ناپاکی کے ایا م میں صحبت و حمل
کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس بارے میں کہ حالت حیض و نفاس میں عورت سے جماع کرنے کا کیا حکم ہے اور اگر اس میں حمل ٹھہر جائے تو اولاد کا کیا حکم ہوگا؟
بسم اﷲ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الوہاب اللہم ہدایۃالحق والصواب
حالت حیض و نفاس میں عورت کی ناف سے لے کر گھٹنوں تک قربت حاصل کرنا جائز نہیں ہے یا پھر اس حصے کو چھونا اگرچہ ایسا کپڑا حائل ہو جس سے بدن کی گرمی محسوس ہو تو یہ بھی منع ہے اور اگر بدن کی گرمی محسوس نہ ہو تو اب حرج نہیں ہے البتہ ناف سے اوپر اور گھٹنوں کے نیچے سے نفع اٹھانے میں حرج نہیں۔
اگر حالت حیض و نفاس میں جماع کرلیا تو حرام ہے سخت گناہ گار ہوگا اور اگر جائز سمجھ کر کیا تو یہ کفر ہے اب مستحب یہ ہے کہ ابتداء حیض میں جماع کیا تو ایک دینار اور آخری ایام میں کیا تو نصف دینار صدقہ کرے۔
اگر اس دوران صحبت سے حمل ٹھہر گیا تو بچہ ولد الحرام ہوگا ولد الزنا نہیں اسے حرامی نہیں کہہ سکتے کہ عرف میں حرامی ولد الزنا کو کہتے ہیں جبکہ یہ بچہ اسی باپ کا ہے اور اس کا نسب بھی باپ سے ثابت ہوگا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے
﴿ وَ یَسْــَـلُوْنَكَ عَنِ الْمَحِیْضِؕ قُلْ هُوَ اَذًىۙ فَاعْتَزِلُوا النِّسَآءَ فِی الْمَحِیْضِۙ وَ لَا تَقْرَبُوْهُنَّ حَتّٰى یَطْهُرْنَۚ فَاِذَا تَطَهَّرْنَ فَاْتُوْهُنَّ مِنْ حَیْثُ اَمَرَكُمُ اللّٰهُؕ اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ وَ یُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِیْنَ﴾
ترجمہ کنزالایمان: اور تم سے پوچھتے ہیں حیض کا حکم تم فرماؤ وہ ناپاکی ہے تو عورتوں سے الگ رہو حیض کے دنوں اور ان سے نزدیکی نہ کرو جب تک پاک نہ ہولیں پھر جب پاک ہوجائیں تو ان کے پاس جاؤ جہاں سے تمہیں اللہ نے حکم دیا بےشک اللہ پسندر کھتا ہے بہت توبہ کرنے والوں کو اور پسند رکھتا ہے ستھروں کو۔(سورۃ بقرہ ،آیت 222، پارہ 2)
مراۃ المناجیح میں ہے:
”حائضہ سے مساس جائز ہے، مگر یہ اس کے لئے ہے جو اپنے نفس پر قابو رکھتا ہو، اگر صحبت کر لینے کا اندیشہ ہو تو نہ کرے ۔“
آگے فرماتے ہیں:
حکم (صدقہ کرنے کا)استحبابی ہے،یعنی چونکہ اس نے بڑا گناہ کیاجس سے وہ عذاب کا مستحق ہوگیا۔صدقہ وخیرات عذاب دفع کرنے کے لئے اکسیر ہے،اس لئے ایسا کردے ورنہ اس گناہ کا اصل کفارہ تو توبہ ہی ہے۔آج کل بعض علماء جو بعض گناہوں پر خیرات و صدقہ کا حکم دیتے ہیں ان کی دلیل یہ حدیث ہے ۔یہاں وہ شخص مراد ہے جو حرام جانتے ہوئے یہ جرم کرے اوراگرحلال جان کرایساکیاتو کافرہوگیادوبارہ اسلام لائے اورتجدیدنکاح کرے۔“(مراۃ المناجیح ،حیض کا بیان جلد1،صفحہ338، مطبوعہ کراچی)
بدائع الصنائع میں ہے:
”يحرم القربان فی حالتی الحيض والنفاس“
یعنی: حیض و نفاس کی حالت میں جماع حرام ہے ۔(بدائع الصنائع، کتاب الطھارۃ، جلد01،صفحہ 167،دار الحديث، القاهرة)
تنویر الابصار مع الدر المختار میں ہے:
”(وقربان ما تحت إزار) يعني ما بين سرة وركبة ولو بلا شهوة، وحل ما عداه مطلقاً“
یعنی ناپاکی کی حالت میں عورت کے ناف سے لے کر گھٹنوں کے مابین حصے سے قربت حاصل کرنا اگر چہ بلا شہوت ہو،جائز نہیں۔ اس کے علاوہ حصے کو مطلقاً چھونا جائز ہے خواہ شہوت ہو یا نہ ہو۔
(قوله يعني ما بين سرة وركبة)کے تحت رد المحتار میں ہے:
”فيجوز الاستمتاع بالسرة وما فوقها والركبة وما تحتها ولو بلا حائل ، وكذا بما بينهما بحائل بغير الوطء “
یعنی ناف اور اس کے اوپر یونہی گھٹنے اور اس کے نیچے کے حصے سے فائدہ حاصل کرنا شرعاً جائز ہے اگر چہ بلا حائل ہو، اسی طرح ناف سے لے کر گھٹنوں تک کے حصے کو بغیر وطی کے ایسے کسی حائل کے ساتھ چھونا، جائز ہے( جس سے بدن کی گرمی محسوس نہ ہو)۔ (تنویر الابصار مع الدر المختار، کتاب الطھارۃ، ج 01، ص 534، مطبوعہ کوئٹہ)
فتاوٰی رضویہ میں ہے:
”کلیہ یہ ہےکہ حالتِ حیض میں و نفاس میں زیرِناف سے زانو تک عورت کے بدن سے بلاکسی ایسے حائل کے جس کے سبب جسمِ عورت کی گرمی اس کے جسم کو نہ پہنچے ،تمتع جائزنہیں یہاں تک کہ اتنے ٹکڑے بدن پر شہوت سے نظر بھی جائز نہیں اور اتنے ٹکڑے کا چھونا بلاشہوت بھی جائز نہیں اور اس سے اوپرنیچے کے بدن سے مطلقاً تمتع جائز یہاں تک کہ سحقِ ذکر کر کے انزال کرنا۔“(فتاوٰی رضویہ،جلد04،صفحہ353،رضافاؤنڈیشن، لاھور)
بہار شریعت میں ہے :
” ہمبستری یعنی جماع اس حالت میں حرام ہے۔۔۔۔۔اس حالت میں ناف سے گھٹنے تک عورت کے بدن سے مرد کا اپنے کسی عُضْوْ سے چھونا ،جائز نہیں جب کہ کپڑا وغیرہ حائل نہ ہو ۔ شَہوت سے ہویا بے شَہوت اور اگر ایسا حائل ہو کہ بدن کی گرمی محسوس نہ ہوگی تو حَرَج نہیں۔ ناف سے اوپر اور گھٹنے سے نیچے چھونے یا کسی طرح کا نفع لینے میں کوئی حَرَج نہیں۔ یوہیں بوس وکنار بھی جائز ہے۔“(بہارشریعت،ج 01 ، صفحہ 382، مکتبۃ المدینہ، کراچی، ملتقطاً)
فتاویٰ امجدیہ میں مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ سے سوال ہوا
:”حیض و نفاس میں نکاح ہوسکتا ہے یا نہیں؟ “
اس کے جواب میں ہے:
”حیض یا نفاس میں نکاح صحیح ہے مگر جب تک پاک نہ ہولے جماع حرام۔ (فتاوٰی امجدیہ، ج 02، ص 55، مکتبہ رضویہ، کراچی)
در المختار میں ہے
”(قوله: ويندب إلخ) لما رواه أحمد وأبو داود والترمذي والنسائي عن ابن عباس مرفوعاً «في الذي يأتي امرأته وهي حائض، قال: يتصدق بدينار أو نصف دينار»، ثم قيل: إن كان الوطء في أول الحيض فبدينار أو آخره فبنصفه، وقيل: بدينار لو الدم أسود وبنصفه لو أصفر. قال في البحر: ويدل له ما رواه أبو داود والحاكم وصححه: إذا واقع الرجل أهله وهي حائض، إن كان دماً أحمر فليتصدق بدينار، وإن كان أصفر فليتصدق بنصف دينار“
اور کہا گیا کہ یہ مستحب ہے جو کہ روایت کیا گیا احمد اور ابو داؤد اور ترمذی اور نسائی میں حضرت عبداللہ بن عباس سے مرفوعاً کہ جو اپنی بیوی کے پاس اس حال میں آئے کہ وہ حائضہ ہو تو فرمایا کہ وہ صدقہ کرے دینار یا نصف دینار پھر کہا گیا کہ اگر اول حیض میں وطی کی تو دینار اور آخر حیض میں وطی کی تو نصف دینار صدقہ کرے اور کہا گیا کہ اگر خون مائل باسود ہو تو دینار اور زردی مائل ہو تو نصف دینار اور بحر میں فرمایا ہے کہ یہ دلالت کرتا ہے کہ جو روایت ہے امام ابو داؤد اور حاکم میں ہے اور اسے صحیح کہا کہ جب مرد اپنی عورت کے قریب جائے جبکہ وہ حائضہ ہو تو اگر خون سرخ ہو تو دینار صدقہ کرے اور اگر خون مائل بزرد ہو تو نصف دینار صدقہ کرے ۔(الدر المختار، کتاب الطھارہ ،جلد 1، صفحہ 298 مطبوعہ ،کوئٹہ)
بہار شریعت میں ہے :
”ایسی حالت میں جِماع جائز جاننا کفر ہے اور حرام سمجھ کر کر لیا تو سَخْت گنہگار ہوا اس پر توبہ فرض ہے اور آمد کے زمانہ میں کیا تو ایک دیناراور قریب ختم کے کیا تو نصف دینار خیرات کرنا مُسْتَحَب۔“(بہارشریعت،ج 01 ، صفحہ 382، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
فتویٰ رضویہ میں ہے:
”اولادیں بہرحال ولد الحرام ہیں جیسے وہ نطفہ جو حالت حیض میں ٹھہرا مگر ولد الزنا نہیں ۔“(فتویٰ رضویہ، جلد 11، صفحہ 273، رضا فائونڈیشن لاہور )
فتویٰ رضویہ میں ہے:
”یہ لڑکا ولد الحرام ہے ولد الزنا نہیں اسے حرامی نہیں کہہ سکتے کہ عرف میں حرامی ولد الزنا کو کہتے ہیں اور یہ شرعاً اپنے اسی باپ کا ہے۔“(فتویٰ رضویہ ،جلد 6، صفحہ 539، رضا فائونڈیشن لاہور)
واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم
کتبـــــــــــــــــــــــــــہ
بنت عثمان
27جمادی الاول 1445ھ12دسمبر 2023ء