت ہو جائے گا تو کھانا چھوڑ دے اور جمعہ کو جائے،جمعہ کے ليے اطمينان و وقارکے ساتھ جائے۔
(بہارشریعت، جلد1، حصہ4، صفحہ775، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی، پاکستان)

بہارشریعت میں ایک اور مقام پر ہے: اذان سے مراد پہلی اذان ہے کہ اُسی وقت سعی واجب ہوجاتی ہے۔
(بہارشریعت، جلد2، حصہ11، صفحہ723، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی، پاکستان)

واللہ تعالیٰ اعلم ورسولہ اعلم باالصواب

کتبہ

محمد منور عطاری مدنی

بتاریخ: 08 نومبر 2022

اپنا تبصرہ بھیجیں