مشترکہ گھر یا دوکان شریک کو کرایہ پر دینا
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں کہ عام طور پر جب والد فوت ہوجائے تو اس کی جائیداد مکان یا دوکان وغیرہ واثت بن جاتی ہےا ور ورثہ اس کے مالک بن جاتے ہیں ،لیکن کئی مرتبہ وہ مکان یا گھر کسی ایک وارث کے پاس ہوتا ہے کہ وہ اس میں رہ رہا ہوتا ہے یا کاروبار کررہا ہوتا ہے، کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ بقیہ ورثہ اپنے حصے کے مطابق اس وارث سے کرایہ لیتے جائیں؟
بسم اﷲ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الوہاب اللہم ہدایۃالحق والصواب
بیان کی گئی صورت میں دیگر ورثہ کا اپنے حصے کے برابر کرایہ لینا جائز ہے۔یعنی اگر ایک مکان کے دو بھائی وارث و مالک ہیں اور ایک ہی اس میں رہ رہا ہے تو دوسرا یہ کہہ سکتا ہے کہ اس مکان میں چونکہ میرا آدھا حصہ ہے اس لیے مجھے اس آدھے حصے کا کرایہ دو۔
درر الحکام شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:
”الأموال المشترکة شرکة الملک تقسم حاصلاتها بین أصحابها علی قدر حصصهم “ ترجمہ:اموال ِمشترکہ شرکت ملک کی حیثیت رکھتا ہے،اس سے حاصل ہونے والے مال کو ان کے اصحاب کےدرمیان ان کے حصوں کے مطابق تقسیم کیا جائے گا۔ (درر الحكام في شرح مجلة الأحكام،جلد3،صفحۃ26، دار الجيل،بیروت)
سیدی اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ (متوفی:1340ھ) ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں :
” عمارت بعد انتقال خالد زید اور دیگر ورثاء میں مشترکہ ٹھہرے گی ۔“ (فتاوٰی رضویہ ، جلد19 ،صفحہ259 ، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور)
صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں :
”چار سو روپے لڑکی کا حصہ ہے، اور آٹھ آٹھ سو دونوں لڑکوں کے اور اگر مکان تمام شرکا کی اجازت سے بنا تو ہر ایک شریک اپنے حصہ کے مطابق کرایہ کا مستحق ہے۔“(فتاوی امجدیہ،جلد2،حصہ3،صفحہ373،مکتبہ رضویہ ، کراچی)
فتاوی ہندیہ میں ہے
”وأجمعوا أنه لو آجر من شريكه يجوز سواء كان مشاعا يحتمل القسمة أو لا يحتمل“
ترجمہ:اورامام صاحب اورصاحبین علیہم الرحمۃ کااس پراتفاق ہے کہ اگراپنے شریک کو(اپنامشاع حصہ) کرائے پردے گاتویہ جائزہے برابرہے کہ وہ ایسامشاع ہوجوتقسیم کااحتمال رکھتاہے یاایساہوجوتقسیم کااحتمال نہیں رکھتا۔
(فتاوی ہندیہ،ج4،ص448،دارالفکر،بیروت)
ملتقی الابحرمیں ہے
”ولا تصح إجارة المشاع إلا في الشريك وعندهما تصح مطلقا“
ترجمہ:مشاع کااجارہ صرف شریک سے درست ہے اورصاحبین کے نزدیک مشاع کااجارہ مطلقادرست ہے۔(ملتقی الابحر، ج1،ص535،534،دارالکتب العلمیۃ،بیروت)
فتاوی قاضی خاں میں ہے
” ولو أجر رجلان داراً ثم مات أحدهما بطلت الإجارة في حصته عندنا فإن رضي وارث الميت وهو كبير أن تكون حصته على الإجارة ورضي به المستأجر جاز وإن كان هذا إجارة المشاع في نصيبه لكنها من الشريك“
واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم
کتبـــــــــــــــــــــــــــہ
ابو احمد مفتی محمد انس رضا قادری
26شعبان المعظم 1445ھ08مارچ 2024ء