فلموں ڈراموں میں ہونے والے نکاح کی شرعی حیثیت
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس بارے میں کہ فلموں، ڈراموں میں ہونے والے نکاح کی حیثیت کیا ہے؟ کیا یہ منعقد ہو جاتا ہے؟ دیوبندیوں کے بنوری افتاء کی ویب سائٹ پر ایک فتوی ہے جس میں لکھا ہے کہ یہ نکاح نہیں ہوگا ؛کیونکہ یہ بطور حکایت ہوتا ہے اور اس پر فتاوی تاتارخانیہ کا یہ جزئیہ دلیل کے طو رپر دیا ہے :
“وفي الذخيرة : قال واحد من أهل المجلس للمطربة: اين بيت بگو كه من بتودادم كه تو جان منی، فقالت المطربة : ذلك، فقال الرجل :”من پزيرفتم”، إذا قالت على وجه الحكاية فقيل: لاينعقد النكاح، لأنها إذا قالت على وجه الحكاية لاتكون قاصدةً للإيجاب”ترجمہ : اور ذخیرہ میں ہے کہ اگر ایک موسیقی کی محفل میں ایک گلوکارہ نے کہا:” اين بيت بگو كه من بتودادم كه تو جان منی” اور اس کے جواب میں مرد نے کہا:” من پزيرفتم “یعنی میں نے قبول کیا پس جب اس نے حکایت کے طور پر یہ بات کہی تو نکاح منعقد نہیں ہوگا کیونکہ اس جملے سے اس کا مقصد حکایت کے طور پر نقل کرنا ہے اس سے ایجاب کا قصد نہیں کیا گیا تھا۔
(فتاویٰ تاتار خانیہ ،جلد 4، صفحہ 7 ،مطبوعہ کوئٹہ)
بسم الله الرحمن الرحيم
الجواب بعون الملك الوهاب اللهم هداية الحق والصواب
ہم جس دور سے گزر رہے ہیں یہ فتنوں کا دور ہے جس میں لوگ حلال و حرام کے فیصلے شرعی اصولوں کےساتھ نہیں بلکہ اپنی ناقص عقل سے کرتے ہیں اور جو بات ان کی خواہش کے مطابق ہواسے قبول کرلیا جاتا ہے اور جو مخالف ہو اس کا نہ صرف انکار کیا جاتا ہے بلکہ دین دار طبقے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔مذکورہ شرعی مسئلہ میں بھی کئی لوگوں نے اپنی ناقص عقل کے ساتھ اعتراضات کیے ہیں۔
فلموں ،ڈراموں میں ہونے والے نکاح کی شرعی طور پر درج ذیل صورتیں اور احکام ہیں:
(1)… اگر ایک عورت پہلے ہی کسی کے نکاح میں ہے تو فلموں ڈراموں میں وہ نکاح کرے گی تو یہ نکاح ” باطل” ہوگا کہ عورت نکاح پر نکاح نہیں کرسکتی۔
(2)… اگر عورت ڈرامے وغیرہ میں غیر کفو میں ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرے گی تو یہ بھی “باطل “ہوگا۔
“غیر ِکفو “ہونے سے مراد ہے کہ وہ مرد اس کے نسب،پیشہ اور صالِحِیَّت کے اعتبار سےعورت کے ہم پلہ نہ ہو۔
(3)… اگر ایجاب وقبول کے الفاظ ہی صحیح طرح ادا نہ ہوں تو” نکاح نہیں ہوگا”مثلاًایسے الفاظ کہنا جس میں انشا ء نہ ہو، نیز ایجاب و قبول کی مجلس بھی ایک نہ ہو۔
(4)… اگر فلموں اور ڈراموں میں لڑکا دو گواہوں کی موجودگی میں غیر شادی شدہ عورت سے کہے کہ میں نے تم سے نکاح کیا اور عورت کہے: میں نے قبول کیا / مجھے قبول ہے، تو نکاح ہوجائے گا؛کیونکہ شریعت نے نکاح،طلاق اور رجوع میں مذاق کا حکم سنجیدگی والا رکھا ہے۔
(5)… فلموں ڈراموں میں اگر نکاح خواں نے لڑکی یا لڑکے کا وکیل بنتے ہوئے صحیح الفاظ کے ساتھ ایجاب وقبول کروایا تو نکاح ہوجائے گا اگرچہ اس میں لڑکا اور لڑکی کا وہ نام ذکر نہ کیا جو اس کا حقیقی ہے؛ کیونکہ جب فرضی نام ہونا گواہوں کا معلوم ہے تو یہ لڑکا لڑکی معین ہوگئے اور نکاح ہو گیا کیونکہ معین ہوجانے کی صورتوں میں نام غلط بھی بول دیئے جائیں تو نکاح ہوجاتا ہے اور فلموں ڈراموں میں اگرچہ غیر ارادی طور پر یہ نکاح ہورہا ہےا ور نام فرضی ہیں لیکن جب شرعی گواہوں کو معلوم ہو کہ کِن کا بطور ایکٹنگ نکاح ہورہا ہے تو حدیث کے فرمان کے مطابق نکاح ہوجائے گا۔
بیان کردہ صورتوں پر بالترتیب دلائل پیش خدمت ہیں:
اپنی عقل سے حلال و حرام کے فیصلے کرنا سب سے بڑا فتنہ :
حضرت عوف بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: “أعظمها فتنة علی أمتی قوم یقیسون الامور برأيهم، فیحلون الحرام ویحرمون الحلال ” ترجمہ:میری امت میں سب سے بڑا فتنہ وہ قوم ہوگی جو معاملات میں اپنے رائے سے قیاس کرے گی اور حرام کو حلال اورحلال کوحرام ٹھہرا لے گی۔(الفقيه والمتفقه،جلد1،صفحة450،دار ابن الجوزی،سعودية)
عورت کا نکاح میں ہوتے ہوئے دوسرا نکاح کرنا حرام ہے :
قرآن ِپاک میں اللہ تعالی ارشادفرماتاہے :﴿حُرِّمَتْ عَلَیْکُمْ أُمَّہَاتُکُمْ …… وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَاء إِلاَّ مَا مَلَکَتْ أَیْمَانُکُمْ کِتَابَ اللّہِ عَلَیْکُمْ﴾ترجمہ کنزالایمان:حرام ہوئیں تم پر تمہاری مائیں ……اور حرام ہیں شوہر دار عورتیں مگر کافروں کی عورتیں جو تمہاری ملک میں آجائیں یہ اللہ کا نوشتہ ہے تم پر۔
(پارہ: 4-5،سورۃ النساء ، آیت: 23-24)
فتاوی ہندیہ میں ہے :”لا يجوز للرجل أن يتزوج زوجة غيره وكذلك المعتدة، كذا في السراج الوهاج. سواء كانت العدة عن طلاق أو وفاة أو دخول في نكاح فاسد أو شبهة نكاح، كذا في البدائع”ترجمہ:مرد کے لیے غیر کی زوجہ سے نکاح جائز نہیں ہے اگرچہ وہ دوسرے کی عدت میں ہو جیسا کہ السراج الوھاج میں مذکور ہے اور برابر ہے کہ عدت چاہے طلاق کی ہو یا وفات کی یا شبہ نکاح یا نکاح فاسد میں دخول کے سبب سے ہو جیسا کہ البدائع میں مذکور ہے۔
(الفتاوي الهندية، کتاب النکاح، باب بیان المحرمات، القسم السادس، جلد1، صفحة 280، دارالفکر، بیروت)
ولی کی اجازت کے بغیر ،غیر کفو میں نکاح کرنا :
نہرالفائق میں ہے:”نفذ نکاح حرة بکرًا کانت أوثیبًا….مکلفة أی:بالغة عاقلة … بلارضی ولی …. وروی الحسن عن الإمام أنّه إن کان کفؤًا نفذ وإلا لا”ترجمہ:آزادعاقلہ بالغہ عورت خواہ باکرہ ہویاثیبہ، اس کا نکاح ولی کی رضاکے بغیرنافذہوجائے گا۔امام حسن نے امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے روایت کی ہے کہ عورت نے جس شخص سے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا ہے ،وہ اس عورت کا کفو ہے تو نکاح نافذہوگیا،ورنہ نہیں۔
(النهرالفائق ،جلد2،صفحة202،مطبوعة کوئتة)
مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ بہار شریعت میں فرماتےہیں:” کفاء ت میں چھ چیزوں کا اعتبار ہے: (1)نسب،(2) اسلام،(3) حِرْفَہ[پیشہ]، (4)حریت[آزاد ہونا]،(5) دیانت، (6) مال۔ قریش میں جتنے خاندان ہیں وہ سب باہم کفو ہیں، یہاں تک کہ قرشی غیر ہاشمی ہاشمی کا کفو ہے۔
(بہارشریعت،جلد02،صفحہ53،مطبوعہ مکتبۃالمدینہ کراچی)
سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے فتاو ی رضویہ میں سیدہ کے نکاح کےمتعلق حکم بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:”سیدہ عاقلہ بالغہ اگر ولی رکھتی ہے تو جس کفو سے نکاح کرے گی ہوجائے گا اگرچہ سید نہ ہو مثلا شیخ صدیقی یا فاروقی یا عثمانی یا علوی یا عباسی ، اور اگر غیر کفو سے بے اجازت صریحہ ولی نکاح کرے گی تو نہ ہوگا جیسے کسی شیخ انصاری یامغل، پٹھان سے مگر جبکہ وہ معزز عالم دین ہو۔”
فتاویٰ رضویہ ہی میں ایک اور مقام پر ہے :”سیدانی کانکاح قریش کے ہر قبیلہ سے ہوسکتا ہے خواہ علوی ہو یا عباسی یا جعفری یا صدیقی یا فاروقی یا عثمانی یا اموی۔”
(فتاوی رضویہ،جلد11،صفحہ716،730،مطبوعہ رضافاونڈیشن،لاہور)
ایجاب وقبول کے الفاظ درست نہ ہونے کی صورت میں نکاح کا حکم :
الدرالمختار میں ہے :”(وينعقد) متلبسا (بإيجاب) من أحدهما (وقبول) من الآخر (وضعا للمضي) لأن الماضي أدل على التحقيق (كزوجت) نفسي أو بنتي أو موكلتي منك(و) يقول الآخر (تزوجت، و) ينعقد أيضا (بما) أي بلفظين (وضع أحدهما له) للمضي (والآخر للاستقبال) أو للحال”ترجمہ:اور عقد نکاح ایک فریق کے ایجاب اور دوسرے کے قبول سے منعقد ہو جاتا ہے جو دونوں فعل ماضی کے صیغے ہوں کیونکہ فعل ماضی کا صیغہ امر کے تحقق پر زیادہ دلالت کرتا ہے جیسے یوں کہنا:میں نے اپنی یا اپنی بیٹی یا اپنے مئوکلہ کی شادی تجھ سے کردی اور دوسرا کہے میں نے شادی کرلی یعنی قبول کر لیا اور عقد نکاح ایسے دو لفظوں کے ساتھ منعقد ہوجاتا ہے جن میں سے ایک فعل ماضی کے لیے وضع کیا گیا ہو اور دوسرا استقبال یا حال کے لیے ۔
(الدر المختار ،جلد 3 ،صفحة 9، دار الفکر بیروت)
بہار شریعت میں ہے :”ایجاب و قبول یعنی مثلاً ایک کہے میں نے اپنے کو تیری زوجیت میں دیا۔ دوسرا کہے میں نے قبول کیا۔ یہ نکاح کے رکن ہیں ۔ پہلے جو کہے وہ ایجاب ہے اور اُس کے جواب میں دوسرے کے الفاظ کو قبول کہتے ہیں ۔ یہ کچھ ضرور نہیں کہ عورت کی طرف سے ایجاب ہو اور مرد کی طرف سے قبول بلکہ اِس کا اُلٹا بھی ہوسکتا ہے………ایجاب و قبول میں ماضی کا لفظ ہونا ضروری ہے، مثلاً یوں کہے کہ میں نے اپنا یا اپنی لڑکی یا اپنی موکلہ کا تجھ سے نکاح کیا یا اِن کو تیرے نکاح میں دیا، وہ کہے میں نے اپنے لیے یا اپنے بیٹے یا مؤکل کے لیے قبول کیا یا ایک طرف سے امر کا صیغہ ہو دوسری طرف سے ماضی کا، مثلاً یوں کہ تو مجھ سے اپنا نکاح کر دے یا تو میری عورت ہو جا، اُس نے کہا میں نے قبول کیا یا زوجیت میں دیا ہو جائے گا یا ایک طرف سے حال کا صیغہ ہو دوسری طرف سے ماضی کا، مثلاً کہے تُو مجھ سے اپنا نکاح کرتی ہے اُس نے کہا کیا تو ہوگیا یا یوں کہ میں تجھ سے نکاح کرتا ہوں اُس نے کہا میں نے قبول کیا تو ہو جائے گا۔”(بہار شریعت جلد 1 ، حصہ 7 ، صفحہ 8 7، مکتبہ المدینہ کراچی)
فتاوٰی ظہیریہ وخزانۃ المفتین میں ہے:” لو قال بالفارسية: دختر خویش مرادادی فقال: دادم لاینعقد النکاح لان هذا استخبار واستیعاد فلایصیر وکیلا الا اذا اراد به التحقیق دون الاستیلام “ترجمہ:اگر ایک نے دوسرے سے فارسی میں کہا کہ تونے اپنی لڑکی مجھے دی، تودوسرے نے کہا ”دی” تو نکاح منعقد نہ ہوگا کیونکہ یہ پہلے کا کلام، طلب خبر ہے اور طلب وعدہ ہے لہذا ا س کلام سے دوسرا پہلے وکیل نہ ہو سکے گا مگر یہ کہ پہلے نے اپنی کلام سے تحقیق عقد (مجازی معنٰی) مراد لیا ہو تو نکاح ہوجائے گا اور استفہام کا حقیقی معنی استفسار اور منگنی واستخبار ہو تو نکاح نہ ہوگا۔
(خزانة المفتین، کتاب النکاح،جلد1،صفحة 76، نسخة قلمية)
محیط وہندیہ میں ہے:”سئل نجم الدین عمن قال لامرأة: خویشتن را به زاردرم بمن بزنی دادی فقالت بالسمع والطاعة قال ینعقد النکاح ولو قالت سپاس دارم لاینعقد لان الاول اجابة والثانی وعد”ترجمہ:نجم الدین سے سوال کیا گیا کہ جس نے کسی عورت کو کہا کہ تونے اپنے کو ہزار مہرکے بدلے میری بیوی کردیا تو عورت نے جواب میں کہا ”سناا ور اطاعت کی” تو انھوں نے فرمایا: نکاح منعقد ہوگیا، اور اگر عورت نے جواب میں یوں کہا ”پسند کرتی ہوں” تو نکاح نہ ہوگا کیونکہ پہلا جواب قبولیت ہے اور دوسرا صرف وعدہ ہے۔
(الفتاوي الهندية ، کتاب النکاح، الباب الثانی،جلد1،صفحة271،دارالفکر،بیروت)
مذاق میں نکاح کرنے کا حکم:
مشکوۃ میں ہے :”عن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ” ثلاث جدهن جد وهزلهن جد: النكاح، والطلاق، والرجعة رواه الترمذي وأبو داود وقال الترمذي : هذا حديث حسن غريب “ترجمہ:روایت ہے حضرت ابوہریرہ سے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تین چیزیں وہ ہیں جن کا ارادہ بھی ارادہ ہے اور مذاق بھی ارادہ :نکاح اور طلاق،اور رجوع۔اس حدیث کو امام ترمذی وابوداود نے روایت کیا اور امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن غریب ہے۔(مشكاة المصابيح،کتاب النکاح، باب الخلع والطلاق الفصل الأول،جلد2،صفحہ245،المكتب الإسلامي)
مراة المناجیح میں اس حدیث کی شرح میں ہے :”یعنی ارادۃً بولے تو بھی واقع ہوجائیں گی اور مذاق دل لگی سے کہے یا ویسے ہی اس کے منہ سے نکل جائے یا کسی اور زبان میں بولے جس سے وہ واقف نہ ہو،بہرحال یہ کلمات اس کے منہ سے نکل جائیں یہ چیزیں واقع ہوجائیں گی بشرطیکہ دیوانگی یا نیند میں نہ کہے بیداری و ہوش میں کہے۔ ان تین چیزوں کا ذکر صرف اہتمام کے لیے ہے ورنہ تمام تصرفات شرعیہ جن میں دوسرے کا حق ہوجاتا ہو سب کا یہ ہی حکم ہے ……مذاق میں مرد نے عورت سے کہا کہ میں نے تجھے طلاق دے دی ، یا تجھ سے نکاح کیا اور عورت نے بھی مذاق دل لگی میں قبول کےالفاظ کہہ دیئے یا طلاق والی عورت سے دل لگی میں کہا کہ میں نے رجوع کرلیا یا ہنسی مذاق میں کہا میں نے یہ گھر تیرے ہاتھ فروخت یا ہبہ کردیا پس درست ہوگیا اگر یہ حکم نہ ہو تو شریعت کے احکام بے کار ہو کر رہ جائیں ہر شخص بیع یا ہبہ یا طلاق یا نکاح کرکے کہہ دیا کرے کہ میں تو دل لگی میں کہہ رہا تھا۔یہ حدیث معاملات کی اصل اصول ہے جس پر صدہا احکام مرتب ہیں۔(لمعات و مرقات)
یعنی یہ حدیث بہت سی اسنادوں سے مروی ہے بعض اسنادوں سے حسن ہے بعض سے غریب لہذا جن لوگوں نے اس حدیث کو ضعیف کہا غلط کہا چند اسنادوں سے تو ضعیف بھی قوی ہوجاتی ہے اس کی کتاب اﷲ سے بھی تائید ہوتی ہے رب تعالٰی فرماتا ہے:”لَاتَعْتَذِرُوا قَدْکَفَرْتُم بَعْدَ اِیمٰنِکُمْ”منافقین نے حضور کی شان میں بکواس بکی تھی،پوچھ گچھ پر بولے کہ ہم تو مذاق کرتے تھے ، فرمایا :بہانہ نہ بناؤ ،تم کافر ہوچکے۔معلوم ہوا کہ کفر و اسلام عمدًا ومذاقًا ہر طرح ثابت ہوجاتا ہے اور اس پر احکام شرعیہ مرتب ہوجاتے ہیں۔”
(مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح باب خلع اور طلاق کا بیان جلد 5 ، حدیث نمبر:3284، ضیاء القرآن پبلی کیشنز)
فتح القدیر میں ہے :”ينعقد النكاح من الهازل وتلزم مواجبه لقوله صلى الله عليه وسلم: «ثلاث جدهن جد وهزلهن جد: النكاح والطلاق، والرجعة» رواه الترمذي من حديث أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم”ترجمہ: مذاق میں بھی نکاح منعقد ہوجاتا ہے ، اس کے لازم ہونے پر دلیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مبارک: ’’تین کام خواہ سنجیدگی سے کیے جائیں یا مذاق میں ،منعقد ہوجاتے ہیں: نکاح ، طلاق اور رجعت ‘‘،امام ترمذی نے اس حدیث کو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا۔
(فتح القدیر ، کتاب النکاح ،جلد 3،صفحة 199، دار الفکر بیروت)
بدائع الصنائع میں ہے :”الجد ليس من شرائط جواز النكاح حتى يجوز نكاح الهازل؛ لأن الشرع جعل الجد، والهزل في باب النكاح سواء. قال النبي صلى الله عليه وسلم :ثلاث جدهن جد، وهزلهن جد الطلاق والعتاق والنكاح”ترجمہ:نکاح کے جائز ہونے کے لیے سنجیدگی شرط نہیں نکاح مذاق میں بھی درست ہو جاتا ہے کیونکہ شرع میں سنجیدگی ہے اور مذاق نکاح کے باب میں معتبر ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مبارک تین کام خواہ سنجیدگی سے کیے جائیں یا مذاق میں ،منعقد ہوجاتے ہیں: طلاق ، ازادی اور نکاح ۔
(بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع، جلد 2، صفحہ 310، مطبوعة دار الفکر بیروت)
درمختار میں فرمایا:” تلفظ به (ای بالطلاق) غیرعالم بمعناه اوغافلا اوساهيا اوبالفاظ مصحفة یقع قضاء فقط بخلاف الهازل واللاعب فانه یقع قضاء ودیانة لان الشارع جعل هزله به جدا”ترجمہ:معنٰی معلوم نہ ہونے یاغفلت یا بھول کر،یا غلط تلفظ کی صورت میں طلاق کا لفظ بولا توصرف قضاء طلاق ہوگی، اس کے برخلاف جبکہ مذاق اورکھیل کے طورپر لفظ طلاق بولے تو قضاءً ودیانۃً دونوں طرح طلاق ہوجائی گی کیونکہ شارع علیہ الصلوٰۃ والسلام نے طلاق میں مذاق کو قصداً طلاق کا حکم دیا ہے۔
( درمختار،کتاب الطلاق، صفحة206،دارالکتب العلمية،بیروت)
فتاوی رضویہ میں ہے:” اقول وبتقریری هذا اندفع ماعسٰی ان یتوهم من ان النکاح مما یستوی فيه الهزل والجد فلایحتاج الی نية وقصد حتی لو تکلما بالایجاب والقبول هازلين اومکرهين ینعقد فکان المناط مجرد التلفظ وان عدم القصد وذلک”ترجمہ:اقول (میں کہتا ہوں) میری اس تقریر سے اس شبہ کا ازالہ ہوگیا جس میں کہا گیا کہ نکاح تو ان امور میں سے ہے جن میں مذاق اور قصد برابر ہیں لہذا اس میں قصد اور ارادہ کی ضرورت نہیں حتی کہ جب مرد و عورت نے ایجاب قبول کے کلمات بول دئیے اگرچہ مذاق یا جبر سے کہے ہوں تونکاح ہوجا ئے گا اس کی صحت کے لیے صرف الفاظ کی ادائیگی کافی ہے اگرچہ قصد نہ بھی ہو ۔
(فتاوی رضویہ،جلد11،صفحہ128،رضافاؤنڈیشن،لاہور)
وقار الفتاوی میں سوال ہوا :” فلم یا ڈرامے میں کسی غیر منکوحہ لڑکی کا نکاح کسی مرد کے ساتھ پڑھایا جاتا ہے تو وہ نکاح منعقد ہو جائے گا یا نہیں ؟ ظاہر ہے کہ بوقت نکاح گواہوں کی کافی تعداد موجود ہوتی ہے آجکل اکثر اس قسم کے نکاح ڈراموں یا فلموں میں ہوتے ہیں اور محض تفریحا ہوتے ہیں حقیقتاً کسی کی نکاح کرنے کی نیت نہیں ہوتی ؟”
جوابا مفتی وقارالدین قادری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:” حدیث میں ایک قاعدہ بیان کیا گیا ہے جس میں یہ فرمایا گیا ہے کہ تین چیزیں ایسی ہیں کہ وہ مذاق میں بھی ہوجاتی ہیں جن میں سے ایک نکاح بھی ہے لہذا صورت مسئولہ میں اس طرح سے بھی نکاح منعقد ہو جائے گا۔”
(وقار الفتاوی ، جلد 3 صفحہ 48 ، بزم وقار الدین)
استاد محترم مفتی قاسم قادری صاحب لکھتے ہیں:” طلاق کا مُعاملہ ایسا ہے کہ مذاق میں دینے سے بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے ۔ حدیث مبارک ہے :” تین چیزیں ایسی ہیں کہ ان میں سنجیدگی بھی سنجیدگی ہے اور مذاق بھی سنجیدگی ہے (یعنی مذاق میں بھی وہی حکم ہے جو سنجیدگی میں ہے ) نکاح ، طلاق اور (طلاق کے بعد ) رجوع کرنا ۔”لہذا گر کسی نے اپنی حقیقی بیوی کو مذاق یا فلم یا ڈرامے میں طلاق دی تو بھی طلاق ہوجائے گی ۔
(طلاق کے آسان مسائل،صفحہ13،مکتبۃ المدینہ ،کراچی)
فلموں ڈرامے میں دوران نکاح فرضی ناموں کی حیثیت
رد المحتار میں ہے :”(غلط وكيلها بالنكاح في اسم أبيها بغير حضورها لم يصح) للجهالة وكذا لو غلط في اسم بنته إلا إذا كانت حاضرة وأشار إليها فيصح”ترجمہ:جس کو عورت کے نکاح کا وکیل بنایا گیا ہے اس نے اگر عورت کے باپ کا نام لینے میں غلطی کی جبکہ عورت حاضر نہ تھی تو عقد نکاح صحیح نہیں ہوگا کیونکہ جہالت ہے اس طرح اگر اس نے بیٹی کا نام لینے میں غلطی کی جبکہ وہ عورت حاضر ہو اور وکیل نے اس کی طرف اشارہ کیا تو نکاح صحیح ہوگا۔
(الدر المختار ،جلد 3 ،صفحة 26، دار الفکر بیروت)
بہار شریعت میں ہے :
”یہ امر بھی ضروری ہے کہ منکوحہ گواہوں کو معلوم ہو جائے یعنی یہ کہ فلاں عورت سے نکاح ہوتا ہے، اس کے دو۲ طریقے ہیں ۔ ایک یہ کہ اگر وہ مجلسِ عقد میں موجود ہے توا س کی طرف نکاح پڑھانے والا اشارہ کر کے کہے کہ میں نے اِس کو تیرے نکاح میں دیا اگرچہ عورت کے مونھ پر نقاب پڑا ہو، بس اشارہ کافی ہے اور اس صورت میں اگر اُس کے یا اُس کے باپ دادا کے نام میں غلطی بھی ہو جائے تو کچھ حرج نہیں ، کہ اشارہ کے بعد اب کسی نام وغیرہ کی ضرورت نہیں اور اشارے کی تعیین کے مقابل کوئی تعیین نہیں ۔ دوسری صورت معلوم کرنے کی یہ ہے کہ عورت اور اُس کے باپ اور دادا کے نام لیے جائیں کہ فلانہ بنت فلاں بن فلاں اور اگر صرف اُسی کے نام لینے سے گواہوں کو معلوم ہو جائے کہ فلانی عورت سے نکاح ہوا تو باپ دادا کے نام لینے کی ضرورت نہیں پھر بھی احتیاط اِس میں ہے کہ اُن کے نام بھی لیے جائیں اور اس کی اصلاً ضرورت نہیں کہ اُسے پہچانتے ہوں بلکہ یہ جاننا کافی ہے کہ فلانی اور فلاں کی بیٹی فلاں کی پوتی ہے اور اِس صورت میں اگر اُس کے یا اُس کے باپ دادا کے نام میں غلطی ہوئی تو نکاح نہ ہوا اور ہماری غرض نام لینے سے یہ نہیں کہ ضرور اُس کا نام ہی لیا جائے، بلکہ مقصود یہ ہے کہ تعیین ہو جائے، خواہ نام کے ذریعہ سے یا یوں کہ فلاں بن فلاں بن فلاں کی لڑکی اور اگر اُس کی چند لڑکیاں ہوں تو بڑی یا منجھلی یا سنجھلی یا چھوٹی غرض معین ہو جانا ضرور ہے اور چونکہ ہندوستان میں عورتوں کا نام مجمع میں ذکر کرنا معیوب ہے لہٰذا یہی پچھلا طریقہ یہاں کے حال کے مناسب ہے۔وکیل نے موکلہ کے باپ کے نام میں غلطی کی اور موکلہ کی طرف اشارہ بھی نہ ہو تو نکاح نہیں ہوا۔ یوہیں اگر لڑکی کے نام میں غلطی کرے جب بھی نہ ہوا۔”
(بہار شریعت ،جلد 1 ،حصہ 7، صفحہ 17 16 ،مکتبہ المدینہ کراچی)
فتاوی رضویہ میں سوال ہوا کہ ہندہ بنت زید کے نکاح میں ہندہ بنت بکرکہا گیا یعنی والد کا نام غلط لیا گیاتو یہ نکاح ہوا یا نہیں(ملخصا)
تواعلی حضرت رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے جوابا ارشاد فرمایا :” اگر ہندہ اس جلسہ نکاح میں حاضر نہ تھی اورا س کی طرف اشارہ کرکے نہ کہا گیا کہ اس ہندہ بنت بکر کا نکاح تیرے ساتھ کیا بلکہ ہندہ کی غیبت میں یہ الفاظ کہے گئے توہندہ کانکاح نہ ہوا۔ نہ اسے طلاق کی حاجت نہ عد ت کی ضرورت جس سے چاہے اپنا نکاح کرسکتی ہے کہ نکاح تو ہندہ بنت بکر کا ہوا اور یہ ہندہ بنت بکر نہیں،ہاں اگربکرنے اسے پرورش یا متبنی کیا تھا اور وہ عرف میں ہندہ بنت بکر کہی جاتی ہے اور اس کے کہنے سے اس کی طرف ذہن جاتا ہے تونکاح ہوگیا۔”
(فتاوی رضویہ، جلد11،صفحہ250،رضا فاؤندیشن لاہور)
دیوبندیوں کی دلیل کا جواب
سوال میں جو دیوبندی کے فتوے میں موجود دلیل کا ذکر کیا ہے اور دیوبندیوں نے اس عبارت کا کبھی ترجمہ نہیں کیا ہے، پہلے اس میں موجودفارسی عبارت کا ترجمہ سمجھ لیں :
“اگرکسی شخص نےمجلس میں مغنیہ(گانے والی) عورت کوکہاکہ تویہ شعرپڑھ کہ میں نےاپناآپ تجھےسپردکیاکیونکہ تومیری جان ہے۔مغنیہ نےوہ شعرپڑھااورمردنےکہا:میں نےقبول کیا۔توکہاگیاہےنکاح واقع نہیں ہوگا۔”
اس تحریر میں واضح ہے کہ یہاں ایک تو نکاح کے الفاظ صریح نہیں، کنایہ ہیں اور ایجاب کا قصد نہیں بلکہ کہنے والے کی فرمائش پر شعر سنایا گیا ہے۔ لہذا اس جزئیہ پر فلموں ،ڈراموں میں ہونے والے نکاح کے کالعدم ہونے کا اصول نہیں بنایا جاسکتا۔
اس بیان کردہ جزئیہ کے برخلاف ایک واضح جزئیہ وجیز امام کردری میں ہے” لقنت المرأة بالعربیة : زوجت نفسی من فلان ولاتعرف ذٰلک وقال فلان قبلت والشهود یعلمون أو لایعلمون صح النکاح قال فی النصاب وعلیه الفتوی” ترجمہ:کسی عورت کو عربی میں کہلایا گیا(یعنی اسکرپٹ کی طرح اسے کہا کہ یوں بولو) “زوجت نفسی من فلان” (میں نے اپنے آپ کو فلاں شخص سے بیاہ دیا) جبکہ عورت کو اس عبارت کا معنٰی معلوم نہ تھا۔ اس کے بعداس فلاں شخص نے جوا ب میں “قبلت” (میں نے قبول کیا) کہا تو نکاح صحیح ہوگا خواہ گواہوں کو عبارت کا معنی معلوم ہو یا نہ ہو، نصاب میں فرمایا کہ اسی پر فتوٰی ہے ۔ (الفتاوي البزازية علی هامش الهندية،کتاب النکاح،جلد4،صفحة109،نورانی کتب خانه، پشاور )
اس جزئیہ کی مزید وضاحت فتاوی رضویہ سے یوں ہورہی ہے:
“اگر عورت نے “زوجت نفسی منک بالف” اور مرد نے “قبلت” کہا اور دونوں زبان عربی سے محض نا آشنا تھے مگر اتنا اجمالاً معلوم تھا کہ یہ الفاظ عقد نکاح کے لیے کہے جاتے ہیں باتفاق علماء نکاح ہوگیا۔خانیہ میں ہے:” رجل تزوج امرأة بلفظة العربیة اوبلفظ لایعرف معناه او زوجت المرأة نفسها بذلک ان علما ان هذا الفظ ینعقد به النکاح یکون النکاح عند الکل”اگر کسی مرد نے عربی زبان یاکسی بھی زبان کا ایسا لفظ استعمال کرکے نکاح کیا اوریوں ہی عورت نے ایسا لفظ استعمال کیا کہ جس کا معنٰی اسے معلوم نہ ہو اگر ان دونوں کو ان الفاظ سے نکاح کے انعقاد کا علم ہوگیاتو یہ نکاح سب کے ہاں درست ہے۔” (فتاوی رضویہ،جلد11،صفحہ227،رضافاؤنڈیشن،لاہور)
فلموں ،ڈراموں میں لڑکا لڑکی کو معلوم ہوتا ہے کہ یہ نکاح ہورہا ہے اورہم اپنی مرضی سے اس کے الفاظ ادا کرر ہے ہیں،اگرچہ ان مقصد، حقیقی طور پر نکاح کرنا نہیں ہوتا لیکن شریعت نے نکاح میں مذاق مسخری قبول نہیں کی ہے ورنہ تو ایک بندہ نکاح کے ایک عرصے بعد یہ کہہ سکتا تھا کہ میں نے تو مذاق میں نکاح کیا تھا،یونہی طلاق دے کربہانہ بناتا کہ میں نے مذاق میں دی تھی ،یوں ایک مقدس رشتہ مذاق بن کر رہ جانا تھا اس لیے شریعت نے اس فتنے کا دروازہ ہی بند کردیا۔
لہذا یہ کہنا کہ “فلموں ڈاموں میں جو نکاح ہوتا ہے یہ حکایت کے طور پر ہوتا ہے کہ پہلے سے سب اسکرپٹ لکھے ہوتے ہیں جن کو ایکٹرز ادا کرتے ہیں،ان کا قصد نکاح کرنا نہیں ہوتا” یہ دلیل درست نہیں ؛کیونکہ پہلے سے کچھ لکھا ہے اور اس کو یاد کرکے از خود پڑھنا حکایت نہیں ہوتا اس پر وجیز امام کردری کا جزئیہ پیش کردیا گیا ہے۔مزید اس کی مثال یوں سمجھ لیں کہ ایک لڑکے کو نکاح خواں نے پہلے سمجھایا کہ میں نے یوں ایجاب کروں گا اور آپ نے قبول کے یہ الفاظ کہنے ہیں۔عموما نکاح سے پہلے نکاح خواں یہ بات سمجھا بھی دیتے ہیں کہ یوں ایجا ب و قبول کرنا ہے تو کیا اس صورت میں نکاح نہیں ہوگا کہ دولہے نے نکاح خواں کے بتائے ہوئے الفاظ دہرائے ہیں؟!شرعا کسی کے لکھے یا کہے ہوئے الفاظ کو نکاح و طلاق میں دہرانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا نکاح و طلاق ہوجاتی ہے۔چنانچہ فتاوی رضویہ میں ہے:
“نابالغ لڑکے اور لڑ کی جن کاتلفظ کلام سمجھاجائے اور وہ الفاظ ومعنٰی کا قصد کرسکیں ان کا ایجاب و قبول خود ہو یا دوسرے کی تلقین سے صحیح ہے۔ (فتاوی رضویہ،جلد11،صفحہ256،رضافاؤنڈیشن،لاہور)
مذاق یا فلموں ،ڈراموں میں اگرچہ نکاح یا طلاق کا قصد نہ ہو لیکن شرعا وہ نافذ ہوجاتا ہےکہ شرع نے اس کا اعتبار نہیں کیا۔ مذاق کا مطلب ہی یہی ہے کہ جب کسی چیز کا قصد یا ارادہ نہ ہو۔چنانچہ امام اجل فخرالاسلام بزدوی قدس سرہ نے اصول میں فرمایا:”الهزل اللعب وهوان یراد بالشیئ مالم یوضع له وهو ضدالجد وهوان یراد بالشیئ ماوضع له”ترجمہ:ہزل (مذاق) ایسے کھیل کا نام ہے جس میں کسی چیز سے ایسی مراد لی جائے جس کے لیے وہ چیز وضع نہ کی گئی ہو، یہ جد (قصد) کی ضد ہے اور جد کسی چیز سے اس کا موضوع لہ مراد لینا ہے۔
(اصول البزدوی،فصل الهزل ،صفحة347، نور محمد کارخانه، تجارت کتب ،کراچی )
کشف الاسرار میں ہے:”ان الهزل ما لا یراد به معنی”ترجمہ:مذاق وہ ہے جس سے کوئی معنٰی مرادنہ لیا جائے۔
( کشف الاسرارعن اصول البزدوی ، فصل الهزل، جلد4،صفحة357،دارالکتاب العربی، بیروت )
والله اعلم عزّوجلّ ورسوله اعلم صلى الله عليه وآله وسلم
كـتـبــــــــــــــــــــــــــــــــــــه
ابو احمد مفتى محمد اَنَس رضا قادرى
23رمضان المبارک1445ھ/3اپریل 2024ء