زکوۃ صرف رمضان میں دینا

زکوۃ صرف رمضان میں دینا

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس بارے میں کہ کیا زکوٰۃ رمضان المبارک میں ہی ادا کرنا ضروری ہے؟

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایہ الحق والصواب

اسلامی نقطہ نظر سے ہر شخص جس اسلامی مہینے کی تاریخ میں صاحب نصاب ہو اور پھر اس پر سال گزر گیا اور وہی اسلامی مہینے کی تاریخ آئی اور وہ صاحب نصاب ہو تو اس پر زکوۃ فرض ہے۔اگر ایک شخص پر 12 رجب کو اسلامی سال پورا ہوتا ہے اور وہ اپنی زکوۃ بارہ رجب کی بجائے یکم رمضان کو دے تو وہ گناہ گار ہے کہ جب سال مکمل ہوجائے تو فورا زکوۃ دینا واجب ہے، اس میں تاخیر کرنا گناہ ہے۔

البتہ کسی پر شوال یا ذوالقعدہ میں زکوۃ فرض ہورہی ہے اور وہ رمضان میں پیشگی زکوۃ دینا چاہے تو یہ جائز ہے بلکہ بہتر ہے کہ اس میں فرض کا ثواب نفل اور نفل کا ثواب ستر فرضوں کے برابر کردیا جاتا ہے ۔شرعا آئندہ سال کی زکوٰۃ پیشگی ادا کی جاسکتی ہے اور اب یہ پیشگی زکوٰۃ رمضان المبارک میں یا پورے سال تھوڑی تھوڑی کر کے یا یکمشت بھی ادا کرسکتے ہیں۔ پھر جس تاریخ کو سال مکمل ہو جائے اس وقت تمام سال کی پیشگی ادا کی ہوئی زکوٰۃ کا حساب کرلے اگر تو وہ فرض زکوٰۃ کے برابر ہی بنتی ہے جتنی پیشگی ادا کرچکے تو درست ہے اور اگر کم ادا کی تو جتنی بقایا ہے اتنی ادا کرلے اور اگر زکوٰۃ زائد ادا کردی تو اب اسے اگلے سال کی زکوٰۃ میں شامل کرلے ۔

اگر کسی کو یاد نہیں کہ وہ زندگی میں پہلی مرتبہ کس اسلامی تاریخ کو صاحب نصاب ہوا تھا تووہ غور وفکر کرے جہاں زیادہ گمان جائے اس تاریخ پر اپنی زکوۃ ادا کرے۔

ہدایہ میں ہے

” الزکوة واجبة علی الحر العاقل البالغ المسلم اذا ملک نصابا تاما و حال علیہ الحول“

ترجمہ: زکوٰۃ آزاد ،عاقل اور بالغ مسلمان پر واجب ہے جب کہ وہ مالک نصاب ہو ملک تام(مکمل ملکیت) کے طور پر اور اس پر ایک سال گزر جائے ۔( الھدایة، کتاب الزکاہ، جلد 1 ، صفحہ 201، مطبوعہ کراچی)

در مختار میں ہے:

”شرط افتراض أدائها حولان الحول وهو في ملکه “

ترجمہ: ادائیگی زکوۃ کے فرض ہونے کے لئے یہ شرط ہے کہ مال کی ملکیت پر سال گزرے۔(درمختار ، کتاب الزکاہ، ج 3، ص 264، مطبوعہ کوئٹہ)

فتاوی عالمگیری میں ہے

”تجب علی الفور عند تمام الحول حتی یأثم بتاخیرہ من غیر عذر “

ترجمہ:سال پورا ہونے پر زکوٰۃ فی الفورم لازم ہوجاتی ہے حتٰی کہ بغیر عذر تاخیر سے گناہ ہوگا۔(فتاویٰ عالمگیری ، جلد 1 ، صفحہ 180 ، مطبوعہ بیروت)

فتویٰ رضویہ میں ہے :

”اگر سال گزر گیا اور زکوۃ واجب الادا ہو چکی تو اب تفریق و تدریج ممنوع ہوگی بلکہ فورا تمام و کمال زر واجب الادا ادا کرے کہ مذہب میح و معتمد و مفتی به پر اداۓ زکوۃ کا وجوب فوری ہے۔“جس میں تاخیر باعث گناہ . (فتاوی رضويه ، صفحه 79 ، جلد 10 ، رضا فاؤنڈیشن لاهور)

بہار شریعت میں ہے :

” زکاۃ فرض ہے، اس کا منکر کافر اور نہ دینے والا فاسق اور قتل کا مستحق اور ادا میں تاخیر کرنے والا گنہگار و مردود الشہادۃ ہے۔“ (بہار شریعت، جلد 1 ، حصہ 5، صفحہ 880 ، مکتبۃ المدینہ کراچی)

تنویر الابصار و درمختار میں ہے:

” (و لو عجل ذو نصاب ) زکاتہ ( لسنین او لنصب صح ) لوجود السبب “

ترجمہ:اور اگر صاحب نصاب نے کئی سالوں کی یا کئی نصابوں کی زکوۃ پہلے ادا کر دی ، تو درست ہے سبب کے پائے جانے کی وجہ سے۔(تنویر الابصار و الدرالمختار،ج3،ص262، 263،مطبوعہ کوئٹہ)

ردالمحتار میں ہے:

” قولہ(و لو عجل ذو نصاب)قید بکونہ ذا نصاب و فیہ شرطان آخران : ان لا ینقطع النصاب فی اثناء الحول و ان یکون النصاب کاملا فی آخر الحول ۔ ملخصا“

ترجمہ:مصنف علیہ الرحمۃ کا قول(اور اگر صاحبِ نصاب نے پہلے دے دی)مصنف علیہ الرحمۃ نے قید لگائی کہ وہ صاحبِ نصاب ہو، اس میں دو شرطیں اور بھی ہیں:یہ کہ دورانِ سال نصاب ہلاک نہ ہو اور یہ کہ سال کے آخر میں نصاب مکمل ہو۔( رد المحتار علی الدر المختار، ج3، ص262 ، مطبوعہ کوئٹہ)

رد المحتار ہی میں ہے:

” قولہ(لوجود السبب ) ای:سبب الوجوب و ھو ملک النصاب النامی فیجوز التعجیل لسنۃ او اکثر“

ترجمہ: مصنف علیہ الرحمۃ کا قول(سبب کے پائے جانے کی وجہ سے)یعنی:وجوب کا سبب اور وہ نصابِ نامی کا مالک ہونا ہے ، لہٰذا ایک سال یا زیادہ کی (زکوٰۃ) پہلے ہی ادا کر دینا جائز ہے۔(رد المحتار علی الدر المختار،ج3،ص263،مطبوعہ کوئٹہ)

اسی میں ہے:

” فی الولوالجیۃ:لو کان عندہ اربعمائۃ درھم فادی زکاۃ خمسمائۃ ظانا انھا کانت کان لہ ان یحسب الزیادۃ للسنۃ الثانیۃ،لانہ امکن ان یجعل الزیادۃ تعجیلا “

ترجمہ:ولوالجیہ میں ہے کہ اگر اس(یعنی زکوٰۃ ادا کرنے والے کے پاس) چار سو درہم ہوں تو اس نے یہ خیال کر کے کہ اس کے پاس پانچ سو درہم ہیں،پانچ سو کی زکوٰۃ ادا کر دی تو اسے اختیار ہے کہ اس زیادتی کو دوسرے سال میں شمار کر لے،کیونکہ وہ اس پر قادر ہے کہ اس زیادتی کو جلدی ادا کرنا قرار دے۔(رد المحتار علی الدر المختار ، ج3،ص263،مطبوعہ کوئٹہ)

فتویٰ رضویہ میں سیدی اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فرماتے ہیں:

”حولانِ حول(یعنی زکوٰۃ کا سال پورا ہو جانے)کے بعد ادائے زکوٰۃ میں اصلاً تاخیر جائز نہیں،جتنی دیر لگائے گا ، گناہ گار ہو گا۔ہاں پیشگی دینے میں اختیار ہے کہ بتدریج دیتا رہے،سال تمام پر حساب کرے۔اس وقت جو واجب نکلے ، اگر پورا دے چکا بہتر اور کم گیا ہے ، تو باقی فوراً اب دے اور زیادہ پہنچ گیا ، تو اسے آئندہ سال میں مُجرا لے ۔ “(فتاویٰ رضویہ ، ج10، ص202، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن ، لاھور )

بہار شریعت میں ہے :

” مالکِ نصاب سال تمام سے پیشتر بھی ادا کر سکتا ہے،بشرطیکہ سال تمام پر بھی اس نصاب کا مالک رہے اور اگر ختمِ سال پر مالکِ نصاب نہ رہا یا اثنائے سال میں وہ مالِ نصاب بالکل ہلاک ہوگیا ، تو جو کچھ دیا ، نفل ہے۔“(بہار شریعت،ج1،ص891،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ ، کراچی )

بہار شریعت میں ہے :

” مالکِ نصاب پیشتر سے چند سال کی بھی زکاۃ دے سکتا ہے، لہٰذا مناسب ہے کہ تھوڑا تھوڑا زکاۃ میں دیتا رہے،ختمِ سال پر حساب کرے،اگر زکاۃ پوری ہوگئی ، فبِہا اور کچھ کمی ہو ، تو اب فوراً دے دے،تاخیر جائزنہیں ، نہ اس کی اجازت کہ اب تھوڑا تھوڑا کر کے ادا کرے، بلکہ جو کچھ باقی ہے ، کل فوراً ادا کر دے اور زیادہ دے دیا ہے ، تو سالِ آئندہ میں مُجرا کر دے۔“(بہار شریعت،ج1،ص891،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ،کراچی)

فتاویٰ فیض الرسول میں ہے:

”مالک نصاب پر پرانا ہو یا نیا بہر صورت سال تمام سے پہلے پیشگی زکوٰۃ ادا کرنا جائز ہے ۔۔۔اور اعلیٰ حضرت امام احمد رضا بریلوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ربہ القوی فرماتے ہیں اولیت چاہے تو سال تمام ہونے سے پہلے پیشگی ادا کرے اس کے لیے بہتر ماہ مبارک رمضان ہے جس میں نفل کا ثواب فرض کے برابر اور فرض کا ستر فرضوں کے برابر۔“(فتاویٰ فیض الرسول ، جلد 1، صفحہ 465، مطبوعہ شبیر برادرز لاہور)

واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم

کتبـــــــــــــــــــــــــــہ

ممبر فقہ کورس

03رمضان المبارک1445ھ13مارچ 2024ء

اپنا تبصرہ بھیجیں