روزے کی حالت میں اُلٹی (Vomiting)آنا

روزے کی حالت میں اُلٹی (Vomiting)آنا

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ روزے کی حالت میں قے(اُلٹی)آنے سے روزہ ٹوٹ جائے گا یا نہیں؟

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

الجواب بعون الملک الوہاب الھم ھدایۃ الحق والصواب

صورت مسئولہ کا حکم یہ ہے کہ قے(اُلٹی vomiting) کے متعلق مندرجہ ذیل دو صورتیں ہیں جن میں روزہ ٹوٹ جائے گا۔ پہلی یہ کہ روزہ یاد ہے اور قصداً یعنی جان بوجھ کر قے کی اور وہ منہ بھر ہے۔ دوسری یہ کہ بلا اختیار خود بخود منہ بھر قے آئی اور اس میں سے چنے کے برابر یا اس سے زائد واپس لوٹا دی تو روزہ فاسد ہو جائے گا۔ روزہ فاسد ہونے کا حکم اس صورت میں ہیں جب قے کھانے یا پانی یا صفرا(کڑوا پانی) کی یا خون کی ہو۔ اور اگر بلغم کی قے ہو تو مطلقا روزہ نہیں ٹوٹے گا۔

دیگر چند صورتیں ہیں جن میں روزہ فاسد نہیں ہو گا:

٭ خود بخود منہ بھر جتنی بھی قے آجائے، بشرطیکہ چنے برابر واپس نہ لوٹائی ہو۔

٭منہ بھر قے ہوئی اور چنے سے کم مقدار میں واپس لوٹائی۔

٭قصداً قے کی مگر منہ بھر نہیں یعنی تھوڑی سی آئی ہو۔

٭منہ بھر سے کم قے ہوئی اور منہ سے ہی واپس لوٹ گئی یا خود لوٹا دی۔

منہ بھر قے کا مطلب یہ ہے کہ جسے آسانی سے روکنا ممکن نہ ہو۔

سنن ترمذی میں ہے:

”عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ ذَرَعَهُ القَيْءُ، فَلَيْسَ عَلَيْهِ قَضَاءٌ، وَمَنْ اسْتَقَاءَ عَمَدًا فَلْيَقْضِ“

ترجمہ:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جسے خود بخود قے آئی ہو اس پر قضا نہیں ہے اور جس نے جان بوجھ کر قے کی اس پر قضا ہے۔(سنن ترمذی، ابواب الصوم، باب ما جاء من استقاء عمدا، ج1، ص153 مطبوعہ کراچی)

مصنف ابن ابي شيبه میں ہے:

”عن نافع عن ابن عمر أنه كان يقول: من ذرعه القيء وهو صائم فلا يفطر ومن تقيأ فقد أفطر“

ترجمہ: حضرت نافع سے مروی ہے وہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا جسے خود بخود قے آئی اور وہ روزہ دار ہے تو اس کا روزہ نہیں ٹوٹا اور جس نے جان بوجھ کر قے کی تو اس کا روزہ ٹوٹ گیا۔(مصنف ابن ابی شیبہ ما جاء في الصائم (يتقيأ) أو يبدأه القيء ج5 ص536 رقم:9435 دار کنوز اشبیلیا)

تنویر الابصار مع الدرالمختار میں ہے:

”(وإن ذرعه القيء وخرج) ولم يعد (لا يفطر مطلقا) ملأ أو لا (فإن عاد) بلا صنعه (و) لو (هو ملء الفم مع تذكره للصوم لا يفسد)..(وإن أعاده) أو قدر حمصة منه فأكثر حدادي (أفطر إجماعا) ولا كفارة (إن ملأ الفم وإلا لا) هو المختار (وإن استقاء) أي طلب القيء (عامدا) أي متذكرا لصوم (إن كان ملء الفم فسد بالإجماع) مطلقا (وإن أقل لا) عند الثاني وهو الصحيح،… (وهذا) كله (في قيء طعام أو ماء أو مرة) أو دم (فإن كان بلغما فغير مفسد) مطلقا“

ترجمہ:اگر خود بخود قے ہوئی اور وہ منہ سے باہر نکل گئی اور لوٹی نہیں تو مطلقا روزہ نہیں ٹوٹے گا چاہے منہ بھر ہے یا نہیں اور اگر روزہ یاد ہونے کے باوجود خود ہی لوٹ گئی تو روزہ فاسد نہیں ہوگا اگرچہ منہ بھر ہو اور اگر اسے خود لوٹایا یا چنے کے برابر یا اس سے زائد ہو تو بالاجماع روزہ جاتا رہا(صرف قضا ہوگی) کفارہ نہیں ہوگا اگر منہ بھر ہے ورنہ نہیں ٹوٹے گا یہی مختار قول ہے۔ اور اگر قصداً(جان بوجھ کر) منہ بھر قے کی اور روزہ دار ہونا یاد ہے تو مطلقاً روزہ جاتا رہا اور اگر اس سے کم ہو تو(روزہ) نہیں (ٹوٹے گا) دوسری صورت میں اور یہی صحیح قول ہے اور یہ سارا حکم اس صورت میں ہے جب قے کھانے یا پانی یا صفرا یعنی کڑوا پانی یا خون کی ہو۔ اگر قے بلغم کی ہے تو مطلقا وہ روزہ کو توڑنے والی نہیں۔(الدرالمختار مع ردالمختار،کتاب الصوم، باب ما یفسد الصوم وما لایفسدہ، ج2 ص414-415 دار الفکر بیروت)

فتاوی ہندیہ المعروف فتاوی عالمگیری میں ہے:

”إذا قاء أو استقاء ملء الفم أو دونه عاد بنفسه أو أعاد أو خرج فلا فطر على الأصح إلا في الإعادة والاستقاء بشرط ملء الفم هكذا في النهر الفائق وهذا كله إذا كان القيء طعاما أو ماء أو مرة فإن كان بلغما فغير مفسد للصوم“

ترجمہ: جب قے آئی یا خود قے کی، منہ بھر ہو یا کم، خود بخود لوٹی یا لوٹائی، یا نکلی تو اصح قول پر روزہ نہیں ٹوٹا مگر واپس لوٹانے یا خود قے کرنے میں، بشرطیکہ منہ بھر ہو اسی طرح نہر الفائق میں ہے۔ اور یہ سب اس وقت ہے جب قے کھانے، پانی یا کڑوے پانی کی ہو، اگر بلغم ہو تو روزہ فاسد نہیں کرے گی۔(فتاوی ہندیہ کتاب الصوم الباب الرابع فيما يفسد، وما لا يفسد ج1 ص203 -204 دار الفکر بیروت)

سیدی اعلی حضرت امام اہل سنت علیہ رحمۃ رب العزت فرماتے ہیں:

”والحاصل ان ما دون ملء الفم لا یفسد مطلقا، وان اعادہ ذاکراً صومہ، ای: قبل خروجہ من فیہ، فانہ ان اعاد الساقط والعیاذ باللہ تعالی افسد مطلقا اجماعاً بلا کفارة، الا ان یکون نسی الصوم۔ واما ما کان ملء الفم فیشترط فی الافساد بہ شرطان، احدھما صنع الصائم اما فی اخراجہ، وھو الاستقاء، او ادخالہ وھو الاعادة۔ والثانی ان یکون ذلک الصنع وھو ذاکر للصوم، فان فقد احد ہذین الشرطین لم یفسد ما کان ملء الفم ایضا مطلقا، فافھم“

اور خلاصہ یہ کہ منہ بھر سے کم قے مطلقاً روزہ فاسد نہیں کرتی اگرچہ روزہ یاد ہوتے ہوئے لوٹائی ہو یعنی منہ سے نکالنے سے پہلے، اگر اللہ کی پناہ منہ سے نکلی ہوئی لوٹائی تو مطلقاً اجماعاً بغیر کفارے کے روزے کو فاسد کرے گی۔ مگر یہ کہ روزہ بھول جائے(تو روزہ فاسد نہیں ہو گا) اور اگر قے منہ بھر ہو تو روزہ فاسد کرنے میں دو شرطیں ہیں ایک یہ کہ روزہ دار کا عمل دخل ہو یا تو قے نکالنے میں اور اسے استسقاء کہا جاتا ہے یا واپس داخل کرنے میں اور اسے اعادہ کہا جاتا ہے۔ دوسری شرط یہ کہ اس عمل کے دوران روزہ یاد ہو۔ اگر ان دو شرطوں میں سے ایک شرط نہ پائی گئی تو مطلقاً روزہ فاسد نہیں ہو گا اگرچہ منہ بھر ہو۔ (جدالممتار، کتاب الصوم جلد4 صفحہ 269-270، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)

بہار شریعت میں ہے:

”قصداً بھر مونھ قے کی اور روزہ دار ہونا یاد ہے تو مطلقاً روزہ جاتا رہا اور اس سے کم کی تو نہیں اور بلا اختیار قے ہوگئی تو بھر مونھ ہے یا نہیں اور بہر تقدیر وہ لوٹ کر حلق میں چلی گئی یا اُس نے خود لوٹائی یا نہ لوٹی، نہ لوٹائی تو اگر بھر مونھ نہ ہو تو روزہ نہ گیا، اگرچہ لوٹ گئی یا اُس نے خود لوٹائی اور بھر مونھ ہے اور اُس نے لوٹائی، اگرچہ اس میں سے صرف چنے برابر حلق سے اُتری تو روزہ جاتا رہا ورنہ نہیں۔قے کے یہ احکام اُس وقت ہیں کہ قے میں کھانا آئے یا صفرا (یعنی کڑوا پانی) یا خون اور بلغم آیا تو مطلقاً روزہ نہ ٹوٹا۔ “(بہار شریعت،روزہ توڑنے والی چیزوں کا بیان،حصہ 5،ص994 مسئلہ:19-20، مکتبۃ المدینہ کراچی)

وقار الفتاوی میں ہے:

”خود بخود قے(الٹی) سے روزہ نہیں ٹوٹتا چاہے منہ بھر کر ہو یا نہ ہو۔ قصداً(جان بوجھ کر) قے کرنے سے،اور قے منہ بھر ہو تو بالاتفاق روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔“(وقار الفتاوی جلد 2 کتاب الصوم ص 430 مطبوعہ بزم وقارالدین)

بہار شریعت میں ہے:

”فائدہ:مونھ بَھر کے یہ معنے ہیں کہ اسے بے تکلّف نہ روک سکتا ہو۔“(بہار شریعت، وضو توڑنے والی چیزوں کا بیان، حصہ 2، مکتبۃ المدینہ)

واللّٰہ تعالٰی اعلم و رسولہ اعلم باالصواب

صلی اللّٰہ تعالی علیہ و علی آلہ و اصحابہ و بارک و سلم

ابوالمصطفٰی محمد شاہد حمید قادری

5رمضان المبارک1445ھ

17مارچ2024ء، ہفتہ

اپنا تبصرہ بھیجیں