بیوی کا مہر اور فوتگی

بیوی کا مہر اور فوتگی

کیا فرماتے ہیں علماے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ کسی شخص نے اپنی بیوی کو مہر نہیں دیا اور اس کا انتقال ہوگیا، تو اب وہ مہر کون ادا کرے گا؟بینوا توجروا۔بیان فرما کر اجر پائیے

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب بعون الملک الوہاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب

اولاً یہ بات ذہن نشین فرما لیجیے کہ نکاح کے بعد تین اسباب میں سے کسی بھی ایک سبب کے پائے جانے کی وجہ سے مہر مؤکد و مستحکم ہوجاتا ہے یعنی اب اس میں صاحب حق کی اجازت کے بغیر کمی نہیں ہو سکتی چاہے مہر مسمی ہو یا مہر مثل، وہ تین اسباب یہ ہیں: (1) دخول (2) خلوت صحیحہ (3) میاں، بیوی میں سے کسی کا انتقال ہونا۔

لہذا شوہر کا انتقال ہو جانے پر مہر مؤکد ہوچکا ہے اور مہر شوہر کے ذمہ دین ہوتا ہے، اس لیے اس صورت میں شوہر کے ترکہ سے مہر کی ادائیگی کی جائے گی، اس کی تفصیل اس طرح ہے کہ سب سے پہلے میت کے چھوڑے ہوئے مال سے اس کی تجہیز و تکفین کی جائے گی، پھر بچے ہوئے کل مال سے میت کے قرضہ جات اور دیون ادا کیے جائیں گے، پھر بچے ہوئے مال کے زیادہ سے زیادہ تہائی حصے سے میت کی وصیت پوری کی جائے گی پھر باقی مال وارثوں میں تقسیم کیا جائے گا۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

”والمهر یتأکد بأحد معان ثلاثة: الدخول والخلوة الصحیحة وموت أحد الزوجین سواء کان مسمی أو مهر المثل حتی لا یسقط منه شيء بعد ذالك إلا بالإبراء من صاحب الحق“

ترجمہ: مہر تین اسباب میں سے کسی ایک بھی سبب کے پائے جانے کی وجہ سے مستحکم ہوجاتا ہے: اول: دخول، ثانی: خلوت صحیحہ، ثالث: میاں، بیوی میں سے کسی کا انتقال، چاہے مہر مسمی ہو یا مہر مثل، لہذا مستحکم ہو جانے کے بعد صاحب حق کی طرف سے معاف کیے بغیر اس میں سے کچھ بھی ساقط نہیں ہوگا۔ (فتاوی عالمگیری، کتاب النکاح، الباب السابع فی المهر، الفصل الثانی، جلد1، صفحہ370، دار الفکر، بیروت)

ہدایہ میں ہے:

”(ومن سمی مهرا عشرۃ فما زاد فعليه المسمی إن دخل بها أو مات عنها)….. فلأن المسمى دين في ذمته وقد تأكد بالموت فيقضى من تركته“

ترجمہ: اور جس نے دس یا دس سے زیادہ مہر مقرر کیا، تو جتنا مقرر کیا اتنا لازم ہوگا اگر دخول پایا گیا یا شوہر کا انتقال ہوگیا؛ اس لیے کہ شوہر جتنا مہر مقرر کرتا ہے، اتنا مہر اس پر قرض ہوتا ہے، اور وفات کے سبب مہر لازم ہو جاتا ہے؛ اس لیے اس کے ترکہ سے مہر ادا کیا جائے گا۔ (ہدایہ، کتاب النکاح، باب المھر، جلد1، صفحہ199، 207، ملتقطا، دار احیاء التراث العربی، بیروت)

السراجیہ فی المیراث میں ہے:

”تتعلق بترکة المیت حقوق أربعة مرتبة: الأول: يبدأ بتكفينه و تجهيزه من غير تبذير ولا تقتير ثم تقضی ديونه من جميع ما بقي من ماله ثم تنفذ وصاياه من ثلث ما بقي بعد الدين ثم يقسم الباقي بين ورثته بالكتاب والسنة وإجماع الأمة“

ترجمہ: ترکہ میت سے چار حقوق متعلق ہوتے ہیں: سب سے پہلے بغیر کمی و زیادتی کے تجہیز و تکفین کی ادائیگی، پھر باقی ماندہ کل مال سے میت کے قرضہ جات کی ادائیگی، پھر قرضہ جات کی ادائیگی کے بعد بچے ہوئے مال کے تہائی حصہ میں وصیت کا نفاذ، پھر قرآن، حدیث اور اجماع امت کے مطابق باقی بچ جانے والے مال کی ورثہ کے درمیان تقسیم کاری۔ (السراجیۃ فی المیراث، الحقوق المتعلقہ بالترکۃ، صفحہ11-12، مطبوعہ: مکتبۃ المدینہ، کراچی)

علم المیراث اور تعلیم المیراث میں ہے:

”جو مسلمان مر جاتا ہے تو شرعا اس کے مال میں چار حق ہوتے ہیں، سب سے پہلے تو اس کے مال سے اس کے کفن میں خرچ کیا جاوے گا اس طرح کہ نہ اس میں زیادتی کی جاوے گی نہ کمی۔۔۔کفن دفن سے جو مال بچے اس سے مرنے والے پر جو کسی کا قرضہ ہو، وہ ادا کیا جائے، قرض ادا کرنے کے بعد جو مال بچا اس کے تہائی حصہ سے میت کی وصیتیں پوری کی جائیں اگر اس نے وصیت کی ہو، وصیت کے پورا کرنے کے بعد جو مال بچے اس کو مرنے والے کے وارثوں پر شریعت اسلامیہ کے مطابق تقسیم کیا جاوے۔“(علم المیراث، مال میت کے مصارف، صفحہ7، نعیمی کتب خانہ/تعلیم المیراث، ترکہ میت سے متعلق حقوق کا بیان، صفحہ6، مکتبۃ المدینہ)

واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب

کتبه

ابو معاویہ محمد ندیم عطاری مدنی حنفی

نظر ثانی: ابو احمد مفتی محمد انس رضا قادری

مؤرخہ 15شوال المکرم 1445ھ بمطابق 24اپریل 2024ء، بروز بدھ

اپنا تبصرہ بھیجیں