زکوۃ کے پیسوں سے کسی کا کرایہ یا اسپتال کا بل دینا
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس بارے میں کہ کیا زکوٰۃ کے پیسوں سے کسی کا کرایہ دینا یا اسپتال کا بل دینا یا دواؤں کا بل دینا یا گھر کی مرمت کروادینا یا گھر لے کر دینے یا طالب علم کو کتابیں لے کر دینا یا کسی کو عمرہ کروادینے یا کھانا کھلا دینے سے زکوٰۃ ادا ہو جائے گی ؟
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایہ الحق والصواب
صورت مسئولہ کے مطابق اصول یہ ہے کہ زکوٰۃ کی ادائیگی میں تملیک شرط ہےیعنی کہ شرعی فقیر کو زکوٰۃ کا مالک بنا دینا ہے،مستحق کو مالک بنائے بغیر یوں زکوۃ صرف کرنے سے زکوۃ ادا نہیں ہوگی۔ اس لیے ازخود کسی کا کرایہ ادا کرنے ،اسپتال کا بل دینے یا گھر کی مرمت کروادینے یا عمرہ پر بھیج دینے یا کھانا کھلانے سے زکوٰۃ ادا نہ ہوگی۔ہاں اگر مستحق کرایہ دار یا مریض نے اجازت دی کہ میری طرف سے آپ کرایہ یا بل ادا کردیں تو اب زکوۃ کی نیت سے ادائیگی کر سکتے ہیں۔ اگر دوائیں بطور زکوٰۃ دیں یا طالب علم کو کتابیں دیں تو یہ جتنی مالیت کی تھی اتنی زکوٰۃ ادا ہوگئی اور گھر خرید کر دینے میں اسے مالک بنادیا تب بھی زکوٰۃ ادا ہوگئی اور کھانا صرف مباح کرنے سے زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی البتہ اگر اسے اس کھانے کا مالک بنادیا تو جتنے کی مالیت کا مالک بنادیا اتنی زکوٰۃ ادا ہوگئی ۔
در مختار میں ہے
”لا یصرف الی بناء نحو مسجد ولا الی کفن میت وقضاء دینہ“
یعنی زکوۃ کو کسی عمارت کی تعمیر جیسے مسجد اور میت کے کفن اور قرض کی ادائیگی میں خرچ نہیں کیا جا سکتا۔(در مختار، ج3، ص341، بیروت)
درمختار میں ہے
”لو اطعم یتیما نا ویا الزکوٰۃ لا یجزیہ الا اذا دفع الیہ المطعوم کمالوکساہ“
ترجمہ:جب کسی نے یتیم کو نیتِ زکوٰۃ سے کھانا کھلایا زکوٰۃ ادا نہ ہوگی جب تک کھانا اس کے حوالے نہ کردے، ایسے ہی لباس کا معاملہ ہے ۔(در مختار، کتاب الزکوة،ج3، ص341، بیروت)
فتاوی عالمگیری میں ہے
”ولا يجوز أن يبني بالزكاة المسجد و كذا القناطر و السقايات و إصلاح الطرقات و كري الأنهار و الحج و الجهاد و كل ما لا تمليك فيه“
یعنی اور جائز نہیں ہے کہ زکوٰۃ (کے پیسے) سے مسجد، پُل، سقایہ، بنوانا، سڑکیں درست کروانا، نہریں کھدوانا، حج اور جہاد میں خرچ کرنا اور اس اس جگہ خرچ کرنا جہاں تملیک نہ پائی جاتی ہو۔(فتاوی عالمگیری، کتاب الزکاۃ، الباب السابع فی المصارف، جلد 1، صفحہ 188، مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)
مجمع الانھر میں ہے
”و لاتدفع الزکاۃ لبناء مسجد لان التملیک شرط فیھا و لم یوجد“
یعنی مسجد کی تعمیر کے لئے زکوٰۃ نہیں دی جاسکتی کیونکہ زکوٰۃ (کی ادائیگی) میں تملیک شرط ہے اور وہ (یہاں) نہیں پائی جارہی۔(مجمع الانھر فی شرح ملتقی الابحر، جلد 1، صفحہ 328، دارالکتب العلمیہ بیروت)
بدائع الصنائع میں ہے :
” و قد امر اللہ تعالی الملاک بایتاء الزکاۃ لقولہ عز وجل ﴿ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ ﴾و الایتاء ھو التملیک “
ترجمہ : اللہ عز وجل نے مال والوں کو زکوٰۃ دینے کا حکم دیا ہے ۔ چنانچہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے : ﴿ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ ﴾ ( یعنی زکوٰۃ دو ) اور ایتاء یعنی دینے کا مطلب ہی مالک کر دینا ہوتا ہے ۔( بدائع الصنائع ، کتاب الزکوٰۃ ، فصل رکن الزکوٰۃ ، ج 2 ، ص 142 ، مطبوعہ کوئٹہ )
فتاویٰ رضویہ میں سیدی اعلیٰ حضرت امام اہلسنت مولانا الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فرماتے ہیں:
” زکوٰۃ کا رکن تملیکِ فقیر ( یعنی فقیر کو مالک بنانا ) ہے ۔ جس کام میں فقیر کی تملیک نہ ہو ، کیسا ہی کارِ حَسن ہو جیسے تعمیرِ مسجد یا تکفینِ میت یا تنخواہِ مدرسانِ علمِ دین ، اس سے زکوٰۃ نہیں ادا ہوسکتی ۔ “ ( فتاویٰ رضویہ ، جلد 10 ، صفحہ 269 ، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور )
مزید فتویٰ رضویہ میں ہے :
”پھر دینے میں تملیک شرط ہے، جہاں یہ نہیں جیسے محتاجوں کو بطورِ اباحت اپنے دستر خوان پر بٹھا کر کھلا دینا یا میّت کے کفن دفن میں لگانا یا مسجد، کنواں، خانقاہ، مدرسہ، پُل، سرائے وغیرہ بنوانا ان سے زکوٰۃ ادا نہ ہوگی ۔“(فتاویٰ رضویہ، جلد 10، صفحہ 110، رضا فاؤنڈیشن لاہور)
بہار شریعت میں ہے :
”زکاۃ کا روپیہ مُردہ کی تجہیز و تکفین (کفن و دفن) یا مسجد کی تعمیر میں نہیں صرف کر سکتے کہ تملیک فقیر نہیں پائی گئی۔“(بہارشریعت، جلد 1، حصہ 5، صفحہ 890، مکتبۃ المدینہ کراچی)
فتاوی امجدیہ میں ہے:
” ہاں مدرسہ کے طلباء کو دے سکتے ہیں جب کہ بطور تملیک ہو نہ بطور اباحت۔ “(فتاوی امجدیہ،جلد 1 ،صفحہ 371، مکتبہ رضویہ ،کراچی)
واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم
کتبـــــــــــــــــــــــــــہ
ممبر فقہ کورس
14رمضان المبارک1445ھ24مارچ 2024ء
نظرثانی:
مفتی محمد انس رضا قادری