الوداع رمضان پر دیوبندی مفتی طارق مسعود کا بیان
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس بارے میں کہ دیوبندی مفتی طارق مسعود نے اپنے بیان میں اشرف علی تھانوی کا قول نقل کرکے کہا کہ یہ لوگ جو کہتے ہیں کہ ہمیں رمضان جانے کا بڑا غم ہے یہ جھوٹ بولتے ہیں۔یہ جھوٹ مت بولا کرو اللہ کو جھوٹ پسند نہیں ہے۔ آگے خود کہتا ہے کہ ہاں دکھ ہوتا ہے مگر وقتی طور پر ہوتا ہے، اصل میں خوشی ہوتی ہے کہ ٹینشن ختم کہ اللہ نے رمضان کے بعد عید کا دن رکھا اگر رمضان کو اللہ غم مان لیتا تو عید کا دن خوشی کا نہیں ماتم کا دن ہوتا ۔ مولوی طارق مسعود کے اس بیان کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایہ الحق والصواب
دیوبندی مولوی طارق مسعود کا یہ بیان بالکل غیر شرعی ہے۔ یہ مسلمانوں پر بہتان ہے کہ ان کو رمضان جانے کا غم نہیں ہوتااور یہ جھوٹ بولتے ہیں۔ اختتامِ رمضان کو ٹینشن ختم کہنا سخت ناجائز جملہ ہے بلکہ اس میں کفریہ معنی بھی پایا جاتا ہے۔
تفصیل اس مسئلہ میں یہ ہے کہ رمضان المبارک رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ ہے جس میں ہر وقت نزول رحمت اور مغفرت کا سامان ہوتا ہے اور انسان عبادات میں لگ جاتا ہے، جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور جہنم کے بند کردئیے جاتے ہیں، شیطان کو قید کردیا جاتا ہے اور بخشش و مغفرت کے پروانے تقسیم ہوتے ہیں، ہر دعا قبول ہوتی ہے اور روزے دار کو دیدارِ الٰہی کی بشارت ملتی ہے ۔لہذا ان تمام نعمتوں کے جدا ہونے سے بندہ مؤمن پر غم وافسوس کی کیفیت طاری ہوتی ہے۔ رمضان پر رونا ،غمزدہ ہونا بالکل جائز اور علمائے کرام سے ثابت ہے۔
دیوبندی مولوی حضور علیہ السلام کے علم غیب کے منکر ہے بلکہ ان کے نزدیک معاذ اللہ شیطان کا علم حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے زیادہ ہے جیسا کہ رشید احمد گنگوہی اور خلیل انبیٹھوی نے لکھا ہے اور اشرف علی تھانوی نے معاذ اللہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علم کو جانوروں کے علم سے تشبیہ دی ہے۔ اب ان مولویوں کو خود غیب کا اتنا علم ہے کہ انہیں مسلمانوں کے دلوں کا حال پتہ چل جاتا ہے کہ کون بطور جھوٹ غم کا اظہا ر کررہا ہے۔شریعت نے تو کسی ایک مسلمان پر بدگمانی کرنےسے منع کیا ہے اور یہاں لاکھوں مسلمان رمضان جانے کے غم میں روتے ہیں ،کیا وہ سب دکھلاوے کے طور پر رو رہے ہیں؟نیز یہ بھی پتہ چلا کہ دیوبندی مولوی طارق مسعود رمضان کو رحمتوں و برکتوں کے مہینے سے بڑھ کر ٹینشن کا مہینہ سمجھتا ہے،شائید اس لیے کہ روزہ رکھ کر اس سے منبر پر لطیفے سنانا مشکل ہوجاتا ہے ،چار شادیوں کی ہوس بھی کم پڑ جاتی ہے۔
فقہاء کرام نے فرمایا ہے کہ اگر کسی نے رمضان سے بیزاری ظاہر کی یا اس کو بھاری مہینہ کہا یا اکتاہٹ ظاہر کی تو یہ کفر ہے۔لہذا اس اعتبار سے رمضان کےمہینے کے متعلق کہنا کہ ٹینشن ختم ہوئی یہ سخت قبیح جملہ ہے اور اگر رمضان سے بیزاری یا اکتاہٹ مقصد ہو توصریح کفر ہے۔
صحیح البخاری میں ہے
”للصائم فرحتان يفرحهم إِذا أَفطر فرح، و إِذا لقي ربه فرح بصومه“
ترجمہ:روزہ دار کے لئے دو خوشیاں ہیں، جن سے اسے فرحت ہوتی ہے : ایک (فرحتِ افطار) جب وہ روزہ افطار کرتا ہے تو خوش ہوتا ہے اور دوسری (فرحتِ دیدار کہ) جب وہ اپنے رب سے ملے گا تو اپنے روزہ کے باعث خوش ہو گا۔(صحیح البخاری، کتاب الصوم، باب هل يقول إنی صائم إذا شتم، جلد 2 صفحہ 673، رقم 1805، مطبوعہ کراچی)
مراة المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح میں ہے:
”سبحان الله !کیسا پیارا فرمان ہے روزہ دارکو افطار کے وقت روحانی خوشی بھی ہوتی ہے کہ عبادت ادا ہوئی رب تعالیٰ راضی ہوا سینہ میں نور دل میں سرور ہوا اور جسمانی فرحت بھی کہ سخت پیاس کے بعد ٹھنڈا پانی بہت ہی فرحت کا باعث ہے اور تیز بھوک میں رب تعالیٰ کی روزی بہت لذیذ معلوم ہوتی ہے اوران شاء الله مرتے وقت بھی بروز قیامت بھی رب تعالیٰ کی مہربانی دیکھ کر روزہ دار کو جو خوشی ہوگی وہ تو بیان سے باہر ہے وہ کریم فرمائے گا کہ دنیا میں جو میں نے کہا وہ تو نے کیا اب جو تو کہے گا وہ میں کروں گا الله تعالیٰ خیریت سے وہ وقت دکھائے۔“ (مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:3 , حدیث نمبر:1959، ضیاء القرآن پبلی کیشنز)
مشکوٰۃ المصابیح میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’إذا دخل رمضان فُتحت أبواب السماء، وفی روایۃ: ’’فُتحت أبواب الجنۃ‘‘ وغُلقت أبواب جہنم ، وسُلسلت الشیاطین، وفی روایۃ ’’فُتحت أبواب الرحمۃ‘‘
ترجمہ: جب رمضان آتا ہے تو آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں ، اور ایک روایت میں ہے کہ جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں اور شیاطین جکڑ دیئے جاتے ہیں، اور ایک روایت میں بجائے ابوابِ جنت کے ابوابِ رحمت کھول دیئے جانے کا ذکر ہے۔ ( مشکوٰۃ المصابیح، ،کتاب الصوم،جلد 3، ص183 ، مطبوعہ بیروت)
شعب الایمان کی حدیث پاک ہے
”وعن ابی مسعود الغفاری رضی الله عنہ قال سمعت رسول الله صلی الله علیہ وسلم لو یعلم العباد ما رمضان لتمنت امتی ان یکون السنه کلھا “
ترجمہ:حضرت ابو مسعود غفاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: اگر لوگوں کو رمضان کی رحمتوں اور برکتوں کا علم ہوتا تو میری امت تمنا کرتی کہ پورا سال رمضان ہی ہو۔ ( شعب الإيمان البيهقي ، جلد 3 صفحہ 313، الرقم: 3634، مطبوعہ بیروت)
مسند احمد بن حنبل میں ہے
”عن جابر رضی الله عنه، قال قال رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم ان الله عتقاء فی کل یوم ولیلة عبیدا واماء یعتقھم من النار وان لکل مسلم فی یوم دعاء مستجابا یدعو فیستجیب له“
ترجمہ:حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بے شک الله تعالیٰ (رمضان المبارک میں) ہر روز و شب کئی غلام اور باندیاں جہنم سے آزاد کرتا ہے، اور بے شک (رمضان المبارک میں ) ہر روز مسلمان کے لئے ایک دعا مقبول ہوتی ہے، وہ دعا مانگتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے قبول فرماتا ہے۔ (المسند أحمد بن حنبل في المسند، جلد 2 ،صفحہ 254، الرقم: 7443 ،مطبوعہ بیروت)
الروض الفائق میں ہے
”کیف لایبکی علی الفراق شھر رمضان ؟ کیف لایتاسف علی شھر العفو والغفران ؟ کیف لایحزن علی شھر العتق من النبران؟“
ترجمہ:ماہ رمضان کے فراق میں کیوں نہ رویا جائے اور عفو و مغفرت کے مہینے پر کیوں نہ افسوس کیا جائے اس مہینے کی جدائی پر کیوں نہ غم کیا جائے جس میں جہنم سے آزادی نصیب ہوتی ہے۔(الروض الفائق فی مواعظ الرفائق، صفحہ 59، دار المعرفۃ بیروت)
فتاویٰ صدر الافاضل میں ہے :
” اِن منع کرنے والوں کے پاس ممانعت کی کوئی شرعی دلیل موجود نہیں ہے اور نہ وہ کوئی ایک حدیث یا ایک فقہی عبارت اس کے عَدَمِ جواز میں پیش کرسکتے ہیں ۔ مگرایسے لوگوں کا طریقہ ہی یہ ہے کہ وہ اپنی ذاتی رائے اور خیال کودین میں داخل کر دیتے ہیں اور اپنے خیال سے جس چیز کو چاہتے ہیں نا جائز کر ڈالتے ہیں۔۔۔۔۔ خُطبۃُ الوَداع آخر کس طرح ناجائز ہوگیا؟خطبے میں جو چیزیں شرعاً مطلوب ہیں ان میں سے کونسی ان میں نہیں پائی جاتی؟ یا کون سا امر ممنوع اس میں داخل ہے؟ تذکیر خطبے کی سنتوں میں سے ایک سنت ہے۔ رَمَضانُ الْمبارَک کے گزرے ہوئے اَیام (یعنی دنوں ) میں عملِ خیر (یعنی نیکیاں رہ جانے )پر حسرت و افسوس اور بابرکت ایّام کو غفلت میں گزارنے پر قلق وندامت اوت مہینے کی رخصتی کے وقت اپنی گزشتہ کوتاہیوں کو مدنظر لا کر آیندہ کے لیے تَیَقُّظْ ( یعنی ہوشیاری) و بیداری اور مسلمانوں کو عملِ خیر کی تحریص وتشویق کا(یعنی نیکیوں پر ابھارنے کا)یہ بہترین طریقۂ تذکیر (یعنی نصیحت کا بہت اچّھا انداز ) ہے اور اِس میں نہایت نافع و سود مند نصیحت و پَند (یعنی انتہائی مفید وعظ ونصیحت ) ہے، اس کا یہ اثر ہوتا ہے کہ روتے روتے لوگوں کی ہچکیاں بندھ جاتی ہیں اور انہیں سچی توبہ نصیب ہوتی ہے، بارگاہِ الٰہی میں اِستغفار کرتے ہیں ، آیندہ کے لیے عملِ نیک کامصمم (یعنی پکا)ارادہ کر لیتے ہیں ۔ اِس تذکیر کو فقہاء نے سنت فرمایا ہے ۔ فتاویٰ عالمگیری میں ہے: ”(عَاشِرُہَا ) اَلْعِظَۃُ وَ التَّذْکِیرُ“ یعنی ’’خطبے کی دسویں سنت پندو نصیحت (یعنی نیکی کی دعوت)ہے۔‘‘(فتاویٰ صدر الافاضل ، ص471 ، مکتبہ اعلیٰ حضرت)
دیوبندی مولوی خلیل احمد انبیٹھوی (المتوفی1345ھ۔1926ء) کی ’’براہین قاطعہ‘‘ کتاب 1304ھ۔1887 ء میں شائع ہوئی ۔ جس کی تصدیق رشیدگنگوہی نے کی اور بعض علماء کی تحقیق کے مطابق یہ کتاب گنگوہی ہی کی ہے۔ اس کتاب میں حضور علیہ السلام کے علم کو شیطان کے علم سے معاذ اللہ کمتر ثابت کرتے ہوئےلکھا ہے:
” شیطان وملک الموت کا حال دیکھ کر علم محیط زمین کا فخر عالم( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خلاف نصوص قطعیہ کے بلادلیل محض قیاسِ فاسدہ سے ثابت کرنا شرک نہیں تو کونسا ایمان کاحصّہ ہے؟ شیطان وملک الموت کو یہ وسعت نص سے ثابت ہوئی ۔ فخر عالم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وسعت علم کی کونسی نص قطعی ہے کہ جس سے تمام نصوص کو رد کرکے ایک شرک ثابت کرتا ہے ۔“(براہین قاطعہ ،صفحہ 51،مطبوعہ بلال ڈھور)
مولوی اشرف علی تھانوی (المتوفی1362ھ۔1943ء) کی کتاب’’ حفظ الایمان‘‘میں اشرف علی تھانوی نے حضور (علیہ السلام)کے علم کو جانوروں کے علم سے تشبیہ یا برابر ٹھہراتے ہوئے لکھا :
’’ پھر یہ کہ آپ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذاتِ مقدسہ پر علم غیب کا حکم کیا جانا اگر بقول زید صحیح ہوتو دریافت طلب یہ امر ہے کہ غیب سے مراد بعض غیب ہے یا کل غیب ؟اگر بعض علوم غیبیہ مراد ہیں تو اس میں حضور ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کی کیا تخصیص ہے ۔ایسا علم غیب تو زید وعمر و بلکہ ہر صبی (بچہ )مجنون بلکہ جمیع حیوانات و بہائم کے لئے بھی حاصل ہے ۔‘‘ (حفظ الایمان، صفحہ8،کتب خانہ اشرفیہ راشد کمپنی ،دیوبند)
بدگمانی کے حوالے سے ارشاد باری تعالیٰ ہے
”یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ“
ترجمہ:اے ایمان والو بہت گمانوں سے بچو بےشک کوئی گمان گناہ ہوجاتا ہے ۔(سورۃ الحجرات، آیت 12)
صحیح مسلم میں ہے
”حدثنا يحيي بن يحيي ، قال: قرات على مالك ، عن ابي الزناد ، عن الاعرج ، عن ابي هريرة ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: ” إياكم والظن، فإن الظن اكذب الحديث“
ترجمہ:اعرج نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “بدگمانی سے دور رہو کیونکہ بدگمانی سب سے زیادہ جھوٹی بات ہے۔(صحیح مسلم ، جلد 1 ، حدیث 6536، مطبوعہ کراچی)
احیاء علوم الدین میں ہے
” وسبب تحريمه أن أسرار القلوب لا يعلمها إلا علام الغيوب فليس لك أن تعتقد في غيرك سوءا إلا إذا انكشف لك بعيان لا يقبل التأويل فعند ذلك لا يمكنك إلا أن تعتقد ما علمته وشاهدته“
ترجمہ:اس کے حرام ہونے کی وجہ یہ ہے کہ دِل کے بھیدوں کوصِرْف اللہ تعالیٰ جانتا ہے، لہٰذا تمہارے لئے کسی کے بارے میں بُرا گُمان رکھنا اُس وَقْت تک جائز نہیں جب تک تم اُس کی بُرائی اِس طرح ظاہِر نہ دیکھو کہ اس میں تاویل (یعنی بچاؤ کی دلیل) کی گنجائش نہ رہے، پس اُس وَقْت تمہیں لامُحالہ (یعنی ناچار) اُسی چیز کا یقین رکھناپڑے گا جسے تم نے جانا اور دیکھا ہے۔(احیاء علوم الدین ،کتاب آفات اللسان،ج3،ص150،دار المعرفۃ بیروت)
سنن ابو داؤد میں ہے
”ومن قال فی مومن مالیس فیه اسکنه اللہ ردغة الخبال حتی یخرج مما قال“
ترجمہ:جو کسی مسلمان پر ایسی چیز کا الزام لگائے جس کے بارے میں وہ خود بھی جانتا نہ ہو تو اللہ تعالیٰ اسے (جہنمیوں کے خون اور پیپ جمع ہونے کے مقام) ”رَدْغَۃُ الْخَبَالْ“ میں اُس وقت تک رکھے گا جب تک کہ اپنے الزام کے مطابق عذاب نہ پا لے۔(ابو داؤد جلد 1 حدیث نمبر3597، مطبوعہ کراچی)
بحر الرائق میں ہے
”ویکفر بقوله جاء الشھر الثقیل“
ترجمہ: اور اگر کسی نے (رمضان کے متعلق)کہا کہ بڑا بھاری مہینہ آ گیا ہے تو اس کی تکفیر کی جائے گی ۔(اَلْبَحْرُ الرائق ، کتاب السیر ، باب فی احکام المرتدین ، جلد 5 ، صفحہ 206،دار الکتب العلمیہ بیروت)
فتاویٰ ھندیہ میں ہے
”آ مد آن ماہ کران قال جاء الضیف الثقیل یکفر ۔۔۔۔۔۔۔ولو قال جند ازین روزہ که مرادل بکرفت انه یکفر“
ترجمہ:اگر کسی نے (رمضان کے مہینے کے متعلق)کہا کہ بھاری مہینہ آیا یا کہا کہ وہ مہمان آیا جو کہ گراں ہوجاتا ہے تو اس کی تکفیر کی جائے گی۔۔۔اور اگر کہا کہ ایسے روزے کب تک میرا تو دل اکتا گیا ہے تو یہ کفر ہے۔ (فتاویٰ عالمگیری، ج 2 ، صفحہ 290، دار الکتب العلمیہ بیروت)
واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم
کتبـــــــــــــــــــــــــــہ
ممبر فقہ کورس
22 شوال المکرم 1445ھ29اپریل 2024ء
نظرثانی و ترمیم:
مفتی محمد انس رضا قادری