تراویح بیٹھ کر پڑھنا
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں کہ کیا تراویح بیٹھ کر پڑھ سکتے ہیں اور تراویح جو گذشتہ سال میں رہ گئی کیا ان کی قضاء کرنی ہوگی اور تراویح کی جگہ قضاء عمری ادا کرسکتے ہیں؟
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایہ الحق والصواب
صورت مستفسرہ کے مطابق تراویح بلاعذر بیٹھ کر پڑھنا مکروہ تنزیہی ہے اس سبب سے کہ اس بہت تاکید ہے اور بعض کہ نزدیک تو ہوگی ہی نہیں لہذا عذر کے بغیر بیٹھ کر نہ پڑھی جائیں اور اگر کسی کی تراویح فوت ہوگئیں تو اس کی قضاء نہیں اگر ادا بھی کرے گا تو یہ نفل ہوگی۔ تراویح چونکہ سنت مؤکدہ ہے جس کا ترک اساءت ہے اور ترک کا عادی گناہ گار ہوگا ،اس لیے توبہ کرے ۔
رہا قضاء عمری تو اس کے لیے سنت مؤکدہ اور وہ نوافل جن کی تاکید آئی ان کو چھوڑنا درست نہیں ہے لہذا قضاء عمری بھی ادا کرے مگر اس سبب سے تراویح اور دیگر سنت مؤکدہ کا ترک جائز نہیں ہے۔
درمختار مع ردالمختار میں ہے
” ( وتكره قاعداً )؛ لزيادة تأكدها، حتى قيل: لا تصح ( مع القدرة على القيام )، كما يكره تأخير القيام إلى ركوع الإمام للتشبه بالمنافقين و في الرد: ” (قوله: وتكره قاعداً ) أي تنزيها لما في الحلية وغيرها من أنهم اتفقوا على أنه لا يستحب ذلك بلا عذر؛ لأنه خلاف المتوارث عن السلف“
ترجمہ:اور تراویح کو بیٹھ کر پڑھنا مکروہ ہے کیونکہ ان کے بارے میں زیادہ تاکید ہے یہاں تک کہ یہ کہا گیا ہے کہ وہ صحیح نہ ہوں گی جبکہ وہ قیام پر قدرت رکھتا ہو جس طرح یہ مکروہ ہے کہ وہ قیام کو امام کے رکوع کے ساتھ موخر کردے کہ اس میں منافقین کے ساتھ مشابہت ہے۔
(قوله: وتكره قاعداً ) یعنی یہ بیٹھ کر پڑھنا مکروہ تنزیہی ہے کیونکہ الحلبی وغیرہ میں ہے علماء کا اتفاق ہے کہ یہ عذر کے بغیر مستحب نہیں کیونکہ اسلام سے جو ورثہ در ورثہ چلا آرہا ہے یہ اس کے خلاف ہے ۔(الدر المختار مع رد المحتار، ج2، صفحہ 599 ، مطبوعہ کوئٹہ)
بہار شریعت میں ہے :
”تراویح بیٹھ کر پڑھنا بلا عذر مکروہ ہے، بلکہ بعضوں کے نزدیک تو ہوگی ہی نہیں ۔“(بہار شریعت ، ج 1 ، حصہ 4 ، صفحہ 698، مکتبہ المدینہ کراچی)
ردالمختار میں ہے
”ولا تقضی إذا فاتت (أصلاً) ولا وحدہ فی الأصح، فإن قضاھا کان نفلا مستحبا، ولیس بتراویح کسنۃ مغرب وعشاء“
ترجمہ:اور اگر کسی کی تراویح فوت ہوگئی تو اس کی اصلا قضاء نہیں ہے پس اگر تنہا ادا کرلے تو نفل مستحبہ ہے تراویح نہیں جیسا کہ مغرب وعشاء کی سنتیں۔(الدر المختار ،باب الوتر و النوافل، جلد 2، صفحہ 496، مطبوعہ کوئٹہ)
فتاویٰ تاتار خانیہ میں ہے
”إذا فات التراویح عن وقتہا ھل یقضی؟ وقال بعضہم: لا یقضي أصلا، وھو أصح“
ترجمہ:جب تراویح اپنے وقت سے فوت ہو جائے تو کیا اس کی قضاء ہے؟ بعض نے فرمایا کہ اصلا اس کی قضاء نہیں اور یہی صحیح ہے ۔(الفتاوی التاتارخانیة ،الفصل الثالث عشر في التراویح، جلد 2 ، صفحہ 355، مطبوعہ بیروت)
بہار شریعت میں ہے :
”اگر فوت ہوجائیں تو ان کی قضا نہیں اور اگر قضا تنہا پڑھ لی تو تراویح نہیں بلکہ نفل مستحب ہیں ، جیسے مغرب و عشا کی سنتیں ۔“(بہار شریعت ، ج 1 ، حصہ 4 ، صفحہ 694، مکتبہ المدینہ کراچی)
فتاویٰ رضویہ میں ہے:
”سیدعالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے تین شب تراویح میں امامت فرماکربخوفِ فرضیت ترک فرمادی،تواس وقت تک وہ سنت مؤکدہ نہ ہوئی تھی،جب امیرالمؤمنین فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے اسے اِجرافرمایا اورعامہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم اس پرمجتمع ہوئے، اس وقت سے وہ سنت مؤکدہ ہوئی،نہ فقط فعلِ امیرالمؤمنین سے،بلکہ ارشاداتِ سیدالمرسلین صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے ۔۔۔۔۔اب ان کاتارک ضرورتارکِ سنتِ مؤکدہ ہے اورترک کاعادی فاسق وعاصی(گنہگارہے)۔‘‘ (فتاوی رضویہ،ج07،ص471،مطبوعہ رضافاؤنڈیشن،لاھور)
طحطاوی علی المراقی الفلاح میں ہے
”و النظم للآخر“ والاشتغال بقضاء الفوائت أولى وأهم من النوافل الا السنة المعروفة وصلاة الضحى وصلاة التسبيح والصلاة التی وردت فی الأخبار فتلك بنية النفل وغيرها بنية القضاء كذا فی المضمرات عن الظهيرية وفتاوى الحجة ومراده بالسنة المعروفة المؤكدة “
ترجمہ: ”قضا نمازوں کی ادائیگی میں مشغول ہونا یہ نوافل پڑھنے سے زیادہ اہم و اَولی ہے ، سوائے معروف سنتوں کے اور چاشت وتسبیح کی نماز کے اور اس نماز کے جس کے بارے میں اخبار وارد ہوئی ہیں ۔ یہ نمازیں نفل کی نیت سے پڑھے اور اس کے علاوہ قضا کی نیت سے پڑھے۔ ایسا ہی مضمرات میں ظہیریہ کے حوالے سے ہے اور فتاوی الحجۃ میں ہے : معروف سنتوں سے مراد مؤکدہ سنتیں ہیں ۔“ (حاشیۃ الطحطاوی علی المراقی،باب قضاء الفوات، ج 02، ص 42-41، مکتبہ غوثیہ، کراچی)
بہارِ شریعت میں ہے:
”قضاء نوافل سے اہم ہیں یعنی جس وقت نفل پڑھتا،انہیں چھوڑ کر ان کے بدلے قضائیں پڑھےکہ برئ الذمہ ہوجائے البتہ تراویح اوربارہ رکعتیں سنت مؤکدہ نہ چھوڑے۔“ (بہارِ شریعت،ج01، ص706، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم
کتبـــــــــــــــــــــــــــہ
ممبر فقہ کورس
03رمضان المبارک1445ھ13مارچ 2024ء