دورانِ اعتکاف روزہ چھوڑ دینا

دورانِ اعتکاف روزہ چھوڑ دینا

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس بارے میں کہ اگر کسی عذر کی وجہ سے یا بغیر عذر روزہ چھوڑا یا توڑ دیا تو اعتکاف کا کیا حکم ہوگا اور اگر اعتکاف ٹوٹ گیا تو کیا اس کی قضاء کرنی ہوگی ؟

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایہ الحق والصواب

صورت مسئولہ کے مطابق اعتکاف کے لیے روزہ شرط ہے لہذا اگر کسی نے کسی عذر کے سبب یا بغیر عذر کے روزہ چھوڑا یا کسی سبب سے روزہ ٹوٹ گیا تو اعتکاف بھی ٹوٹ جائے گا اور اعتکاف اگر شروع کر کے توڑ دیا تو اب اس کی قضا واجب ہوگی اور قضا بھی فقط ایک دن کی واجب ہوگی جس میں بھی روزہ رکھنا شرط ہے۔یعنی مغرب میں مسجد میں داخل ہو اور اگلے دن مغرب میں واپس آجائے۔ یہ قضا رمضان میں اور اس کے بعد بھی کرسکتے ہیں۔

مصنف ابن ابی شیبۃ میں ہے

”وعن ابن عباس قال المعتکف علیه الصوم “

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے فرمایا معتکف پر روزہ رکھنا لازم ہے۔(مصنف ابن ابی شیبۃ ، کتاب الصیام جلد 2 ، صفحہ 333 ،مطبوعہ مکتبۃ الرشید)

فتاوی قاضی خان میں ہے

”ولایکون الا بصوم عندنا“

ہمارے نزدیک اعتکاف روزے کے ساتھ ہی ہوتا ہے۔(فتاوی قاضی خان، کتاب الصوم فصل فی الاعتکاف جلد 1، صفحہ 195، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ)

بدائع الصنائع میں ہے

”ومنھا الصوم فانه شرط لصحة الاعتکاف الواجب بلا خلاف بین اصحابنا“

ان شرائط میں سے روزہ بھی ہے پس بے شک اعتکاف واجب کے صحیح ہونے کےلئے روزہ شرط ہے ہمارے اصحاب کا اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں۔(بدائع الصنائع، جلد2 ، صفحہ108، مطبوعہ دارلکتب العلمیہ)

ردالمختار میں ہے

”ومقتضى ذلك أن الصوم شرط أيضا في الاعتكاف المسنون لأنه مقدر بالعشر الأخير حتى لو اعتكفه بلا صوم لمرض أو سفر، ينبغي أن لا يصح عنه بل يكون نفلا فلا تحصل به إقامة سنة الكفاية“

اس عبارت کا مقتضی یہ ہے کہ روزہ سنت اعتکاف میں بھی شرط ہے کیونکہ سنت اعتکاف میں آخری عشرے کی مقدار معین کی جاتی ہے حتیٰ کہ اگر کسی شخص نے سفر یا مرض کی وجہ سے روزہ نہ رکھا اور سنت اعتکاف کیا تو مناسب یہی ہے کہ سنت اعتکاف درست نہ ہو بلکہ نفل اعتکاف ہوگا پس اس سے سنت کفایہ کا قائم کرنا حاصل نہیں ہوگا۔(رد المحتار علی الدرالمختار، ج3، ص496، مطبوعہ لاھور)

بہار شریعت میں ہے:

”اعتکافِ سنت یعنی رمضان شریف کی پچھلی دس تاریخوں میں جوکیا جاتا ہے، اُس میں روزہ شرط ہے، لہٰذا اگر کسی مریض یا مسافر نے اعتکاف تو کیا مگر روزہ نہ رکھا تو سنت ادا نہ ہوئی بلکہ نفل ہوا۔“(بہار شریعت،جلد 1 ،حصہ 5، صفحہ 1028،مکتبۃ المدینہ کراچی)

الفتاوى التتارخانيہ میں ہے

”و لو شرع فيه ثم قطع لايلزمه القضاء في رواية الأصل، و في رواية الحسن : يلزمه، و في الظهيرية عن أبي حنيفة رحمه الله تعالى : أنه يلزمه يومًا“

اور اگر کسی نے اعتکاف شروع کرکے توڑ دیا تو اس پر قضاء نہیں یہ الاصل کی روایت میں ہے اور امام حسن سے مروی روایت میں ہے کہ قضاء لازم ہوگی اور ظھیریہ میں امام ابو حنیفہ سے مروی ہے کہ ایک دن کی قضاء لازم ہوگی ۔(الفتاوى التتارخانية، جلد 2 ،صفحہ 414، مطبوعہ بیروت)

بہارِ شریعت میں ہے:

”اعتکاف کی قضا صرف قصداً توڑنے سے نہیں بلکہ اگر عذر کی وجہ سے چھوڑا مثلاً بیمار ہوگیا یا بلا اختیار چھوٹا مثلاً عورت کو حیض یا نفاس آیا یا جنون و بے ہوشی طویل طاری ہوئی، ان میں بھی قضا واجب ہے۔ ۔۔، اعتکاف مسنون کہ رمضان کی پچھلی دس تاریخوں تک کے لیے بیٹھا تھا، اسے توڑا تو جس دن توڑا فقط اس ایک دن کی قضا کرے، پورے دس دنوں کی قضا واجب نہیں۔“(بہارِ شریعت،جلد1، حصہ5 ، صفحہ1028 ،1029 مکتبۃ المدینہ، کراچی)

فیضان رمضان میں ہے :

” میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! رَمَضانُ الْمُبارَک کے آخری عشرے کا سنت اِعتکاف ٹوٹ گیا تو آپ کے ذمے صرف اُس ایک دن کی قضاہے جس دن اِعتکاف ٹوٹا ہے، اگر ماہِ رَمضان شریف کے دن باقی ہیں تو ان میں بھی قضا ہو سکتی ہے، ورنہ بعد میں کسی دن کر لیجئے ۔ مگر عیدُالْفِطْر اور ذُوالحِجَّۃِ الْحَرام کی دسویں تا تیرھویں کے علاوہ کہ ان پانچ دنوں کے روزے مکروہِ تحریمی ہیں ۔ قضا کا طریقہ یہ ہے کہ کسی دن غروبِ آفتاب کے وقت ( بلکہ احتیاط اس میں ہے کہ چند منٹ قبل ) بہ نیّتِ قضا اعتکاف مسجد میں داخل ہو جا یئے اور اب جو دن آئے گا اُس کے غروبِ آفتاب تک معتکف رہئے۔ اِس میں روزہ شرط ہے ۔“( فیضان رمضان، صفحہ 273، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی ).

واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم

کتبـــــــــــــــــــــــــــہ

ممبر فقہ کورس

20رمضان المبارک1445ھ31مارچ 2024ء

اپنا تبصرہ بھیجیں