جرابوں پر مسح کرنے والوں کا مدلل رد
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ عام اونی یا سوتی جرابوں پر مسح کیوں جائز نہیں؟ جبکہ ابو الاعلی مودودی صاحب اور ان کے پیروکار اسے درست قرار دیتے ہیں نیز حدیث سے بھی اس کا جواز ثابت کرتے ہیں اس کے علاوہ سننے میں آیا ہے کہ ابن تیمیہ بھی اسے جائز قرار دیتے تھے تو آخر حنفی لوگ کیوں اس پر اتنی سختی کرتے ہیں؟
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الجواب بعون الملک الوھاب اللٰھم ھدایۃ الحق وا لصواب
عام اونی یا سوتی جرابوں پر مسح کرنا جائز نہیں کیونکہ یہ باریک ہوتی ہیں، پانی کو پاؤں تک پہنچنے سے مانع نہیں ہوتیں اور نہ ہی صرف ان کو پہن کر مسلسل کئی میل کا سفر کیا جا سکتا ہے ۔ ایسی باریک جرابوں پر مسح کرنے کی ممانعت صرف احناف کے نزدیک ہی نہیں بلکہ تمام آئمہ مجتہدین کے نزدیک ایسی باریک جرابوں پر مسح کرنا جائز نہیں ہے۔
مذاہب اربعہ سے نصوص
فقہ حنفی کے عظیم عالم، ملک العلما امام ابو بكر بن مسعود کاسانی حنفی (المتوفى: 587ھ/1191ء) لکھتے ہیں: ” فإن كانا رقيقين يشفان الماء، لا يجوز المسح عليهما بالإجماع “ ترجمہ: پس اگر جرابیں اتنی باریک ہوں کہ پانی کو (نیچے جلد کی طرف) چھن جانے دیں تو بالاجماع ان پر مسح جائز نہیں۔
(البدائع الصنائع، کتاب الطهارة، جلد نمبر 1، صفحه نمبر 141، مطبوعه: دار الکتب العلمیۃ بیروت)
فقہ مالکی کے فقیہ علامہ قاضی عبد الوهاب بغدادی مالکی (المتوفی 422ھ) لکھتے ہیں: ”ولا يجوز المسح على الجوربين غير المجلدين… لأنه لا يمكن متابعة المشي فيهما كما لو لف على رجليه خرقة“ ترجمہ: غیر مجلد جرابوں پر مسح جائز نہیں… کیونکہ ان کے ساتھ مسلسل چلنا ممکن نہیں، جیسا کہ اگر کوئی شخص اپنے پاؤں پر کپڑے کا ٹکڑا لپیٹ لے(تو چند میل صرف اسی کو پہن کر چلنے سے اس کی حالت غیر ہو جائے گی کہ اس کے ساتھ عادۃ چلنا دشوار ہوگا۔)
(المعونة على مذهب عالم المدينة، کتاب الطهارة، جلد نمبر 1، صفحه نمبر 138، مطبوعه: المكتبة التجارية، مكة المكرمة)
صاحبِ امام شافعی،ابو ابراہیم اسماعیل بن یحی المزنی (المتوفی 264ھ) لکھتے ہیں: ”ولا يمسح على الجوربين إلا أن يكون الجوربان مجلدي القدمين إلى الكعبين حتى يقوما مقام الخفين“ ترجمہ: جرابوں پر مسح نہیں ہو سکتا مگر یہ کہ جرابیں دونوں پاؤں میں ٹخنوں تک چمڑا لگائی گئی ہوں یہاں تک کہ چمڑے کے موزوں کے قائم مقام ہو جائیں۔
(مختصر المزني، باب الطهارة، جلد نمبر 8، صفحه نمبر 102، مطبوعه: دار الفكر، بيروت)
تلمیذِ امام احمد بن حنبل ابو محمد حرب بن اسماعیل کرمانی (المتوفی 280ھ) لکھتے ہیں: ” ورأيت أحمد مرة أخرى رأى في رجلي جوربا رقيقا قد استرخى من الساق، فقال: لا يجوز عليه المسح؛ لأنه ليس يثبت على المكان “ ترجمہ: اور میں نے امام احمد کو دوسری کسی مرتبہ دیکھا، آپ نے میرے پیر میں باریک جراب دیکھی جو پنڈلی سے لٹکی ہوئی تھی تو فرمایا: اس پر مسح جائز نہیں کیونکہ یہ اپنی جگہ خود ٹھہر نہیں سکتی۔
(مسائل حرب الكرماني، کتاب الطهارة، جلد نمبر 1، صفحه نمبر 163، مطبوعه: مؤسسة الريان ، بيروت)
بد مذہبوں کاقول حجت نہیں
رہی بات غیر مقلدین، مودودی یا ابن تیمیہ کی تو ان کا کہنا کوئی حجت نہیں، نہ ہی یہ حضرات کوئی مجتہد ہیں کہ ان کی بات قابل سماعت ہو۔ بلکہ اس مسئلے میں تو ان لوگوں نے جمہور امت کی مخالفت کر کے الگ راہ اختیار کی جو کہ مفروضۂ باطلہ اور تبع ہوائے نفس کے سوا کچھ نہیں۔ ایسے لوگوں کی باتوں پر عمل کرنا تو دور کی بات سننا بھی شرعا روا نہیں۔ چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے: ﴿وَ اِذَا رَاَیْتَ الَّذِیْنَ یَخُوْضُوْنَ فِیْۤ اٰیٰتِنَا فَاَعْرِضْ عَنْهُمْ حَتّٰى یَخُوْضُوْا فِیْ حَدِیْثٍ غَیْرِهٖ ؕوَ اِمَّا یُنْسِیَنَّكَ الشَّیْطٰنُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرٰى مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ(۶۸)﴾ترجمہ: اور اے سننے والے! جب تو انہیں دیکھے جو ہماری آیتوں میں بیہودہ گفتگو کرتے ہیں تو ان سے منہ پھیر لے جب تک وہ کسی اور بات میں مشغول نہ ہوجائیں اور اگر شیطان تمہیں بھلا دے تو یاد آنے کے بعد ظالموں کے پاس نہ بیٹھ۔
(پارہ نمبر 7، سورۃ انعام6، آیت نمبر 68)
شیخ الإسلام والمسلمین امام اہل سنت اعلی حضرت امام احمد رضا خان (المتوفی: 1340ھ/1921ء) لکھتے ہیں:” سیدنا سعید بن جبیر شاگردِ عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہم کو راستہ میں ایک بدمذہب ملا، کہا: کچھ عرض کرنا چاہتاہوں، فرمایا: سننا نہیں چاہتا۔ عرض کی ایک کلمہ۔ اپنا انگوٹھا چھنگلیا کے سرے پر رکھ کر فرمایا: ’’ وَ لَا نِصْفَ کَلِمَۃٍ‘‘آدھا لفظ بھی نہیں ۔ لوگوں نے عرض کی اس کا کیا سبب ہے۔ فرمایا: ازیشان منہم (یہ گمراہوں میں سے ہے۔)…آئمہ کو یہ خوف تھا اوراب عوام کو یہ جرأت ہے ولا حول ولاقوۃ الاباللہ۔ …دیکھو! امان کی راہ وہی ہے جو تمھیں تمھارے پیارے نبی ﷺ نے بتائی: ”ایاکم وایاھم لایضلونکم ولا یفتنونکم“ان (بد مذہبوں) سے دور رہو اور انھیں اپنے سے دور کرو کہیں وہ تمھیں گمراہ نہ کردیں، وہ تمھیں فتنہ میں نہ ڈال دیں ۔(صحیح مسلم) دیکھو! نجات کی راہ وہی ہے جو تمھارے رب عزوجل نے بتائی:﴿ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرٰى مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ﴾ (ترجمہ: اور اگر شیطان تمہیں بھلا دے تو یاد آنے کے بعد ظالموں کے پاس نہ بیٹھ۔)بھولے سے ان میں سے کسی کے پاس بیٹھ گئے ہو تو یاد آنے پر فوراً کھڑے ہوجاؤ۔“
(فتاوی رضویہ، کتاب السیر، جلد نمبر15، صفحہ نمبر 106-107 ملتقطا، مطبوعه: رضا فاؤنڈیشن لاہور)
معترضین کی مستدل حدیث پاک
جہاں تک حدیث پاک سے جرابوں پر مسح کا جواز ثابت کرنے کا تعلق ہے تو وہ حدیث مع ترجمہ درج ذیل ہے، چنانچہ جامع ترمذی و سنن نسائی اور دیگر کتب حدیث میں حضرت مغیرہ بن شعبہ سے روایت ہے:” توضأ النبي صلى الله عليه وسلم ومسح على الجوربين والنعلين“ ترجمہ: نبی پاک ﷺ نے جرابوں اور نعلین (جوتوں) پر مسح کرتے ہوئے وضو فرمایا۔
(جامع ترمذی، جلد نمبر1 ، صفحہ نمبر 144، حدیث نمبر 99، مطبوعه: دار الغرب الإسلامي ،بيروت-سنن نسائی، جلد نمبر1 ، صفحہ نمبر 123، حدیث نمبر 129، مطبوعه: مؤسسة الرسالة بيروت)
امام ابو عیسی محمد بن عیسی ترمذی (المتوفی 279ھ) نے یہ حدیث پاک نقل کر کے تحریر فرمایا: ”هذا حديث حسن صحيح وهو قول غير واحد من أهل العلم. وبه يقول سفيان الثوري، وابن المبارك، والشافعي، وأحمد، وإسحاق، قالوا: يمسح على الجوربين وإن لم تكن نعلين، إذا كانا ثخينين“ ترجمہ:یہ حدیث حسن صحیح ہے، اور یہ قول متعدد اہل علم کا ہے اور یہی قول امام سفیان ثوری، امام عبداللہ ابن مبارک، امام شافعی، امام احمد، اور امام اسحاق کا ہے، یہ سب فرماتے ہیں کہ جرابوں پر مسح کیا جا سکتا ہے اگرچہ وہ چمڑے کی نہ ہوں بشرطیکہ وہ دبیر (موٹے) ہوں۔
(جامع ترمذی، جلد نمبر1 ، صفحہ نمبر 144، حدیث نمبر 99، مطبوعه: دار الغرب الإسلامي ،بيروت)
معترضین کے اعتراض کا بطلان مع چھ معروضات
فأقول وبالله التوفیق: اولاً یہ بات واضح کر دی جائے کہ ایسا نہیں کہ احناف اس حدیث پاک کے برخلاف ہر قسم کی جرابوں پر مسح کرنے کو ہی نا جائز ٹھہراتے ہیں بلکہ احناف دیگر احادیث مبارکہ پر نظر رکھتے ہوئے اس حدیث پاک کے درست محمل پر بھی عمل کرتے ہیں جس پر کہ صحابہ کرام و تابعین عظام کے افعال و اقوال دلالت کرتے ہیں بلاشبہہ ان ہستیوں کو آج کے دو کتابیں پڑھ کر ملا بننے والے شخص سے بدرجۂ کثیرہ دین اسلام اور شریعتِ رسول عربی ﷺ کی سمجھ بوجھ تھی۔ چنانچہ احناف کے نزدیک مفتیٰ بہ قول کے مطابق ایسی جرابوں پر مسح جائز ہے جو کہ ثخین ہوں یعنی دبیز و موٹی ہونے کی وجہ سے چمڑے کے معنی و مفہوم میں شامل ہوں جائیں۔ ( ثخین کی قید خود امام ترمذی کے اس حدیث کے تحت مندرجہ بالا کلام سے مصرح ہے، نیز اس پر مزید دلائل آئندہ صفحات میں آ رہا ہے کہ یہی دلالۃ النص کا مقتضی اور یہی صحیح محمل حدیث ہے۔)
نخب الافکار میں علامہ بدرالدین ابو محمد محمود بن احمد عینی (المتوفى: 855ھ/1451ء) لکھتے ہیں:”الحنفيون ما خالفوا ها هنا أحدا من الصحابة، بل مذهبهم جميعا جواز المسح على الجوربين، وما رُوي عن أبي حنيفة في المنع فقد صح رجوعه عنه“ ترجمہ: احناف نے یہاں کسی صحابی کی مخالفت نہیں کی بلکہ تمام احناف کا مذہب جرابوں پر مسح کرنے کے جواز ہی کا ہے اور جو امام اعظم سے عدم جواز روایت کیا گیا ہے تو آپ سے اس کا رجوع فرما لینا صحیح (ثابت) ہے۔
(نخب الأفكار في تنقيح مباني الأخبار في شرح معاني الآثار ، جلد نمبر 2، صفحه نمبر 302، مطبوعه: وزارة الأوقاف والشؤون الإسلامية قطر)
جد الممتار میں شیخ الإسلام والمسلمین امام اہل سنت اعلی حضرت امام احمد رضا خان (المتوفی: 1340ھ/1921ء) لکھتے ہے: ” أمّا غيرهما أعني: غير المنعل والمجلّد، فإن رقيقاً لم يجز بلا خلاف، وإن ثخيناً جاز عندهما، وعليه الفتوى، والثخين ما يمكن المشي فيه فرسخاً ويستمسك بلا شدٍّ لصفاقته لا لضيقه“ ترجمہ: بہر حال ان کے علاوہ یعنی منعل اور مجلد کے علاوہ جرابیں تو اگر وہ پتلی ہوں تو بلا اختلاف مسح جائز نہیں اور اگر وہ موٹی ہوں تو صاحبین کے نزدیک جائز ہے اور اسی قول پر فتوی ہے۔ اور موٹی جراب سے مراد وہ کہ جس کے ساتھ ایک فرسخ تک چلنا ممکن ہو اور اپنے دبیز پن کی وجہ سے بغیر باندھے ٹھہر جائیں، نہ کہ تنگ ہونے کی وجہ سے۔
(جد الممتار علی رد المحتار، کتاب الطهارة، جلد نمبر 2، صفحه نمبر 314، مطبوعه: مکتبة المدینه)
فتاوی رضویہ آپ لکھتے ہے:” سُوتی یا اُونی موزے جیسے ہمارے بلاد میں رائج(ہیں) ان پر مسح کسی کے نزدیک درست نہیں کہ نہ وہ مجلد ہیں، یعنی ٹخنوں تک چمڑا منڈھے ہوئے، نہ منعل یعنی تلاچمڑے کا لگا ہوا، نہ ثخین یعنی ایسے دبیز ومحکم کہ تنہا اُنہیں کو پہن کر قطع مسافت کریں، تو شق نہ ہوجائیں اور ساق پر اپنے دبیز ہونے کے سبب بے بندش کے رُکے رہیں ڈھلک نہ آئیں اور اُن پر پانی پڑے تو روک لیں فوراً پاؤں کی طرف چھن نہ جائے جو پائتابے ان تینوں وصف مجلد منعل ثخین سے خالی ہوں اُن پر مسح بالاتفاق ناجائز ہے، ہاں اگر اُن پر چمڑا منڈھ لیں یا چمڑے کا تلا لگالیں، تو بالاتفاق یا شاید کہیں اُس طرح کے دبیز بنائے جائیں، تو صاحبین کے نزدیک مسح جائز ہوگا اور اسی پر فتوی ہے۔“
(فتاوی رضویة، کتاب الطہارۃ، جلد نمبر 4، صفحه نمبر 346-347، مطبوعه: رضا فاؤنڈیشن لاهور)
ثانیاً مخالفین کا غلط استدلال درحقیقت اس مسئلے کی ماخذ نصوص سے کما حقہ واقف نہ ہو پانے اور ان کی تفہم سے نابلد رہ جانے کی وجہ سے ہے کیونکہ ان لوگوں کو حدیث کے ظاہر لفظ “جوربین” سے مغالطہ لگا، اور لغات حدیث و فقہ سے ناواقفیت کی بنیاد پر انہوں نے آج کل کی عمومی جرابوں پر اس کا انطباق کرتے ہوئے ان پر مسح کو بھی جائز قرار دے دیا جو کہ یقیناً مقاصدِ شرع کے خلاف اور حدیث پاک کے محمل کے یکسر مغائر ہے۔ اس کی شاہد لغات حدیث و فقہ نیز اقوال فقہا و محدثین کے علاوہ ان حضرات کے پچھلوں کی عبارات بھی ہیں۔(جو کہ نیچے ذکر کی جائیں گی)
چنانچہ “جورب” لغت میں پائتابہ کو کہتے ہیں۔ عرب میں جورب اس جراب کو کہتے تھے جو چمڑے کی طرح مضبوط و موٹی ہوتی تھی، جسے ٹھنڈ وغیرہ سے بچنے کے لیے پاؤں میں پہنا جاتا تھا نیز اسے پہن کر مسلسل سفر طے کیے جایا کرتے تھے۔ جورب کی اصل کپڑے کی ہوا کرتی ہے مگر آگے اس کی متعدد اقسام تھیں، مثلاً اگر اس پر چمڑا منڈھ لیا جاتا تو اسے جورب مجلد کہتے، اگر صرف اس کے تلے پر چمڑا منڈھ لیا جاتا تو اسے جورب منعل کہتے۔ اکثر اوقات ان پر محض جورب کا اطلاق بھی کیا جاتا تھا اور بعض اوقات جورب مجلد کو خُف سے بھی تعبیر کر دیا جاتا تھا، جیسے کہ لمات التنقیح میں شیخ عبد الحق محدث دہلوی نے اس کی تعبیر خف سے کی۔ یوں ہی باریک چمڑے کے بنے ہوئے موزوں پر بھی جورب کا لفظ بول دیا جاتا ۔ لہذا حدیث پاک میں بیان کردہ جورب کا اطلاق آج کل کی باریک اونی، سوتی یا کاٹن کی جرابوں پر کرنا غلط ہے، کہ یہ ویسی موٹی اور مضبوط نہیں ہوتیں نیز حدیث پاک میں جوربین مطلق ہے، جس میں سب شامل تو اس سے پتلی جرابوں پر ہی استدلال کیوں کر درست ہوگا جبکہ اس وقت میں جرابوں کا موٹا ہونا ہی عقلا متبادر ہے نیز دیگر کئی احادیث مشہورہ میں خف کے ذریعے اس اطلاق کی تقیید موجود ہے۔ پس اُس دور کی حالت اور لغوی و اصطلاحی اعتبار سے تو یہیں پر ان کے استدلال کا بطلان ظاہر ہوگیا۔
المعجم الوسیط میں ہے: ”الجورب: ما يلبس في الرجل“ ترجمہ:جورب وہ کہ جسے پاؤں میں پہنا جاتا ہے۔
(المعجم الوسیط، صفحه نمبر 184، مطبوعه: دار احیاء التراث العربی)
لمعات التنقیح میں شیخ عبد الحق بن سيف الدين محدث دہلوی (المتوفی 1052ھ) مذکورہ حدیث پاک کے تحت جورب کی تشریح فرماتے ہوئے لکھتے ہیں:” الجوراب خف يلبس على الخف إلى الكعب للبرد أو لصيانة الخف الأسفل من الدرن والغسالة “ ترجمہ: جوراب ایسا موزہ جسے موزے کے اوپر ٹخنے تک پہنا جاتا ہے سردی کی وجہ سے، یا نچلے موزے کو دھون اور میل کچیل سے محفوظ رکھنے کے لیے۔
(لمعات التنقيح في شرح مشكاة المصابيح، جلد نمبر 2، صفحه نمبر 251، مطبوعه: دار النوادر، دمشق)
البنایة شرح ہدایة میں علامہ بدرالدین ابو محمد محمود بن احمد عینی (المتوفى: 855ھ/1451ء)لکھتے ہیں: ” الجورب يتخذ من جلد يلتبس في القدم إلى الساق لا على هيئة الخف، بل هو لبس فارسي معرب وجمعه جواربة، وفي الصحاح: ويقال جوارب أيضاً.قلت: الجورب هو الذي يلبسه أهل البلاد الشامية الشديدة البرد، وهو يتخذ من غزل الصوف المفتول، يلبس في القدم إلى ما فوق الكعب. وفي المنافع: وجورب مجلد إذا وضع الجلد على أعلاه وأسفله، والمنعل هو الذي وضع جلد على أسفله كالنعل للقدم“ ترجمہ: جورب ایسے چمڑے سے بنا ہوتا ہے جو پاؤں میں پنڈلی تک پہنا جاتا ہے ، موزے کی صورت پر نہیں ہوتا بلکہ یہ معرب فارسی پہناوا ہے۔ اس کی جمع جواربۃ آتی ہے اور الصحاح میں ہے کہ اس کی جمع جوارب بھی بولی جاتی ہے۔ میں کہتا ہوں: جراب وہ ہے جسے شامی ممالک کے لوگ شدید سردی میں پہنتے ہیں، اور یہ اون کے دھاگے سے بنی ہوتی ہے اور پاؤں میں ایڑی کے اوپر ٹخنے تک پہنی جاتی ہے۔ اور المنافع میں ہے: جب جورب کے اوپر اور نیچے چمڑا لگا دیا ہو تو وہ جورب مجلدہے، اور جورب منعل وہ کہ جس کے نیچے چمڑا لگایا ہو جیسے پاؤں کے لیے جوتا۔
(البنایة شرح الهدایة، کتاب الطهارة، جلد نمبر 1، صفحه نمبر 607، مطبوعه: المطبعة الخيرية)
رد المحتار میں خاتم المحققین علامہ ابن عابدين سید محمد امين بن عمر شامی حنفی (المتوفى: 1252ھ/1836ء) لکھتے ہیں: ” الجورب لفافة الرجل قاموس، وكأنه تفسير باعتبار اللغة، لكن العرف خص اللفافة بما ليس بمخيط والجورب بالمخيط، ونحوه الذي يلبس كما يلبس الخف “ ترجمہ: جورب پاؤں کے لفافہ کو کہتے ہیں۔ قاموس۔ گویا کہ یہ لغت کے اعتبار سے تفسیر ہے لیکن عرف عام نے لفافہ کو اس کپڑے کے ساتھ خاص کر دیا جو سلائی نہیں کیا گیا ہوتا اور جورب کو سلائی کیے گئے کے ساتھ خاص کر دیا اور وہ اسی طرح پہنا جاتا ہے جیسے موزہ پہنا جاتا ہے۔
(رد المحتار، کتاب الطهارة، باب مسح الخفین، جلد نمبر1، صفحہ نمبر 499، مطبوعه: دار المعرفة، بیروت)
الموسوعة الفقهية الكويتية میں ہے:”الجورب هو ما يلبسه الإنسان في قدميه سواء كان مصنوعا من الصوف أو القطن أو الكتان أو نحو ذلك“ ترجمہ: جورب وہ کہ جسے انسان اپنے پاؤں میں پہنتا ہے خواہ وہ اون، روئی، لینن یا اس جیسے کسی اور چیز سے بنائی گئی ہو۔
(الموسوعة الفقهية الكويتية ، جلد نمبر37، صفحہ نمبر 271، مطبوعه: مطابع دار الصفوة ، مصر)
پیشوائے اہل حدیث کہ جسے غیر مقلدین شیخ الکل کا لقب دیتے ہیں ، نذیر حسین دہلوی (المتوفی 1321ھ) کے فتاوی نذیریہ میں سے ایک سوال اور جواب کا اقتباس پیش خدمت ہے، چنانچہ سوال ہوا: ”کیا فرماتے ہیں علمائے دین کہ اونی یا سوتی جرابوں پر مسح جائز ہے یا نہیں؟ الخ…“ تو جواباً تحریر کیا: ”الجواب: مذکورہ جرابوں پر مسح جائز نہیں ہے کیونکہ اس کی کوئی صحیح دلیل نہیں ہے اور مجوزین نے جن چیزوں سے استدلال کیا ہے اس میں(واضح) خدشات ہیں۔“
(فتاوی نذیریہ ، جلد نمبر1، صفحہ نمبر 326-327، مطبوعه: اہل حدیث اکادمی ، لاہور)
ثالثاً جورب کے خوب موٹے اور مضبوط ہونے کا بیان محض لغت و عرف کی بنا پر نہیں بلکہ تابعین عظام وغیرہ سے بھی اس کی تصریح منقول ہے۔چنانچہ حضرت سعید بن مسیب اور حضرت حسن بصری نے فرمایا: ” يمسح على الجوربين إذا كانا صفيقين“ ترجمہ:جرابوں پر مسح کر سکتے ہیں جبکہ وہ دونوں خوب دبیز (موٹی) ہوں۔
(المصنف لابن أبي شيبة، جلد نمبر 1، صفحه نمبر 171، مطبوعه: دار النوادر، دمشق)
المعجم الوسیط میں ہے: ”صفُق الثوبُ: کثُف نسجه“ ترجمہ: کپڑے کا صفیق ہونا یعنی کپڑے کی بنائی بہت دبیز ہوئی ہونا۔
(المعجم الوسیط، صفحه نمبر 365، مطبوعه: دار احیاء التراث العربی)
رابعاً اصل حکمِ قرآنی وضو میں پاؤں دھونے کا ہے، اسی پر عمل کرنا لازم ہے جبکہ موزوں پر مسح کرنا خلاف قیاس احادیثِ مشہورہ سے نص کی بنیاد پر ثابت ہے لہذا یہ منصوص تک ہی محدود رہے گا ۔ پس حدیث مشہور سے منصوص خُف پر مسح کرنا ثابت ہے یعنی عبارۃ النص سے چمڑے کے موزوں پر اور دلالۃ النص سے موزوں کے مشابہ موٹی اور دبیز جرابوں پر کہ چمڑے کے موزوں کی طرح صرف ان کو پہن کر قطع مسافت ممکن ہو اور وہ پانی کے پاؤں تک پہنچنے کے بھی مانع ہوں نیز موزوں کی طرح اپنی ثخانت کے باعث پاؤں کے ساتھ چپکی رہیں۔ اس کے برعکس اگر مذکورہ حدیث پاک میں جورب سے مراد باریک جرابیں لیں بھی تو باریک جرابوں پر مسح کا جواز مذکورہ حدیث کے باعث خبر واحد سے ثابت ہوگا، اور اصول یہ ہے کہ خبر واحد سے کتاب اللہ کے حکم میں تغیر و تبدل نہیں ہو سکتا برخلاف خبر مشہور کے، بلکہ اگر خبر واحد کتاب اللہ کے مقابل آئے تو پہلے تطبیق کی کوشش کی جائے گی اور اگر تطبیق و توفیق ممکن نہ ہو تو کتاب اللہ ہی پر عمل کرنا واجب ہوگا اور خبر واحد پر عمل کو ترک کر دیا جائے گا۔ نیز اصولیین نے تصریح فرمائی کہ خبر واحد پر عمل کرنے کی شرط یہ ہے کہ وہ کتاب اللہ، احادیث مشہورہ، احادیث متواترہ اور اجماعِ امت کے خلاف نہ ہو۔اس بنیاد پر دیکھا جائےتو یہ خبر واحد کتاب اللہ ،حدیث مشہورہ متواترہ اور اجماعِ امت کے خلاف ہے لہذا اس کے ظاہر پر عمل نہیں ہوگا بلکہ یہ تاویل و تطبیق کی محتاج ہوگی، پس اس میں “جورب” کو مطلق قرار دیتے ہوئے خبر مشہور میں بیان کردہ “خُف” کے ذریعے اس کی تقیید کرنے سے یہ احتیاج پوری ہو جاتی ہے۔ خلاصۂ کلام یہ کہ جب باریک جرابوں پر مسح کرنا حدیثِ متواترہ یا حدیث مشہورہ سے ثابت نہیں تو قرآن پاک کے اصل حکم یعنی پاؤں دھونے ہی پر عمل کرنا لازم ہوگا، چنانچہ اگر اونی یا سوتی کپڑے کی جرابیں پہنی ہوں تو وضو کرتے ہوئے انہیں اتار کر حکم قرآنی پر عمل پیرا ہوتے ہوئے پاؤں دھونے ہوں گے۔
فتح القدیر میں امام كمال الدين محمد بن عبد الواحد ابن الہمام (المتوفى: 861ھ/1456ء) لکھتے ہیں:” لا شك أن المسح على الخف على خلاف القياس فلا يصلح إلحاق غيره به إلا إذا كان بطريق الدلالة وهو أن يكون في معناه، ومعناه الساتر لمحل الفرض الذي هو بصدد متابعة المشي فيه في السفر وغيره “ترجمہ: اس میں کوئی شک نہیں کہ موزے پر مسح کا جواز خلاف قیاس ہے، پس کسی دوسری چیز کو اس پر قیاس نہیں کیا جا سکتا مگر یہ کہ وہ بطریقِ دلالۃ النص ہو اور وہ یوں کہ موزے کے معنی و مفہوم میں آ جائے۔ اور موزے کے معنی محل فرض کو ڈھانپنے والا ہونا ہے جس میں سفر وغیرہ کے دوران مسلسل پیدل چلنا پھرنا ہو سکے۔
(فتح القدیر، کتاب الطہارة، جلد نمبر 1، صفحه نمبر 157، مطبوعه: دار الفکر)
احكام القرآن میں علامہ احمد بن علی ابو بکر رازی جصاص (المتوفی 370ھ)لکھتے ہیں: ” والأصل فيه أنه قد ثبت أن مراد الآية الغسل على ما قدمنا، فلو لم ترد الآثار المتواترة عن النبي صلى الله عليه وسلم في المسح على الخفين لما أجزنا المسح، فلما وردت الآثار الصحاح واحتجنا إلى استعمالها مع الآية استعملناها معها على موافقة الآية في احتمالها للمسح وتركنا الباقي على مقتضى الآية ومرادها؛ ولما لم ترد الآثار في جواز المسح على الجوربين في وزن ورودها في المسح على الخفين بقينا حكم الغسل على مراد الآية ولم ننقله عنه“ ترجمہ: اور اس مسئلے میں اصل یہ ہے کہ جو ثابت ہوا، وہ یہ کہ آیت کی مراد غَسل (پاؤں کا دھونا) ہی ہے جیسا کہ گزر چکا، پس اگر نبی مکرم ﷺ سے موزوں پر مسح کی متواتر احادیث وارد نہ ہوتیں تو ہم ہرگز مسح کو جائز قرار نہ دیتے۔ لہذا جب صحیح احادیث وارد ہوئیں اور آیت مبارکہ کے ساتھ ان کے استعمال کی دلیل قائم ہو گئی تو ہم نے آیت کے ساتھ اس کے مسح کے احتمال میں انہیں استعمال کیا آیت کی موافقت پر، اور ہم نے آیت کے مقتضی اور اس کی مراد پر باقی کو چھوڑ دیا ۔ اور جب جرابوں پر مسح کے جواز میں اس بھاری تعداد میں احادیث وارد نہیں ہوئیں جس طرح موزوں پر مسح کرنے کے حوالے سے بھاری تعداد میں وارد ہوئی ہیں تو ہم نے مرادِ آیت پر حکم غَسل (پاؤں دھونے کے حکم) ہی کو باقی رکھا اور ہم جرابوں پر مسح کی طرف منتقل نہ ہوئے۔
(أحكام القرآن للجصاص ، جلد نمبر 2، صفحه نمبر 440، مطبوعه: دار الكتب العلمية بيروت)
اصول الشاشی میں علامہ نظام الدين ابو علی احمد بن محمد شاشی (المتوفی 344) لکھتے ہیں: ” وحكم الخاص من الكتاب وجوب العمل به لا محالة فإن قابله خبر الواحد أو القياس فإن أمكن الجمع بينهما بدون تغيير في حكم الخاص يعمل بهما وإلا يعمل بالكتاب ويترك ما يقابله“ ترجمہ: اور کتاب اللہ کے خاص کا حکم یہ ہے کہ اس پر عمل کرنا قطعی طور پر واجب ہے، پس اگر اس کے مقابل خبر واحد یا قیاس آ جائے تو اگر ان دونوں کو جمع کرنا ممکن ہو بغیر کتاب اللہ کے خاص کے حکم میں کوئی تبدیلی کیے تو ان دونوں پر عمل کیا جائے گا وگرنہ کتاب اللہ پر عمل ہوگا اور جو اس کے مقابل ہو اسے ترک کر دیا جائے گا۔
(اصول الشاشی ، فصل في الخاص والعام ، صفحه نمبر 4-5، مطبوعه: مکتبۃ المدینہ کراچی)
فصول الحواشی میں ہے: ” (فإن أمكن الجمع بينهما بدون التغیر فی حکم الخاص) مع تغیر ما فی حکم الخبر (یعمل بھما) ای بالمتقابلین لان الاصل ان یعمل بالدلائل جمعا بینھما ان امکن والا ای و ان لم یکن الجمع بینھما بدون تغیر فی حکم الخاص یعمل بالکتاب ویترک مایقابلہ لان الکتاب اقوی منھما لانہ قطعی وھما طنیان لان فی خبر الواحد شبھۃ الانقطاع عن الرسول ﷺ والقیاس مبناہ علی الرای وھو یحتمل الغلط و الضعیف لا یظھر فی مقابلۃ القوی“ ترجمہ: تو اگر ان دونوں کو جمع کرنا ممکن ہو بغیر خاص کے حکم میں کوئی تبدیلی کیے، (اگرچہ) خبر واحد کے حکم میں کچھ تبدیلی کے ساتھ تو ان دونوں یعنی خاص اور متقابل پر عمل کیا جائے گا، کیونکہ اصل یہ ہے کہ اگر ممکن ہو تو دلائل کو مابین جمع کرتے ہوئے ان پر عمل کیا جائے، وگرنہ یعنی خاص اور متقابل (خبر واحد یا قیاس) کو بغیر خاص کے حکم میں تبدیلی کیے جمع کرنا ممکن نہیں تو کتاب اللہ پر عمل ہوگا اور جو اس کے مقابل ہو اسے ترک کر دیا جائے گا کیونکہ کتاب ان دونوں میں سے قوی ترین ہے اس لیے کہ وہ قطعی ہے جبکہ خبر واحد و قیاس ظنی ہیں، کیونکہ خبر واحد میں رسول اللہ ﷺ سے انقطاع کا شبہہ ہے اور قیاس رائے پر مبنی ہوتا ہے جو کہ غلطی کا احتمال رکھتا ہے اور ضعیف قوی کے مقابلے میں ظاہر نہیں ہوتا۔
(فصول الحواشی ، فصل في الخاص والعام ، صفحه نمبر 27، مطبوعه: مکتبۃ الحرم لاہور)
فصول الحواشی میں ہے: ما بين القوسين عبارة أصول الشاشی” (شرط العمل بخبر الواحد أن لا يكون مخالفا للكتاب والسنة المشهورة) والمتواتر والاجماع لان هذه الادلۃقطعية والخبر الواحدظني ولاتعارض بين القطعي والظني بوجه بل الظني يسقط بمقابلته (وأن لا يكون مخالفا للظاهر)“ ترجمہ: خبر واحد پر عمل کی شرط یہ ہے کہ وہ کتاب اللہ، حدیث مشہورہ، حدیث متواترہ اور اجماع کے مخالف نہ ہو کیونکہ یہ دلائل قطعی ہوتے ہیں اور خبر واحد ظنی ہوتی ہے، اور قطعی و ظنی کے مابین اس صورت میں تعارض نہیں بلکہ ظنی دلیل قطعی کے مقابلے میں آنے کے ساتھ ساقط ہو جاتی ہے، نیز (خبر واحد پر عمل کی شرط میں یہ بھی ہے کہ) وہ ظاہر (عموم بلوی )کے مخالف نہ ہو۔
(فصول الحواشی ، بحث شرط العمل بخبر الواحد، صفحه نمبر 365، مطبوعه: مکتبۃ الحرم لاہور)
خامساً شارحین حدیث و فقہائے کرام نے اس حدیث کے اصل محمل کی تحقیق فرمائی اور مقصود شرع کوواضح فرمایا۔ چنانچہپہلی بات یہ کہ لفظِ جورب محتمل ہے کہ عین ممکن کہ وہ جرابیں جن کا اس حدیث میں تذکرہ ہے وہ مجلد ہوں یا منعل، کیونکہ لفظ جورب ان کو بھی شامل ہے، اس سے محض باریک جرابیں مراد نہیں، بلکہ بعض حضرات نے تو اس کی منعل ہونے سے ہی تعبیر فرمائی اور اس کو اثار صحابہ سے ثابت کیا جیسا کہ امام بیہقی نے سنن الکبری میں حضرت انس بن مالک کے حوالے سے روایت نقل کی۔ نیز یہ بھی ممکن ہے کہ نبی پاک ﷺ وضو کی حالت میں ایسا فرما رہے ہوں جیسا کہ آپ ﷺ سے وضو کی حالت میں وضو کرتے ہوئے پاؤں کو دھونے کی بجائے ان پر مسح فرمانا بھی ثابت ہے تو حالت وضو میں جورب پر مسح فرمانا بعید نہیں۔ دوسری بات یہ کہاس حدیث کا درست محمل اس جورب کا منعل و ثخین ہونا ہی ہے ولہذا حاصل حدیث یہی ہوا کہ اگر صرف جرابیں پہنی ہوں تو ان پر مسح کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ یا مجلد ہوں یا منعل یا ثخین (ان کی تعریف آخر میں بیان کی گئی ہے)، اس کی وجہ ہر عاقل شخص تو اوپر کی گئی گفتگو سے بخوبی جان سکتا ہے کہ خف کے مفہوم میں آنے کے لیے ان میں سے کسی ایک قسم کا ہونا ضروری ہےورنہ خف کا مفہوم ان پر صادق نہ آئے گا، اور مفہومِ خف سے نکلنے کی صورت میں دلالۃ النص سے بھی خارج ہونے کے باعث منصوص سے نکل جائیں گی اور رخصتِ منصوصہ ساقط ہونے کی وجہ سے اصل حکمِ غَسل عود کر آئے گا یعنی پاؤں دھونے ہوں گے۔ تیسری بات یہ کہ اس حدیث پاک کی وجہ سے باریک جرابوں پر مسح کرنے کا استدلال اور موٹی جرابوں پر مسح کرنے پر اعتراض قطعا نہیں بنتا کیونکہ اس حدیث مبارکہ میں تو محض مخصوص حکایتِ حال ہے ، اور اس میں ایسا عموم نہیں کہ باریک جرابوں کو شامل ہو اس لیے کہ اُس دور میں باریک جرابیں با آسانی دستیاب نہیں ہوا کرتی تھیں۔
سنن الکبری میں امام ابو بکر احمد بن حسین بیہقی (المتوفی 458ھ) لکھتے ہیں: ” وكان الأستاذ أبو الوليد رحمه الله تعالى يؤول حديث المسح على الجوربين والنعلين على أنه مسح على جوربين منعلين لا أنه جورب على الانفراد ونعل على الانفراد أخبرنا بذلك عنه أبو عبد الله الحافظ وقد وجدت لأنس بن مالك أثرا يدل على ذلك… راشد بن نجيح، قال: رأيت أنس بن مالك دخل الخلاء وعليه جوربان أسفلهما جلود وأعلاهما خز فمسح عليهما“ ترجمہ: استاد ابو ولید جرابوں اور جوتوں پر مسح کی حدیث کی تاویل منعل جرابوں پر مسح کرنے کے ساتھ کیا کرتے تھے، نہ کہ اس میں جراب الگ اور جوتا الگ ہونے کے ساتھ۔ ہمیں ان سے یہ خبر ابو عبد اللہ الحافظ نے دی اور حضرت انس بن مالکسے مروی ایسی اثر موجود ہے جو اس پر دلالت کرتی ہے۔ (چنانچہ) راشد بن نجیح نے کہا میں نے حضرت انس بن مالک کو دیکھا کہ آپ بیت الخلا میں داخل ہوئے اس حال میں کہ آپ نے ایسی جرابیں زیب تن کر رکھیں تھیں جن کا تلا چمڑے کا اور ان کا اوپری حصہ ریشم کا تھا تو آپ نے ان پر مسح فرمایا۔
(السنن الكبرى للبيهقي ، جلد نمبر 1، صفحه نمبر 428-429، مطبوعه: دار الكتب العلمية بيروت)
المجموع شرح المهذب میں عظیم محدث علامہ ابو زکریا محی الدین بن شرف نووی (المتوفی 676ھ) محمل حدیث بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ” حكاه البيهقي رحمه الله عن الأستاذ أبي الوليد النيسابوري أنه حمله على أنه مسح على جوربين منعلين لا أنه جورب منفرد ونعل منفردة فكأنه قال مسح على جور بيه المنعلين “ ترجمہ: امام بیہقی نے استاد ابو ولید نیسیاپوری سے حکایت کیا کہ آپ نے حدیث پاک کو منعل جرابوں پرمسح کرنے پر محمول کیا، (حدیث پاک میں مراد) جراب علیحدہ اور جوتا علیحدہ ہو، ایسا نہیں۔ پس گویا کہ انہوں نے فرمایا کہ آپﷺ نے منعل جرابوں پر مسح کیا۔
(المجموع شرح المهذب ، جلد نمبر 1، صفحه نمبر 500، مطبوعه: مطبعة التضامن الأخوي القاهرة)
احكام القرآن میں علامہ احمد بن علی ابو بکر رازی جصاص (المتوفی 370ھ)لکھتے ہیں: ” فإن قيل: روى المغيرة بن شعبة وأبو موسى: أن النبي صلى الله عليه وسلم مسح على جوربيه ونعليه. قيل له: يحتمل أنهما كانا مجلدين، فلا دلالة فيه على موضع الخلاف؛ إذ ليس بعموم لفظ وإنما هو حكاية فعل لا نعلم. وأيضا يحتمل أن يكون وضوء من لم يحدث، كما مسح على رجليه وقال: “هذا وضوء من لم يحدث”. ومن جهة النظر اتفاق الجمع على امتناع جواز المسح على اللفافة؛ إذ ليس في العادة المشي فيها، كذلك الجوربان. وأما إذا كانا مجلدين فهما بمنزلة الخفين ويمشي فيهما وبمنزلة الجرموقين، ألا ترى أنهم قد اتفقوا على أنه إذا كان كله مجلدا جاز المسح؟ ولا فرق بين أن يكون جميعه مجلدا أو بعضه بعد أن يكون بمنزلة الخفين في المشي “ ترجمہ: پس اگر کوئی اعتراض کرے کہ مغیرہ بن شعبہ اور ابو موسی سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اپنی جرابوں اور نعلین پر مسح فرمایا۔ تو اس کا جواب یہ ہوگا کہ حدیث پاک میں ان جرابوں کے مجلد ہونے کا احتمال ہے پس موضع اختلاف میں اس سے دلیل نہیں پکڑی جا سکتی کیونکہ وہ لفظ کے عموم کے ساتھ نہیں ہے، وہ تو محض ایسے فعل کی حکایت ہے جسے ہم نہیں جانتے۔ نیز اس کا بھی احتمال ہے کہ یہ اس شخص کا وضو ہو جو محدِث نہیں جیسا کہ (ایک حدیث پاک میں) نبی مکرمﷺ نے پاؤں پر مسح کیا اور فرمایا یہ اس شخص کا وضو ہے جو محدث نہ ہو۔ اس نقطۂ نظر سے پاؤں پر لپیٹے کپڑے پر مسح جائز نہ ہونے پر سب کا اتفاق ہے، اس لیے کہ اس میں عادۃً چلنا نہیں ہوتا، اسی طرح کپڑوں کی جرابوں کا حکم ہے۔ اور بہر حال جب جرابیں مجلد ہوں تو وہ چمڑے کے موزوں اور جرموقوں کے قائم مقام ہوں گی کہ ان میں چلا جا سکتا ہے۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ اس بات پر فقہائے کرام کا اتفاق ہے کہ جب جرابیں مکمل مجلد ہوں تو ان پر مسح جائز ہے۔ اور اس میں کوئی فرق نہیں کہ تمام کی تمام مجلد ہوں یا ان کا بعض حصہ، بعد اس کے کہ وہ چلنے پھرنے کے معاملے میں چمڑے کے موزوں کے قائم مقام (متصور) ہیں۔
(أحكام القرآن للجصاص ، جلد نمبر 2، صفحه نمبر 440، مطبوعه: دار الكتب العلمية بيروت)
سنن الکبری میں امام ابو بکر احمد بن حسین بیہقی (المتوفی 458ھ) لکھتے ہیں: ”عن علي أنه دعا بكوز من ماء، ثم توضأ وضوءا خفيفا، ثم مسح على نعليه، ثم قال: هكذا وضوء رسول الله صلى الله عليه وسلم للطاهر ما لم يحدث . وفي هذا دلالة على أن ما روي عن علي في المسح على النعلين إنما هو في وضوء متطوع به لا في وضوء واجب عليه من حدث يوجب الوضوء، أو أراد غسل الرجلين في النعلين، أو أراد المسح على جوربيه ونعليه، كما رواه عنه بعض الرواة مقيدا بالجوربين، وأراد به جوربين منعلين فثابت عنه رضي الله عنه غسل الرجلين، وثابت عن رسول الله صلى الله عليه وسلم غسل الرجلين والوعيد على تركه، وبالله التوفيق“ ترجمہ: حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے پانی کا برتن منگوایا پھر ہلکا وضو کیا پھر اپنے جوتوں پر مسح کیا اور پھر فرمایا یہ رسول اللہ ﷺ کا وضو ہے اس پاک شخص کے لیے جسے حدث نہیں ہوا۔ اور اس اثر میں اس بات پر دلالت ہے کہ جو حضرت علی سے جوتوں پر مسح کرنا مروی ہے وہ محض نفلی وضو میں ہے نہ کہ اس وضو میں جو کہ موجب وضو حدث کی وجہ سے ان پر واجب ہوا، یا جوتوں میں پاؤں دھونا مراد ہے، یا جرابوں اور جوتوں پر مسح کرنا مراد ہے جیسا کہ آپ سے بعض راویوں نے اسے لفظِ جوربین سے مقید کرتے ہوئے روایت کیا، اور اس سے مراد منعل جرابیں ہیں، ورنہ تو حضرت علی سے پاؤں دھونا ثابت ہے اور رسول اللہ ﷺ سے بھی پاؤں دھونا ہی ثابت ہے اور پاؤں دھونے کو ترک کرنے پر وعید فرمانا ثابت ہے۔
(السنن الكبرى للبيهقي ، جلد نمبر 1، صفحه نمبر 122، مطبوعه: دار الكتب العلمية بيروت)
البنایۃ شرح ہدایۃ میں علامہ بدرالدین ابو محمد محمود بن احمد عینی (المتوفى: 855ھ/1451ء)لکھتے ہیں:”كون الجورب منعلاً وهو محمل الحديث الذي رواه أبو موسى وغيره، … لأنه يقول: إن المسح على الخف ورد على خلاف القياس؛ لأن النص يقتضي الغسل فلا يلحق به غيره، إلا ما كان في معناه من كل وجه، فثبت بدلالة النص لا بالقياس، فلو لم يكن المنعل مراداً في حديث أبي موسى وغيره يكون زيادة على النص بخبر الواحد، وذا لا يجوز، كذا في الكافي“ ترجمہ: ان جرابوں کا منعل ہونا ہی محمل حدیث ہے جو حضرت ابو موسی وغیرہ سے مروی ہے … کیونکہ خف پر مسح کرنا خلاف قیاس وارد ہے اس لیے کہ نص قرآنی تو پاؤں دھونے کا تقاضہ کرتی ہے پس خف کے ساتھ کسی غیر کو لاحق نہیں کیا جا سکتامگر یہ کہ وہ ہر اعتبار سے خُف کے معنی میں ہو تو دلالۃ النص سے اس کا جواز بھی ثابت ہو جائے گا نہ کے قیاس کے ساتھ۔ پس اگر حضرت ابو موسی اشعری وغیرہ کی حدیث پاک میں جورب سے مراد منعل جراب نہ ہو تو یہ خبر واحد کے ذریعے نص قرآنی پر زیادتی ہوگی جو کہ جائز نہیں۔ ایسا ہی الکافی میں ہے۔
(البناية شرح الهداية ، جلد نمبر 1، صفحه نمبر 611، مطبوعه: دار الكتب العلمية بيروت)
بدائع الصنائع میں ملک العلما امام ابو بكر بن مسعود کاسانی حنفی (المتوفى: 587ھ/1191ء) لکھتے ہیں: ”وأما الحديث فيحتمل أنهما كانا مجلدين، أو منعلين، وبه نقول، ولا عموم له؛ لأنه حكاية حال، ألا ترى أنه لم يتناول الرقيق من الجوارب“ ترجمہ: اور بہر حال (جرابوں پر مسح والی) حدیث تو اس میں جرابوں کے مجلد یا منعل ہونے کا احتمال ہے اور یہی ہمارا قول ہے۔ اور اس میں عموم نہیں (کہ باریک جرابوں کو شامل ہو) کیونکہ وہ تو محض حکایتِ حال ہے۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ باریک جرابیں با آسانی دستیاب نہیں ہوتی تھیں۔
(بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع ، جلد نمبر 1، صفحه نمبر 142، مطبوعه: دار الكتب العلمية بیروت)
شرح سنن ابی داؤد میں علامہ بدرالدین ابو محمد محمود بن احمد عینی (المتوفى: 855ھ/1451ء)لکھتے ہیں: ”وبهذا الحديث احتج أبو حنيفة على أنه يجوز المسح على الجوربين. فإن قيل: فمن أين يشترط أن يكون مجلداً أو منعلاً، والحديث مطلق؟ قلت: الحديث محمول على ذلك ومراد منه ذلك، ليكون معنى الخف، وبقولنا قال مالك، وأحمد،وداود“ ترجمہ: اور اس (جرابوں پر مسح والی) حدیث سے ہی امام اعظم نے استدلال کیا کہ جرابوں پر مسح کرنا جائز ہے۔ پس اگر کوئی اعتراض کرے کہ جراب کے مجلد یا منعل ہونے کی شرط کہاں سے لگائی گئی جبکہ حدیث پاک تو مطلق ہے؟ تو میں جواب دوں گا: حدیث پاک اسی پر محمول ہے اور حدیث پاک سے اسی طرح کی جراب مراد ہے تاکہ یہ خُف کے معنی و مفہوم میں ہو سکے۔ اور ہمارے والا قول ہی امام مالک، امام احمد اور امام داؤد کا قول ہے۔
(شرح سنن أبي داود للعيني ، جلد نمبر 1، صفحه نمبر 374، مطبوعه: مكتبة الرشد الرياض)
سادساً یہ تمام بحث تب ہے جبکہ اس حدیث مبارکہ کو صحیح تسلیم کیا جائے ورنہ تو کئی محدثین کرام نے اسے ضعیف قرار دیا ہے جن میں امام بیہقی، عبدالرحمٰن بن مہدی، امام احمد بن حنبل،علی بن مدینی، یحی بن معین نیز امام مسلم وغیرہ شامل ہیں۔ اس لیے کہ حضرت مغیرہ بن شعبہ سے صحیح و معروف روایت مسح علی الخفین والی ہے۔ اسی بنیاد پر امام ترمذی کی اس تحکیم پر اعتراض کیے گئے اور اسے ناقابل استدلال قرار دیا گیا، اگرچہ ان اعتراضات پر کلام کیا گیا ہے لیکن کم از کم یہ حدیث جرح سے خالی نہیں۔
سنن النسائی میں امام ابو عبدالرحمٰن احمد بن شعیب نسائی (المتوفی 303ھ) مذکورہ حدیث پاک نقل فرمانے کے بعد لکھتے ہیں:”قال أبو عبد الرحمن ما نعلم أن أحدا تابع أبا قيس على هذه الرواية والصحيح عن المغيرة: أن النبي صلى الله عليه وسلم مسح على الخفين“ ترجمہ: ابو عبد الرحمٰن نے فرمایا کہ ہم کسی ایسے کو نہیں جاتے جس نے اس روایت میں ابو قیس کی متابعت کی ہو۔ جبکہ حضرت مغیرہ سے صحیح حدیث “نبی اکرم ﷺ نے چمڑے کے موزوں پر مسح فرمایا” ہی مروی ہے۔
(السنن الكبرى للنسائی ، جلد نمبر 1، صفحه نمبر 123، مطبوعه: مؤسسة الرسالة بيروت)
سنن الکبری میں امام ابو بکر احمد بن حسین بیہقی (المتوفی 458ھ) لکھتے ہیں:”قال أبو محمد: رأيت مسلم بن الحجاج ضعف هذا الخبر وقال أبو قيس الأودي وهزيل بن شرحبيل: لا يحتملان هذا مع مخالفتهما الأجلة الذين رووا هذا الخبر عن المغيرة فقالوا: مسح على الخفين وقال: لا نترك ظاهر القرآن بمثل أبي قيس وهزيل“ ترجمہ: ابو محمد یحی بن منصور نے فرمایا کہ میں نے امام مسلم بن حجاج کو دیکھا کہ آپ نے اس حدیث پاک کو ضعیف قرار دیااور فرمایا: ابو قیس اودی اور ہزیل بن شرحیل سے یہ ناقابل امکان ہے، ان دونوں کے اجلہ محدثین کی مخالفت کے سبب کہ جب اُنہوں نے اس حدیث کو حضرت مغیرہ سے روایت کیا تو کہا: نبی کریم ﷺ نے موزوں پر مسح فرمایا۔ نیز امام مسلم نے فرمایا: ہم ابو قیس اور ہزیل جیسے کے ذریعے قرآن کے ظاہر حکم کو ترک نہیں کر سکتے۔
(السنن الكبرى للبيهقي ، جلد نمبر 1، صفحه نمبر 425، مطبوعه: دار الكتب العلمية بيروت)
المجموع شرح المهذب میں علامہ ابو زکریا محی الدین بن شرف نووی (المتوفی 676ھ) لکھتے ہیں”والجواب عن حديث المغيرة من أوجه أحدها أنه ضعيف ضعفه الحفاظ وقد ضعفه البيهقي ونقل تضعيفه عن سفيان الثوري وعبد الرحمن بن مهدي وأحمد ابن حنبل وعلي بن المديني ويحيى بن معين ومسلم بن الحجاج وهؤلاء هم أعلام أئمة الحديث وإن كان الترمذي قال حديث حسن فهوءلاء مقدمون عليه بل كل واحد من هوءلاء لو انفرد قدم على الترمذي باتفاق أهل المعرفة “ترجمہ: حضرت مغیرہ کی حدیث پاک کا کئی طریقوں سے جواب دیا جا سکتا ہے، ان میں سے ایک یہ ہے کہ یہ حدیث پاک ضعیف ہے، جسے حفاظِ حدیث نے ضعیف قرار دیا ہے۔ نیز امام بیہقی نے اسے ضعیف فرمایا اور اس کی تضعیف سیدنا سفیان ثوری، عبد الرحمٰن بن مہدی، امام احمد بن حنبل، علی بن مدینی، یحی بن معین اور امام مسلم بن حجاج سے نقل فرمائی، اور یہ سب کبار آئمۂ حدیث ہیں۔ اگرچہ امام ترمذی نے اس حدیث کو حسن فرمایا پس یہ سب کبار محدثین ان پر مقدم ہیں بلکہ ان میں سے ہر ایک انفرادی طور پر بھی باتفاقِ اہلِ معرفت امام ترمذی پر مقدم ہے۔
(المجموع شرح المهذب ، جلد نمبر1، صفحہ نمبر 500، مطبوعه: مطبعة التضامن الأخوي القاهرة)
مشہور اہل حدیث نذیر حسین دہلوی (المتوفی 1321ھ) نے تحریر کیا: ” (یہ) ثقات کی مخالفت ہے، باقی رہا ترمذی کا اس کو حسن صحیح کہنا تو امام نووی نے کہا کہ جن لوگوں نے اس حدیث کی تضعیف کی ہے ان میں سے ہر ایک امام ترمذی سے مقدم ہے، اور پھر یہ اصول بھی ہے کہ جرح تعدیل پر مقدم ہوتی ہے۔“
(فتاوی نذیریہ ، جلد نمبر1، صفحہ نمبر 329، مطبوعه: اہل حدیث اکادمی ، لاہور)
سنن ابی داؤد میں امام ابو داؤد سلیمان بن اشعث سجستانی (المتوفی 275ھ) یہ حدیث حضرت مغیرہ بن شعبہ سے روایت کرنے کے بعد فرمایا: ” كان عبد الرحمن بن مهدي لا يحدث بهذا الحديث، لأن المعروف عن المغيرة أن النبي صلى الله عليه وسلم مسح على الخفين.وروي هذا أيضا عن أبي موسى الأشعري عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه مسح على الجوربين، وليس بالمتصل ولا بالقوي“ ترجمہ: عبدالرحمٰن بن مہدی اس حدیث پاک کو بیان نہیں کیا کرتے تھے کیونکہ حضرت سیدنا مغیرہ سے مروی معروف حدیث نبی کریم ﷺ کے خفین پر مسح فرمانے کی ہے۔ نیز یہ حدیث حضرت ابو موسی اشعری سے بھی مروی ہے کہ آپ نے نبی کریم ﷺ سے جرابوں پر مسح کرنا روایت کیا، مگر یہ حدیث نہ ہی متصل ہے اور نہ ہی قوی۔
(سنن أبي داود ، جلد نمبر1، صفحہ نمبر 115، مطبوعه: دار الرسالة العالمية)
شرح سنن ابی داؤد میں امام ابو الفضل جلال الدین عبدالرحمٰن سیوطی (المتوفی 911ھ) مذکورہ بالا عبارت کے تحت لکھتے ہیں: ” (وليس بالمتّصل) لأنّه من رواية الضحاك بن عبد الرّحمن بن عَرْزب عن أبي موسى، ولم يثبت سماعه منه.(ولا بالقويّ) لأن راويه عن الضحاك عيسى بن سنان، ضعّفه أحمد وابن معين وأبو زرعة والنسائي وغيرهم“ ترجمہ: (یہ حدیث متصل نہیں) کیونکہ یہ ضحاک بن عبد الرحمٰن بن عرزب کی سیدنا ابو موسی اشعری سے (بلاواسطہ) روایت میں سے ہے اور سیدنا ابو موسی اشعری سے اس کا سماع ثابت ہی نہیں۔ (اور یہ حدیث قوی نہیں) کیونکہ اسے ضحاک بن عیسی بن سنان سے روایت کیا گیا جسے امام احمد بن حنبل اور ابن معین اور ابو زرعہ اور امام نسائی وغیرہم محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔
(مرقاة الصعود إلى سنن أبي داود، جلد نمبر1، صفحہ نمبر 139، مطبوعه: دار ابن حزم، بيروت لبنان)
حاصل کلام
خلاصۂ کلام یہ کہ احناف کا مذہبِ مہذب قرآن و سنت کے عین مطابق ہے جو کہ دلائل شرعیہ سے مزین ہونے کے ساتھ ساتھ اشکالات سے بھی پاک ہے، چنانچہ بر قولِ مفتی بہ عند الاحناف جن پائتابوں پر مسح جائز ہے وہ بنیادی طور پر دو قسم میں منقسم ہیں: (1) چمڑے کے موزے؛ یعنی جو مکمل چمڑے کے بنے ہوئے ہوتے ہیں، ان میں ہر طرح کے موزے پر مسح کی اجازت ہے جبکہ بقیہ شرائط بھی پوری ہوں۔ (2)کپڑے کی جرابیں؛ لیکن ان جرابوں میں صرف تین قسم کی جرابوں پر مسح کرنا جائز ہے: (۱)مجلد جراب: ایسی جراب جس کے اوپر نیچے ٹخنوں تک کا حصہ چمڑے کا ہو یا کسی دوسری چیز کا ہو ، لیکن اس پر اوپر نیچے چمڑا جوڑ دیا گیا ہو۔ (۲)منعل جراب: وہ جراب جس کا تلوا چمڑے کا بنایا گیا یا تلوے پر چمڑا جوڑ دیا گیا ہو اور بقیہ کسی اور موٹی چیز کی ہو۔ (۳)ثخین جراب:وہ جراب جو اتنی موٹی اور مضبوط ہو کہ تنہا اسی کو پہن کرتین میل(تقریبا ساڑھے پانچ کلومیٹر(m5,486)) یا اس سے زیادہ سفر کریں، تو وہ پھٹ نہ جائے، اور اُس پر پانی پڑے تو روک لے کہ فوراً پانی پاؤں کی طرف نہ چلا جائے، نیز موٹی اور مضبوط ہونے کے باعث کسی چیز سے باندھے بغیر پاؤں پر ٹھہری رہے، ڈھلک نہ پڑے۔
پس جو جرابیں اور موزے مندرجہ بالا اقسام میں سے کسی قسم میں داخل ہوں تو ان پر مسح کرنا جائز ہوگا۔ ان کے علاوہ کسی پر جائز نہیں، بشمول باریک جرابوں کے، جیسے کہ اونی، سوتی یا کاٹن کی مروجہ جرابیں ۔ لہذا اگر کسی شخص نے ایسی باریک جرابوں پر مسح کیا ہو تو اس کا وضو مکمل نہ ہونے کے سبب نماز محض باطل ہوگی، اور جتنی نمازیں ایسی حالت میں ادا کیں ان سب کی قضا کرنے کے ساتھ ساتھ توبہ کرنا بھی فرض ہوگا۔
و اللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم
کتبــــــــــــــــــــــــــــه
ابو محمد احمد رضا عطاری حنفی
28 شعبان المعظم 1445ھ / 9 مارچ 2024ء
نظر ثانی: مفتی ابو احمد محمد انس رضا قادری