پالتو جانور پر قربانی کی نیت

پالتو جانور پر قربانی کی نیت

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ جانور کو پالنے کی نیت سے لیا اور بعد میں جانور کی قربانی کی نیت کی تو اگر وہ بیمار ہو جائے تو اس کو صدقہ کر کے اس کی جگہ پہ قربانی کر سکتے ہیں؟ یا اسی کی قربانی کرنا لازم ہے؟

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

الجواب بعون الوھاب

صورت مسئولہ میں اس جانور کو صدقہ کرسکتے ہیں ، خاص اسی جانور کی قربانی کرنا لازم نہیں ہے۔ کیوں کہ جانور اگرقربانی کی نیت سے نہ خریدا ہو بلکہ کسی اور نیت سے خریدا ہو اور بعد میں اس جانور پر قربانی کی نیت کی ہو تو فقط اس پر قربانی کی نیت کرلینے سے اسی کی قربانی واجب نہیں ہو تی بلکہ قربانی کے ایام میں قربانی واجب ہونے کی شرائط پائی گئیں تو قربانی واجب ہوگی، اس واجب کی ادائیگی کے لیے قربانی کے لائق دوسرا جانور خرید کر قربانی کرسکتے ہیں۔

بدائع الصنائع میں ہے:

” اشترى شاة ولم ينو الاضحية وقت الشراء ثم نوى بعد ذلك أن يضحى بها لا يجب عليه سواء كان غنيا أو فقيرا لان النية لم تقارن الشراءفلا تعتبر“

یعنی:اگر کسی نے بکری خریدی اور خریدتے وقت قربانی کی نیت نہیں تھی توبعد میں قربانی کی نیت کرنے سے اس شخص پر اس خاص جانور کی قربانی واجب نہ ہوگی، برابر ہے کہ یہ شخص غنی ہو یا فقیر ،کیونکہ اس خاص جانور کی قربانی کرنے کی نیت خریدنے سے ملی ہوئی نہیں ہے اور خریدنے کے بعد اس خاص جانورکی قربانی کی نیت کا اعتبار نہیں ہے ۔(بدائعالصنائع ،جلد05،صفحہ62،مطبوعہ کراچی)

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فتاوی رضویہ میں لکھتےہیں:

” فقیر اگر بہ نیت قربانی خریدے ،اس پر خاص اس جانور کی قربانی واجب ہوجاتی ہے۔ اگر جانور اس کی ملک میں تھا اور قربانی کی نیت کرلی یا خریدا مگرخریدتے وقت نیت قربانی نہ تھی تو اس پروجوب نہ ہوگا غنی پر ایک اضحیہ خود واجب ہےاور اگر اورنذر بصیغہ نذر کرے گا ،تو وہ بھی واجب ہوگا۔ اس عبارت میں بھی یہی ہے کہ واجب بالنذر ہوجائے گا ،یعنی نذر کئے سے واجب ہوگا ،نہ کہ غنی پر مجرد خریداری سے۔“(فتاوی رضویہ،جلد20،صفحہ451،رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

حضرت علامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃبہار شریعت میں لکھتے ہیں:

”بکری کا مالک تھا اور اس کی قربانی کی نیت کر لی یا خریدنے کے وقت قربانی کی نیت نہ تھی، بعد میں نیت کر لی، تو اس نیت سے قربانی واجب نہیں ہوگی۔ “(بھار شریعت ،جلد3،صفحہ332، مکتبۃ المدینہ،کراچی)

واللہ اعلم ورسولہ اعلم

کتبہ

محمد انوار

15/5/2024

نظر ثانی:

مفتی محمد انس رضا قادری

اپنا تبصرہ بھیجیں