وراثت کی تقسیم

وراثت کی تقسیم

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین اس بارے میں کہ محمد عجائب صاحب کا انتقال 5 ستمبر 2003 کو ہوا، وصال کے وقت ان کے ورثا میں ایک بیوہ (بشیر بیگم)، تین بیٹے (غلام عباس، محمد عرفان، عامر شہزاد)، چار بیٹیاں (سعیدہ بیگم، شاہدہ بیگم، زاہدہ بیگم، فوزیہ بیگم) موجود تھے، جبکہ ان کی وراثت میں 88 کنال زرعی، اور 1 کنال غیر زرعی اور ایک گھر تھا۔ ابھی تک وراثت تقسیم نہیں ہوئی تھی کہ بشیر بیگم صاحبہ کا 31 جنوری 2024 کو انتقال ہو گیا۔ اب محمد عجائب صاحب کی وراثت تقسیم کرنی ہے، تو دریافت طلب امور یہ ہیں کہ (1) کس وارث کا کتنا حصہ بنتا ہے؟ (2) جو رقم ورثا کو بطور وراثت دینی ہے کیا وہ پراپرٹی کی موجودہ قیمت کے حساب سے دینی ہے یا 5 ستمبر 2003 کی قیمت کے حساب سے؟

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب

صورت مستفسرہ میں اب وراثت کی تقسیم کاری کے لیے امور متقدمہ علی الارث (یعنی مال وراثت میں سے کفن دفن کے اخراجات نکال کر، پھر میت کے ذمہ اگر قرض تھا تو اس کی ادائیگی کے بعد جو مال بچ جائے، کسی جائز وصیت کی صورت میں اس مال کے تہائی حصہ سے وہ وصیت پوری کرنے) کے بعد محمد عجائب صاحب کی کل جائیداد (مثلاً رقم، زیورات، گھریلو سامان، پلاٹ، مکان، زرعی و غیر زرعی زمین وغیرہ) کے 10 حصے کیے جائیں گے، مرحوم کے تینوں بیٹوں غلام عباس، محمد عرفان اور عامر شہزاد میں سے ہر ایک بیٹے کو دو 2 حصے ملیں گے، نیز مرحوم کی چاروں بیٹیوں سعیدہ بیگم، شاہدہ بیگم، زاہدہ بیگم اور فوزیہ بیگم میں سے ہر ایک بیٹی کو ایک 1 حصہ ملے گا۔ آسان لفظوں میں مرحوم کا ہر بیٹا کل جائداد میں سے 20 فیصد کا مالک ہے اور ہر بیٹی 10فیصد کی مالکہ ہے۔ نیز یہ واضح رہے کہ اگر مرحوم کی وراثت رقم کی صورت میں تقسیم ہو تو اس میں موجودہ قیمت کا اعتبار ہوگا۔

اللہ تبارک وتعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے:﴿ یُوْصِیْكُمُ اللّٰهُ فِیْۤ اَوْلَادِكُمْ ۗلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ﴾ترجمہ: اللہ تمہیں تمہاری اولاد کے بارے میں حکم دیتا ہے، بیٹے کا حصہ دو بیٹیوں کے برابر ہے۔

(پارہ 4، سورۃ النساء4،آیت نمبر 11)

علامہ فخر الدین عثمان بن علی زيلعی﷫ (المتوفى: 743 ھ/1342ء) لکھتے ہیں:”إذا اختلط البنون والبنات عصب البنون البنات فيكون للابن مثل حظ الأنثيين“ ترجمہ: جب بیٹے اور بیٹیاں جمع ہو جائیں تو بیٹے بیٹیوں کو عصبہ بنا دیں گے، پس بیٹے کا حصہ دو بیٹیوں کے حصے کے برابر ہوگا۔

(تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق، کتاب الفرائض، جلد نمبر 6، صفحه نمبر 234، مطبوعه: المطبعة الكبرى الأميري)

بہار شریعت میں ہے: ”اور اگر بیٹی کے ساتھ میت کا لڑکا بھی ہو تو بیٹی اور بیٹا دونوں عصبہ بن جائیں گے اور مال بَطور ِعصوبت دونوں میں اس طرح تقسیم ہو گاکہ بیٹے کو بہ نسبت بیٹی کے دوگنا دیا جائے گا۔“ (بہار شریعت، جلد نمبر 3، حصہ نمبر 20،صفحه نمبر 1121، مطبوعه: مکتبة المدینہ)

مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد وقار الدین قادری ﷫ (المتوفی: 1413ھ/1993ء) لکھتے ہیں:” مشترک جائیداد میں اگر کوئی وارث دوسرے وارثوں کی اجازت کے بغیر کچھ خرچ کرے گا تو وہ خرچ سب وارثوں پر تقسیم کر کے وصول کیا جائے گا۔ اگر وارثوں کی اجازت کے بغیر خرچ کیا ہے تو یہ احسان ہے، کسی وارث سے اس خرچ کا مطالبہ نہیں کر سکتا۔ مکان کی موجودہ صورت میں جو قیمت ہوگی، وہ سب ورثاء میں تقسیم ہوگی۔“

(وقار الفتاوی، جلد نمبر 3، صفحه نمبر 392، مطبوعه: بزم وقار الدین، کراچی)

مسئلے کی صورت درج ذیل ہے:

مسئلہ از : 10

محمد عجائب

مــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــیت

بیٹا (غلام عباس) بیٹا (عرفان) بیٹا(عامر) بیٹی (سعیدہ) بیٹی (شاہدہ) بیٹی (زاہدہ) بیٹی (فوزیہ)

عصـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــبہ

2

2

2

1

1

1

1

و اللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم

کتبــــــــــــــــــــــــــــہ

مولانا احمد رضا عطاری حنفی

29 شوال المکرم 1445ھ / 8 مئی 2024ء

اپنا تبصرہ بھیجیں