عدتِ طلاق کی کم سے کم مدت

عدتِ طلاق کی کم سے کم مدت

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں کہ آجکل ایک سیاسی فرد کے نکاح کی بحث بہت عام ہے اور اس حوالے سے یہ مسئلہ بہت پوچھا جارہا ہے کہ طلاق کی عدت کم سے کم کتنی ہے۔کوئی کہتا ہے کہ کم سے کم عدت 60 دن ہے اور کوئی کہتا ہے کہ 39 دن ہے۔نیز کیا یوں اندازے سے کسی بھی فرد کے نکاح کے متعلق گفتگو کرنا مناسب ہے؟

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایہ الحق والصواب

قرآن کے مطابق اگر عورت حاملہ نہ ہو تو طلاق کی عدت تین حیض ہے۔ حیض کی کم از کم مدت تین دن اور زیادہ سے زیادہ مدت دس دن ہے،اس بارے میں کثیر روایات مروی ہیں ۔یونہی شرعی طور پر ایک حیض کے بعد دوسرا حیض اس کے متصل نہیں ہو سکتا ، بلکہ درمیان میں کچھ ایام کا فاصلہ ہوتا ہے جسے طُہر یا پاکی کا زمانہ کہا جاتا ہے ۔اس طُہر کی زیادہ سے زیادہ تو کوئی حد متعین نہیں ہے ، لیکن کم از کم حد شرعی طور پر 15 دن متعین ہے ۔

اب ایک طلاق یافتہ عورت کی تین ماہواریاں کم سے کم کتنے عرصے میں ہوسکتی ہیں اس بارے میں ائمہ کرام نے قرآن وحدیث کی روشنی میں ارشادات فرمائے ہیں۔ طلاق کی کم سے کم مدت 60 دن ہے اور یہی مختار قول ہے،اگرچہ امام یوسف اور امام محمد رحمہما اللہ کے نزدیک کم سے کم مدت 39دن میں ممکن ہے اگرچہ یہ بہت مشکل ہے۔

ساٹھ دن عدت کی ایک صورت یوں کہ عدت کی ابتدا طہر سے ہو تو پندرہ دن اس کے، پھر حیض کے پانچ دن شمار کئے جائیں گے، اس طرح تین طہر کے کل پینتالیس دن ہوئے اور پندرہ دن تین حیض کے، یہ کل ساٹھ دن ہوئے۔ دوسری ساٹھ دن کی صورت اس طرح کہ شوہر نے طہر کے آخر میں عورت کو طلاق دی تو تینوں حیض اکثر مدت دس دن کے اعتبار سے تیس دن کے، اسی طرح درمیان میں دو طہر پندرہ پندرہ دن کے، تو یہ کل ساٹھ دن ہوئے۔

اب انتالیس دن عدت کی یوں ہوگی کہ طلاق طہر کے آخر میں ہو اور ہر حیض کم سے کم مدت تین دن کا ہو تو تین حیض کی کم سے کم مدت نو دن، اور درمیان میں ہر طہر پندرہ دن کا ہو تو یوں کل انتالیس دن ہوئے۔ بہرحال جو بھی صورت ہو عورت کا قول قسم کے ساتھ معتبر ہو گا۔اس مسئلہ میں کسی اور کا اعتراض کرنا شرعادرست نہیں جبکہ عدت ان مذکورہ دنوں کے مطابق پوری بن رہی ہو۔

طلاق کی عدت کے متعلق قرآن پاک میں ہے

﴿وَ الْمُطَلَّقٰتُ یَتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِهِنَّ ثَلٰثَةَ قُرُوْٓءٍ﴾

ترجمہ کنزالایمان: اور طلاق والیاں اپنی جانوں کو روکے رہیں تین حیض تک۔ (سورۃ البقرہ،سورۃ2،صفحہ228)

حضرت ابو امامہ باہلی، حضرت واثلہ بن اسقع ، حضرت ابو سعید الخدری اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہم سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:

”أقل الحيض ثلاث، وأكثره عشر“

ترجمہ: کم از کم حیض تین( دن رات) اور زیادہ سے زیادہ دس (دن رات) ہوتا ہے ۔(المعجم الكبير، 8/ 129، مكتبة ابن تيمية، قاہرہ،التحقيق لابن جوزی، 1/ 261، دار الكتب العلمية، بيروت،سنن الدار قطني، 1/ 406، مؤسسۃ الرسالۃ ، بیروت،العلل المتناهيةلابن الجوزی ، 1/ 384، إدار ة العلوم الأثرية، فيصل آباد )

دار قطنی نے جو ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی اس کے الفاظ یہ ہیں :

” أقل ما يكون من الحيض للجارية البكر والثيب ثلاث , وأكثر ما يكون من المحيض عشرة أيام “

ترجمہ: باکرہ(کنواری) اور ثیبہ (شادی شدہ) لڑکی کا کم از کم حیض جو ہو سکتا ہے وہ تین دن ہے اور زیادہ سے زیادہ دس دن ۔(سنن الدار قطنی، 1/ 405، مؤسسۃ الرسالۃ ، بیروت)

حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ تعالی علیہ و سلم نے فرمایا:

”أقل الحيض ثلاث وأكثره عشر وأقل ما بين الحيضتين خمسة عشر يوما “

ترجمہ: کم از کم حیض تین( دن رات) اور زیادہ سے زیادہ دس (دن رات) ہوتا ہے ۔ اور دو حیضوں کے درمیان کم از کم مدت پندرہ دن ہے ۔ (التحقيق لابن جوزی، 1/ 262، دار الكتب العلمية، بيروت،العلل المتناهية ، 1/ 383، إدار ة العلوم الأثرية، فيصل آباد)

مجمع الانہر میں ہے

” (ومن قالت انقضت عدتي بالحيض) وكذبها الزوج في إخبارها بانقضاء العدة (فالقول لها مع اليمين) ؛ لأنها أمينة فيما تخبر ۔۔۔(إن مضى عليها ستون يوما) عند الإمام كل حيض عشرة وكل طهر خمسة عشر هو المختار كما في الخانية (وعندهما إن مضى تسعة وثلاثون يوما وثلاث ساعات) كل حيض ثلاثة، وكل طهر خمسة عشر“

ترجمہ:جو عورت کہے کہ میری عدت پوری ہوچکی ہے اور شوہر عدت پوری ہونے کی خبر کا انکار کرے تو عورت کا قول قسم کے ساتھ مانا جائے گا کیونکہ وہ اس مسئلہ میں امین ہے،اگر عدت کو ساٹھ دن گزرچکے ہوں۔یہ امام امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک ہے کہ ہر حیض دس دن کا اور ہر طہر پندرہ دن کا ہو اور یہی مختار ہے جیسا کہ خانیہ میں ہے اور امام محمد و امام یوسف رحمہما اللہ کے نزدیک اگر طلاق دی ہوئی کو انتالیس دن گزرچکے ہوں ہوں تو عورت کا قول معتبر ہوگا کہ ہر حیض تین دن کا اور ہر طہر پندرہ دن کا (ہونا ممکن ہے۔)

(مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر،کتاب الطلاق، باب العدۃ،جلد1،صفحہ469،دار إحياء التراث العربي)

البناية شرح الهداية میں ہے

”والمدة تصلح لثلاثة أقراء عند أبي حنيفة ستون يوما و عندهما تسعة وثلاثون يوما“

ترجمہ:اور تین حیض کی مدت امام ابوحنیفہ رحمہ اللّٰہ تعالیٰ کے نزدیک ساٹھ ایام اور صاحبین کے ہاں انتالیس دن کی صلاحیت رکھتی ہے۔(البناية شرح الهداية باب ثبوت النسب ج5 ص632 دار الكتب العلميه بيروت)

ردالمحتار میں ہے

”ولو بالحیض فاقلھا لحرہ ستون یوما ولامہ اربعون (قولہ ستون یوما) فیجعل کانہ طلقھا فی الطھر بعد الوطی ویوخذ لھا اقل الطھر خمسہ عشر لانہ لا غایہ اکثرہ واوسط حیض خمسہ لان اجتماع اقلھما نادر فثلاثہ اطھار بخمسہ واربعین وثلاث حیض بخمسہ عشر فصارت ستین وھذا علی تخریج محمد لقول الامام وعلی تخریج الحسن لہ یجعل کانہ طلقھا فی آخر الطھر احترازا عن تطویل العدہ علیھا ویوخذ لھا اقل الطھر واکثر الحیض لیتعدلا فطھران بثلاثین یوما وثلاث حیض بثلاثین ایضا وعندھما اقل مدہ فیھا الحرہ تسعہ وثلاثون یوما وثلاث حیض بتسعہ ایام وطھران بثلاثین“

ترجمہ:اگر حیض کے اعتبار سے ہو تو آزاد عورت کے لیے کم از کم ساٹھ دن اور لونڈی کے لیے چالیس دن عدت ہے۔امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا ساٹھ دن عدت کم سے کم بیان کرنے کو یوں بنایا جائے گا گویا مرد نے وطی کے بعد طہر میں عورت کو طلاق دے دی اس لیے کم از کم طہر جو پندرہ دن ہے لیا جائے گا کیونکہ طہر کی اکثر مدت کا کوئی اعتبار نہیں اور درمیانی حیض پانچ دن ہیں کیونکہ دونوں کے اقل(کم سے کم ) کا اجتماع نادر ہے پس تین طہر 45 دن کے اور تین حیض 15 دن کے پس اس طرح 60 دن ہونگے یہ تعبیر امام صاحب کے قول کی اس بناء پر ہے کہ اس کی تخریج امام محمد نے کی ہے اور امام صاحب کے قول کی تخریج جو امام حسن نے کی ہے وہ اس طور پر ہے کہ گویا شوہر نے طہر کے آخر میں عورت کو طلاق دی مقصد عورت کے عدت کو طوالت سے بچانا تھا پس ان کے لیے طہر کی کم از کم مدت تیس دن اور حیض بھی تیس دن کے ہونگے اور صاحبین کے نزدیک کم سے کم مدت جس میں آزاد عورت کی تصدیق کی جائے گی وہ 39 دن ہے تین حیض کے 9 دن اور دو طہر کے 30 دن ہونگے۔(ردالمحتار ، کتاب الطلاق ، باب العدہ، جلد 5 ، ص 210 ، دار المعرفۃ بیروت)

بدائع الصنائع میں ہے

”قال ابو حنیفہ رحمہ اللہ اقل ما تصدق فیہ الحرہ ستون یوما وقال ابو یوسف و محمد تسعہ وثلاثون یوما اختلفت الروایہ فی تخریج قول ابی حنیفہ فتخریجہ فی روایہ محمد انہ یبداء بالطھر خمسہ عشر یوما ثم الحیض خمسہ ثم ایام بالطھر خمسہ عشر ایام ثم بالحیض خمسہ ایام ثم بالطھر خمسہ عشر یوم ثم الحیض خمسہ ایام فتلک ستون یوما وتخریجہ علی روایہ الحسن انہ یبداء بالحیض عشرہ ایام ثم بالطھر خمسہ عشر یوما ثم بالحیض عشرہ ایام ثم بالطھر خمسہ عشر یوما ثم بالحیض عشرہ ایام ثم بالطھر خمسہ عشر یوما ثم بالحیض عشرہ ایام فتلک ستون یوما فاختلف التخریج مع اتفاق الحکم وتخریج قول ابی یوسف ومحمد انہ یبداء ثلاثہ ایام ثم بالطھر خمسہ عشر یوما ثم بالحیض ثلاثہ ایام ثم بالطھر خمسہ عشر یوما ثم بالحیض ثلاثہ ایام فذلک تسعہ وثلاثون یوما وجہ قولھما ان المراہ امینہ فی ھذا الباب والامین یصدق ماامکن وامکن تصدیقھا ۔۔۔۔ وجہ قول ابی حنیفہ علی تخریج محمد ان المراہ وان کانت امینہ فی الاقرار بالقضاء العدہ لکن الامین انما یصدق فیما لایخالفہ الظاھر ۔۔۔۔وکذا حیض ثلاثہ ایام نادر وحیض عشرہ ایام نادر فذلک یوخذ بالوسط وھو خمسہ۔“

ترجمہ:امام ابو حنیفہ کے نزدیک کم از کم مدت عدت جس میں آزاد عورت کی تصدیق کی جائے گی وہ ساٹھ دن ہے جبکہ امام ابو یوسف اور امام محمد کے نزدیک وہ 39 دن ہیں امام ابو حنیفہ کے قول میں روایات مختلف ہیں امام محمد کی روایت میں اس کی تخریج یہ ہے کہ ابتداء طہر سے ہوگی یعنی اس کے پندرہ دن پھر پانچ دن حیض پھر 15 دن طہر پھر 5 دن حیض پھر 15 دن طہر پھر 5 دن حیض اس طرح یہ ساٹھ دن ہوئے امام حسن رحمۃ اللہ علیہ کی روایت کے مطابق ابتداء حیض سے دس سے ہوگی پھر 15 دن طہر پھر 10 دن حیض پھر 15 دن طہر پھر 10 دن حیض اس طرح یہ ساٹھ دن ہوئےاور امام ابو یوسف اور امام محمد کے قول کی تخریج یہ ہے کہ ابتداء حیض سے ہوگی جو کہ تین دن ہے پھر طہر کے 15 دن پھر تین دن حیض پھر 15 دن طہر پھر تین دن حیض اس طرح یہ انتالیس 39 ہوئے ۔صاحبین کے قول کی وجہ یہ ہے کہ اس بات میں عورت امین ہے اور اس کی تصدیق کی جائے گی اور جہاں ممکن ہو امین کی تصدیق کی جائے گی اور چونکہ یہاں عورت کی تصدیق ممکن ہے ۔امام ابو حنیفہ کے قول کی تخریج یہ ہے کہ اگرچہ عورت اس بارے میں امین ہے مگر امین کی تصدیق اس صورت میں کی جائے گی جبکہ ظاہر اس کے خلاف نہ ہو اور حیض کا تین دن ہونا نادر ہے جبکہ دس دن ہونا بھی نادر ہے اس لیے درمیانی مدت جو کہ پانچ دن ہے اس کو مان لیا جائے گا۔(بدائع الصنائع ، کتاب الطلاق ، باب العدہ، جلد 5 ، صفحہ 435، دار الکتب العلمیہ بیروت)

بہار شریعت میں ہے :

عورت کہتی ہے کہ عدت پوری ہوچکی اگر اتنا زمانہ گزرا ہے کہ پوری ہو سکتی ہے تو قسم کے ساتھ اُس کا قول معتبر ہے اور اگر اتنا زمانہ نہیں گزرا تو نہیں ۔ مہینوں سے عدت ہو جب تو ظاہر ہے کہ اُتنے دن گزرنے پر عدت ہو چکی اور حیض سے ہو توآزاد عورت کے لیے کم از کم ساٹھ دن ہیں اور لونڈی کے لیے چالیس بلکہ ایک روایت میں حرہ کے لیے اُنتالیس دن کہ تین حیض کی اقل مدت نو دن ہے اور دو طہر کی تیس دن اور باندی کے لیے اکیس دن کہ دو حیض کے چھ دن اور ایک طہر درمیان کا پندرہ دن۔(بہار شریعت، جلد 2 ،حصہ 8، صفحہ 241، مکتبہ المدینہ کراچی)

واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم

کتبـــــــــــــــــــــــــــہ

بنت عثمان

29رجب المرجب 1445ھ10فروری 2024ء

نظرثانی و ترمیم:

مفتی محمد انس رضا قادری

اپنا تبصرہ بھیجیں