جو زیور پہنا جاتا ہے اس پر زکوۃ

جو زیور پہنا جاتا ہے اس پر زکوۃ

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں کہ عوا م میں یہ بات مشہور ہے کہ سونا یا چاندی کاجو زیور عورت استعمال کرتی ہو اس پر زکوۃ نہیں ہوتی۔کیا یہ بات درست ہے۔

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

الجواب بعون الوہاب اللہم ہدایۃالحق والصواب

یہ بات لوگوں میں غلط مشہور ہے۔ استعمالی زیورات پر زکوۃ لازم ہونا حدیث پاک سے ثابت ہے۔سونا چاندی جب نصاب تک پہنچ جائیں تو چاہے استعمال کرتے ہوں یا نہیں، ڈلی کی شکل میں ہویا ڈیکوریشن ہوں،ہر صورت اس پر زکوۃ فرض ہے۔

سونے کا نصاب ساڑھے سات تولے ہے اور چاندی کا ساڑھے باون تولے۔ اگر ایک تولہ سونا ہو اور اس کے ساتھ کچھ چاندی یا روپے ہوں کہ ان دونوں کو ملایا جائے تو اس کی رقم ساڑھے باون تولے چاندی کے برابر ہوتو بھی زکوۃ فرض ہے۔

جامع ترمذی کی حدیث پاک ہے:

” أن امرأتين أتتا رسول الله صلى الله عليه وسلم وفي أيديهما سواران من ذهب، فقال لهما: أتؤديان زكاته؟، قالتا: لا، قال: فقال لهما رسول الله صلى الله عليه وسلم: أتحبان أن يسوركما الله بسوارين من نار؟، قالتا: لا، قال: فأديا زكاته “

ترجمہ: دو عورتیں حاضرِخدمت اقدس ہوئیں ، اُن کے ہاتھوں میں سونے کے کنگن تھے، ارشاد فرمایا: تم اس کی زکاۃ ادا کرتی ہو؟ عرض کی نہیں ۔ فرمایا: تو کیا تم اُسے پسند کرتی ہو کہ اﷲ تعالیٰ تمھیں آگ کے کنگن پہنائے، عرض کی نہیں ، فرمایا: تو اس کی زکاۃ ادا کرو۔ (جامع الترمذي أبواب الزکاۃ، باب ماجاء في زکاۃ الحلی، جلد2،صفحہ22، دار الغرب الإسلامي،بيروت)

حاشیہ طحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے:

” في الدر أفاد وجوب الزكاة في النقدين ولو كانا للتجمل أو للنفقة قال لأنهما خلقا أثمانا فيزكيهما كيف كانا “

ترجمہ : در میں سونے چاندی کی زکوۃ کے وجوب کا افادہ کیا کہ اگرچہ پہننے کےلیے ہوں یا نفقے کےلیے ہوں، فرماتےہیں کیونکہ یہ دونوں اپنی اصل کے اعتبار سے ثمن ہیں ،لہذا یہ دونوں کسی بھی صورت میں موجود ہوں ، ان کی زکوۃ ادا کی جائےگی۔ (حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح،صفحہ714،مطبوعہ بیروت)

بدائع صنائع میں ہے :

”الحلی مال فاضل عن الحاجۃ الاصلیۃ اذ الاعداد للتجمل والتزین دلیل الفضل عن الحاجۃ الاصلیۃ “

ترجمہ :زیور حاجت اصلیہ سے زائد مال ہے کیونکہ اسے خوبصورتی اور زینت کےلیے پہننا جاتا ہے یہ اس کے حاجت اصلیہ سے زائد ہونے کی دلیل ہے۔ (بدائع صنائع،جلد 02 صفحہ102،مطبوعہ کوئٹہ)

سیدی اعلیٰ حضرت امام احمدرضا خان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ پہننے کےزیورات کی زکوۃ کےمتعلق فرماتےہیں :

”اگرچہ پہننے کا زیور ہو (توبھی اس پر زکوۃ لازم ہے کہ ) زیور پہننا کوئی حاجت اصلیہ نہیں۔ “ (فتاویٰ رضویہ،جلد10 صفحہ 133،مطبوعہ رضافاونڈیشن لاہور)

واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم

کتبـــــــــــــــــــــــــــہ

ابو احمد مفتی محمد انس رضا قادری

01رمضان المبارک1445ھ12مارچ 2024ء

اپنا تبصرہ بھیجیں