وضو کے اعضا کو پونچھنا
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں کہ کیا اعضاء وضو کو پونچھنا مکروہ ہے ؟
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایہ الحق والصواب
صورت مستفسرہ کے مطابق وضو کرنے کے بعد اعضاء وضو یا غسل کرنے کے بعد اعضاء کو پونچھنے میں حرج نہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ آپ ایسا کرتے تھے ۔ پونچھنے کے لیے رومال وغیرہ کا استعمال کرے دامن یا آنچل یا بدن سے ایسا نہ کرے ۔البتہ بہتر یہ ہے کہ رومال سے بھی پونچھنے کی عادت نہ ڈالیں اور نہ اس میں مبالغہ کرے ۔ جسم پر تری کا کچھ اثر باقی رکھے کہ حدیث مبارکہ میں ہے کہ وضو کا پانی بھی نامہ اعمال میں تولہ جائے گا ۔
سنن ترمذی میں ہے
سيده عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہےکہ
”کان لرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خرقہ ینشف بھا بعد الوضوء “
ترجمہ: رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس کپڑے کا ایک ٹکڑا تھا جس کے ساتھ وضو کے بعد اعضائے وضو پونچھا کرتے تھے۔(سنن ترمذي، ، كتاب أبواب الطهارة، باب ما جاء في التمندل بعد الوضوء، 1: 74، الرقم: 53، بيروت: دار إحياء التراث العربی)
سنن ترمذی میں حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں
”رایت النبی صلی اللہ علیہ وسلم اذا توضا مسح وجھہ بطرف ثوبہ“
ترجمہ:میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا جب آپ وضو فرماتے، کپڑے کے کنارے سے (اعضاء کو) خشک فرماتے۔(سنن ترمذي، ، كتاب أبواب الطهارة، باب ما جاء في التمندل بعد الوضوء، 1: 74، الرقم: 53، بيروت: دار إحياء التراث العربی)
سنن ابو داؤد میں حدیثِ میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے آخر میں ہے:
”فذکرت ذلک لابرھیم فقال کانوا لایرون بالمندیل بأسا ولکن کانوا یکرھون العادۃ “
ترجمہ:حضرت ابراہیم سے میں نے اس کا ذکر کیا تو انھوں نے فرمایا : وہ حضرات رومال سے پونچھنے میں حرج نہ جانتے تھے مگر اس کی عادت ڈالنا پسند نہ فرماتے تھے ۔ (سنن ابی داؤد، کتاب الطہارۃ،باب فی غسل من الجنابۃ، جلد 1، صفحہ 33آفتاب عالم پریس لاہور )
ارشاد الساری میں ہے
”قال فی الذخائر واذاتنشف فالاولی ان لایکون بذیلہ وطرف ثوبہ ونحوھما “
ترجمہ: ذخائر میں ہے اور جب خشک کرے تو اولیٰ یہ ہے کہ دامن ، لباس کے کنارے، اور ان کے مثل سے نہ پونچھے ۔ (ارشاد الساری ،شرح صحیح البخاری، کتاب الطہارۃ باب المضمضۃ الخ ، جلد 1 ، صفحہ 198،دار الکتب العلمیۃ بیروت)
فتویٰ رضویہ میں ہے:
”اپنے دامن یا آنچل سے بدن پونچھناشرعا منع نہیں مگر دامن سے ہاتھ منہ پونچھنے سے اہل تجربہ منع فرماتے ہیں کہ اس سے بھول پیدا ہوتی ہے۔“(فتویٰ رضویہ ، جلد 1 ، صفحہ 331، رضا فائونڈیشن لاہور)
بحر الرائق میں ہے
”والمنقول فی معراج الدرایہ وغیرھا انہ لاباس بالتمسح بالمندیل للمتوضی والمغتسل الا انہ ینبغی ان لا یبالغ ویستقصی فیبقی اثر الوضوء علی اعضائہ“
ترجمہ:اور معراج الدرایہ وغیرھا میں مذکور ہے کہ وضو کرنے والے اور غسل کرنے والے کے لیے اعضاء کو پوچھنے میں حرج نہیں ہے البتہ مناسب یہی ہے کہ اتنا مبالغہ نہ کرے کہ اعضاء وضو پر تری باقی نہ رہے ۔(بحر الرائق ، کتاب الطھارہ ،جلد 1 ،صفحہ 54، دار الفکر بیروت)
ردالمختار میں ہے
” قولہ والتمسح بمندیل ذکرہ صاحب المنیہ وقال فی الحلیہ ولم ار من ذکرہ غیرہ وانما وقع الخلاف فی الکراھہ ففی الخانیہ ولا باس بہ للمتوضی والمغتسل روی عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہ کان یفعلہ ومنھم من کرہ ذلک ومنھم من کرھہ للمتوضی دون المغتسل والصحیح ما قلنا الا انہ ینبغی ان لا یبالغ ولایستقصی فیبقی اثر الوضوء علی اعضائہ“
ترجمہ: اور رومال سے پوچھنا یہ صاحب المنیہ نے الغسل میں ذکر کیا ہے اور الحلبہ میں فرمایا میں نے ان کے علاوہ کوئی عالم نہیں دیکھا جس نے یہ ذکر کیا ہو اختلاف کراہت میں واقع ہوا ہے۔ الخانیہ میں ہے وضو کرنے والے اور غسل کرنے والے کے لیے رومال سے پوچھنے میں حرج نہیں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ آپ ایسا کرتے تھے۔ بعض علماء نے اس کو مکروہ کہا ہے۔ بعض نے وضو کرنے والے کے لیے اس کا استعمال مکروہ کہا لیکن غسل کرنے کے لیے مکروہ نہیں کہا ۔صحیح وہ ہے کہ جو ہم نے کہا مگر مناسب یہ ہے کہ مبالغہ نہ کرے یا وضو کا اثر اعضاء پر باقی رہے ۔(ردالمختار ، کتاب الطھارہ ، جلد 1 ، صفحہ 289، دار المعرفۃ بیروت)
فتاویٰ رضویہ میں ہے:
” اللہ تعالیٰ ثواب عطا فرمائے ، وضو کا ثواب جاتا رہنا محض غلط ہے ۔ ہاں بہتر ہے کہ بے ضرورت نہ پُونچھے ، امراء و متکبرین کی طرح اُس کی عادت نہ ڈالے اور پُونچھے تو بے ضرورت بالکل خشک نہ کر لے قدرے نم باقی رہنے دے۔۔۔۔۔
بالجملہ اس قدر میں شک نہیں کہ ترک احیاناً دلیلِ کراہت نہیں ہو سکتا بلکہ وہ تتمّہ دلیل سنیت ہوتا ہے ، اور احسن تاویلات حدیث وہ ہے جو امام اجل ابراہیم نخعی استاذ الاستاذ سیدنا امام اعظم رضی اللہ عنہ نے افادہ فرمائی کہ سلف کرام کپڑے سے پُونچھنے میں حرج نہ جانتے مگر اس کی عادت ڈالنا پسند نہ فرماتے کہ وہ باب ترفہ و تنعم سے ہے ۔بالجملہ تحقیق مسئلہ و ہی ہے کہ کراہت اصلاً نہیں ، ہاں حاجت نہ ہو تو عادت نہ ڈالے اور پُونچھے بھی تو حتی الوسع نم باقی رکھنا افضل ہے ۔“ (فتویٰ رضویہ ، جلد 1 ، صفحہ 314، رضا فائونڈیشن لاہور)
بہار شریعت میں ہے:
”اعضائے وُضو بغیر ضرورت نہ پُونچھے اور پُونچھے تو بے ضرورت خُشک نہ کرلے ۔“(بہار شریعت جلد 1 حصہ 2 صفحہ 303 مکتبہ المدینہ کراچی)
کنز العمال میں ہے
”وابن عساکر فی تاریخہ عن ابی ھریرۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ عن النبی صلی اللہ علیہ و سلم من توضأ فمسح بثوب نظیف فلا باس بہ و من لم یفعل فھو افضل لان الوضوء یوزن یوم القیامۃ مع سائر الاعمال“
ترجمہ: ابنِ عساکر نے تاریخ میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث روایت کی ہے ۔ یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو وضو کر کے پاکیزہ کپڑے سے بدن پونچھ لے تو کچھ حرج نہیں اور جو ایسا نہ کرے تو یہ بہتر ہے اس لئے کہ قیامت کے دن آبِ وضو بھی سب اعمال کے ساتھ تولا جائے گا۔ (کنزالعمال بحوالہ تمام وابن عساکرعن ابی ھریرۃ حدیث ۲۶۱۳۹ ، جلد 9، صفحہ 308، موسسۃ الرسالہ بیروت)
فتاویٰ رضویہ میں ہے :
”اقول: وبہ انتفٰی الاستدلال بو زنہ علی کراھۃ مسحہ کما قال الترمذی فی جامعہ و من کرھہ انما کرھہ من قبل انہ قیل ان الوضو یوزن الخ فھٰذا الحدیث مع تصریحہ بالوزن نص علی نفی الکراھۃ فان ذلک انما ھواستحباب ومعلوم ف۱ان ترک المستحب لایوجب کراھۃ التنزیہ کما حققہ فی البحر والشامی وغیرھما“
اقول: آب وضو کے وزن کئے جانے سے یہ استدلال کیا گیا ہے کہ اسے پونچھنا مکروہ ہے جیسا کہ امام ترمذی نے اپنی جامع میں لکھا کہ اس کا م کو جس نے مکروہ کہا ہے اسی وجہ سے مکروہ کہا ہے کہ فرمایا گیا ہے : یہ پانی روزِ قیامت نیکیوں کے پلّے میں رکھا جائے گا۔مذکورہ بالا حدیثِ ابو ھریرہ سے یہ استدلال رَد ہو جاتا ہے کیوں کہ اس میں وزن کئے جانے کی صراحت کے ساتھ کراہت کی نفی ،اور اس کے صرف مستحب ہونے پر نص موجود ہے —–اور یہ معلوم ہے کہ ترکِ مستحب، کراہتِ تنزیہ کا مُوجب نہیں۔ جیسا کہ محقق بحر اور علامہ شامی وغیرہما نے اس کی تحقیق فرمائی ہے ۔“ (فتویٰ رضویہ ، جلد 1 ، صفحہ 315، رضا فائونڈیشن لاہور)
واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم
کتبـــــــــــــــــــــــــــہ
ممبر فقہ کورس
19شوال المکرم 1445ھ27 اپریل 2024ء
نظر ثانی:
مفتی محمد انس رضا قادری