روزے کی حالت میں استنجاء میں مبالغہ

روزے کی حالت میں استنجاء میں مبالغہ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس بارے میں کہ کیا استنجا کرنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے؟

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایہ الحق والصواب

صورت مستفسرہ کے مطابق مبالغہ کے ساتھ استنجا کیا یہاں تک کہ جہاں حقنہ(enema) کا آلہ محقنہ کا سرا پہنچ جاتا ہے اس مقام تک پانی پہنچ گیا تو روزہ فاسد ہو جائے گا البتہ قضاء لازم ہے کفارہ لازم نہیں ہوگا حقنہ وہ مقام ہے جہاں سے انتڑیوں(intestines) کے ذریعے سے معدے میں دوائی پہنچائی جاتی ہیں اور ایسا تقریباً بہت کم ہوتا ہے عموماً استنجا کرنے سے پانی موضع حقنہ تک نہیں پہنچ سکتا۔

محیط برہانی میں ہے

”وإذا استنجى، وبالغ حتى وصل الماء إلى موضع الحقنة يفسد صومه، ومن غير كفارة“

ترجمہ:جب استنجا کرنے میں مبالغہ کرے یہاں تک کہ پانی حقنہ کی جگہ تک پہنچ جائے تو روزہ فاسد ہو جائے گا البتہ کفارہ لازم نہیں ۔(المحيط البرهاني: كتاب الصوم ، الفصل الرابع فيما يفسد الصوم وما لا يفسد صومه، جلد2 ، صفحہ 383، دار الكتب العلمية، بيروت )

ردالمختار میں ہے

”ولو بالغ في الاستنجاء حتى بلغ موضع الحقنة فسد، وهذا قلما يكون ولو كان فيورث داء عظيمًا. قولہ (حتی بلغ موضع الحقنہ) ھی دواء یجعل فی خریطہ من آدم یقال لھا المحقنہ مغرب ثم فی بعض النسخ المحقنہ بالمیم وھی اولی قال فی الفتح والحد الذی یتعلق بالوصول الیہ الفساد قدر المحقنہ ای قدر ما یصل الیہ راس المحقنہ التی ھی آلہ الاحتقان وعلی الاول فالمراد الموضع الذی ینصب منہ الدواء الی الامعاء“

ترجمہ:اگر آدمی استنجا میں مبالغہ کرے یہاں تک کہ حقنہ کی جگہ تک پہنچ جائے تو روزہ فاسد ہو جائے گا یہ بہت کم ہی ہوتا ہے اور اگر ایسا ہو تو یہ بہت بڑی بیماری لاحق کردیتا ہے ۔قولہ(حتی بلغ موضع الحقنہ) یہ ایسی دوائی ہے جسے چمڑے کے بنائے گئے ایک آلہ میں رکھا جاتا ہے جس آلہ کو محقنہ کہتے ہیں مغرب پھر بعض نسخوں میں المُحقنہ ہے یہ زیادہ بہتر ہے الفتح میں کہا گیا ہے وہ مقدار جس تک انگلی پہنچنے سے روزہ فاسد ہو جاتا ہے وہ محقنہ کی مقدار ہے یعنی جس تک محقنہ (آلہ) کا سرا پہنچ جاتا ہے محقنہ جو حقنہ کا آلہ ہے پہلے قول کی تاویل پر مراد وہ جگہ ہے جس سے انتڑیوں میں دوائی بہتی ہے ۔(الدر المختار ، جلد 2 صفحہ 397، دار الفکر بیروت)

بہار شریعت میں ہے :

”مبالغہ کے ساتھ استنجا کیا، یہاں تک کہ حقنہ رکھنے کی جگہ تک پانی پہنچ گیا، روزہ جاتا رہا اوراتنا مبالغہ چاہیے بھی نہیں کہ اس سے سخت بیماری کا اندیشہ ہے۔ “(بہار شریعت ،جلد 1 ،حصہ 5، صفحہ 993، مکتبہ المدینہ کراچی)

واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم

کتبـــــــــــــــــــــــــــہ

ممبر فقہ کورس

05رمضان المبارک1445ھ15مارچ 2024ء

اپنا تبصرہ بھیجیں