مردوں اور عورتوں کے اعتکاف کے متعلق احکام
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس بارے میں کہ اعتکاف کا کیا حکم ہے اور اور مردو عورت کے اعتکاف کا کیا حکم ہے؟
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایہ الحق والصواب
صورت مسئولہ کے مطابق آخری عشرے کا اعتکاف سنت مؤکدہ علی الکفایہ ہے اگر سب ترک کریں تو سب سے مطالبہ ہوگا اور شہر میں ایک نے کرلیا تو سب بری الذمہ ہو جائیں گے۔ البتہ مرد کا اعتکاف مسجد میں ہوگا کیونکہ اعتکاف ایسی عبادت ہے جو مسجد کے ساتھ خاص ہے وہ گھر میں یا مسجد بیت میں اعتکاف نہیں کرسکتا۔ عورت کا اعتکاف مسجد بیت میں ہوگا کہ عورت کے لیے مسجد بیت کا معاملہ ایسا ہے جیسا کہ مرد کے لیے عام وقف شدہ مسجد کا ہے۔ مسجد بیت وہ جگہ ہے جو گھر میں نماز پڑھنے کے لئے مقرر کی جاتی ہے۔ مسجد میں عورت کا اعتکاف کرنا مکروہ ہے۔
درر الحکام میں ہے:
” وهو واجب في المنذور وسنة مؤكدة في العشرة الأخيرة من رمضان “
ترجمہ : منت مانی ہو ، تو اعتکاف واجب ہے اور رمضان شریف کے آخری دس دنوں کا اعتکاف سنتِ مؤکدہ ہے ۔
حاشیہ شرنبلالی میں ہے :
” أي سنة كفاية للاجماع على عدم ملامة بعض أهل بلد إذا أتى به بعض منهم في العشر الأخير من رمضان كذا في البرهان “
ترجمہ : یعنی اعتکاف سنتِ مؤکدہ علی الکفایہ ہے کیونکہ اس پر اجماع ہے کہ جب کسی شہر میں بعض لوگ رمضان شریف کے آخری دس دنوں کا اعتکاف کر لیں ، تو باقیوں پر کوئی ملامت نہیں ہوگی جیسا کہ برہان میں ہے ۔( حاشیہ شرنبلالی علی درر الحکام ، جلد 1 ، صفحہ 212 ، مطبوعہ دار احیاء الکتب العربیہ ، بیروت )
مجمع الانہر میں ہے
” لو ترك أهل بلدة بأسرهم يلحقهم الإساء وإلا فلا “
ترجمہ : اگر تمام شہر والے چھوڑ دیں گے ، تو ہی ان کو اساءت ( یعنی سنتِ موکدہ چھوڑنے والی وعید ) لاحق ہوگی ، ورنہ نہیں ۔( مجمع الانھر ، جلد 1 ، صفحہ 255 ، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی ، بیروت )
بہار شریعت میں ہے :
” یہ اعتکاف سنت کفایہ ہے کہ اگر سب ترک کریں تو سب سے مطالبہ ہوگا اور شہر میں ایک نے کر لیا تو سب بری الذمہ۔“( بھارِ شریعت ، حصہ 5 ، جلد 1 ، صفحہ 1021 ، مکتبۃ المدینہ ، کراچی )
بدائع الصنائع میں ہے :
”اما الذی یرجع الی المعتکَف فیہ فالمسجد و انہ شرط فی نوعی الاعتکاف الواجب و التطوع “
ترجمہ : بہر حال جس جگہ اعتکاف کیا جائے ، اس کی شرائط : تو اس کے لیے مسجد ہونا شرط ہے اور یہ نفلی اور واجبی دونوں طرح کے اعتکاف کے لیے شرط ہے ۔ (بدائع الصنائع ، کتاب الاعتکاف ، شرائط الصحۃ ، جلد 2 ، صفحہ 280 ، مطبوعہ کوئٹہ )
بدائع الصنائع میں فرماتے ہیں :
” وأما الذي يرجع إلى المعتكف فيه: فالمسجد وإنه شرط في نوعي الاعتكاف: الواجب والتطوع۔۔۔ هذه قربة خصت بالمسجد لكن مسجد بيتها له حكم المسجد في حقها في حق الاعتكاف؛ لأن له حكم المسجد في حقها في حق الصلاة ۔۔۔ وإذا كان له حكم المسجد في حقها في حق الصلاة فكذلك في حق الاعتكاف؛ لأن كل واحد منهما في اختصاصه بالمسجد سواء وليس لها أن تعتكف في بيتها في غير مسجد وهو الموضع المعد للصلاة ملخصاً “
ترجمہ : اور بہر حال جس شرط کا اعتکاف کی جگہ کے ساتھ تعلق ہے ، تو وہ اس جگہ کا مسجد ہونا ہے اور یہ واجب اور نفلی دونوں اعتکاف میں شرط ہے ۔ اعتکاف ایسی عبادت ہے جو مسجد کے ساتھ خاص ہے ، لیکن عورت کے حق میں اعتکاف کے معاملہ میں مسجدِ بیت کا وہی حکم ہے ، جو (مرد کے حق میں عام وقف شدہ ) مسجد کا ہوتا ہے ، کیونکہ نماز کے معاملے میں عورت کے حق میں مسجدِ بیت کا ( عام وقف شدہ ) مسجد والا ہی حکم ہے ، تو جب نماز کے معاملے میں عام مسجد والا حکم ہے ، تو اعتکاف کے معاملے میں بھی اسی طرح ہی ہوگا ، کیونکہ مسجد کے ساتھ خاص ہونے کے معاملے میں یہ دونوں برابر ہیں اور عورت کے لیے اپنے گھر میں مسجدِ بیت کے علاوہ کسی اور جگہ اعتکاف نہیں ہے ۔( بدائع الصنائع ، کتاب الاعتکاف ، ج 2 ، ص 280 تا 282 ، مطبوعہ کوئٹہ )
فتاویٰ عالمگیری میں ہے :
” مساجد البيوت فإنه لا يجوز الاعتكاف فيها إلا للنساء كذا في القنية “
ترجمہ : مسجدِ بیت میں عورتوں کے علاوہ کسی کا اعتکاف جائز نہیں ہے جیسا کہ قنیہ میں ہے ۔( الفتاویٰ الھندیہ ، کتاب الکراھیۃ ، الباب الخامس ، جلد 5 ، صفحہ 321 ، مطبوعہ بیروت )
بہارِ شریعت میں ہے:
” عورت کومسجد میں اعتکاف مکروہ ہے، بلکہ وہ گھر میں ہی اعتکاف کرے مگر اس جگہ کرے جو اُس نے نماز پڑھنے کے لیے مقرر کر رکھی ہے ، جسے مسجدِ بیت کہتے ہیں اور عورت کے لیے یہ مستحب بھی ہے کہ گھر میں نماز پڑھنے کے لیے کوئی جگہ مقرر کر لے اور چاہیے کہ اس جگہ کو پاک صاف رکھے اور بہتر یہ کہ اس جگہ کو چبوترہ وغیرہ کی طرح بلند کرلے۔“ ( بہارِ شریعت ، حصہ 5 ، جلد 1 ، صفحہ 1021 ، مکتبۃ المدینہ ، کراچی )
واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم
کتبـــــــــــــــــــــــــــہ
ممبر فقہ کورس
19رمضان المبارک1445ھ29مارچ 2024ء
نظر ثانی :
مفتی محمد انس رضا قادری