اعتکاف کی اقسام

اعتکاف کی اقسام

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں کہ اعتکاف کی کتنی قسمیں ہیں؟ اور کیا سنت اعتکاف کے لئے روزہ شرط ہے ؟

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ہدایۃ الحق و الصواب

اعتکاف کی تین قسمیں ہیں:

اوّل واجب : یہ کہ اعتکاف کی منت مانی مثلاًیوں کہا کہ میرا بچہ تندرست ہو گیا تو میں تین دن اعتکاف کروں گا تو بچہ کے تندرست ہونے پر تین دن کا اعتکاف واجب ہو گا۔

دوم سنت مؤکدہ: کہ بیسویں رمضان کو سورج ڈوبتے وقت اعتکاف کی نیت سے مسجد میں ہو اور تیسویں رمضان کو غروب کے بعد یا انتیس کو چاند ہونے کے بعد نکلے۔ یہ اعتکاف سنت کفایہ ہے۔ یعنی اگر سب لوگ ترک کریں تو سب سے مطالبہ ہو گا اور شہر میں ایک نے کر لیا تو سب بری الذمہ ہو گئے۔

ان دونوں یعنی اعتکاف واجب اور سنت اعتکاف کے لئے روزہ شرط و ضروری ہے ورنہ واجب یا سنت اعتکاف نہیں ہو گا۔

اور اعتکاف کی تیسری قسم مستحب ہے جس کے لئے نہ روزہ شرط ہے‘ اور نہ کوئی خاص وقت مقرر ہے۔ اس کی آسان صورت یہ ہے کہ جب بھی مسجد میں داخل ہونا چاہے تو مسجد میں داخل ہونے کی نیت کے ساتھ اعتکاف کی بھی نیت کرلے۔ جب تک مسجد میں رہے گا اسے اعتکاف کا بھی ثواب ملے گا۔

تنویر الابصار مع الدرالمختار میں ہے:

”(وهو) ثلاثة أقسام (واجب النذر) بلسانه وبالشروع وبالتعليق ذكره ابن الكمال (وسنة مؤكدة في العشر الأخير من رمضان) أي سنة كفاية كما في البرهان وغيره لاقترانها بعدم الإنكار على من لم يفعله من الصحابة (مستحب في غيره من الأزمنة) هو بمعنى غير المؤكدة“

ترجمہ:اور اعتکاف تین قسموں پر مشتمل ہے واجب اور یہ نذر کا اعتکاف ہے زبان کے ساتھ نذر ماننا اور شروع کرنے کے ساتھ یا کسی کام پر معلق کرنے کے ساتھ، اسے ابن کمال نے ذکر کیا۔ اور سنت مؤکدہ یہ رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کرنا۔یعنی یہ سنت کفایہ ہے جیسا کہ برہان وغیرہ میں ہے سنت کفایہ کی وجہ یہ ہے کہ جن صحابہ نے نہ کیا ان پر انکار نہیں کیا گیا۔ مستحب اور یہ سابقہ وقت کے علاوہ زمانے میں، یعنی یہ وہ اعتکاف ہے جو سنت مؤکدہ سے ہٹ کر ہو۔ (الدرالمختار مع ردالمحتار ، کتاب الصوم، باب الاعتکاف، ج2 ص441-442 دار الفکر بیروت)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

”فهو اللبث في المسجد مع نية الاعتكاف كذا في النهاية. وينقسم إلى واجب، وهو المنذور تنجيزا أو تعليقا، وإلى سنة مؤكدة، وهو في العشر الأخير من رمضان، وإلى مستحب، وهو ما سواهما هكذا في فتح القدير“

ترجمہ: اور اعتکاف کا معنی یہ ہے کہ مسجد میں اعتکاف کی نیت سے ٹھہرنا اسی طرح نہایہ میں ہے اور اعتکاف کی تقسیم ہوتی ہے واجب کی طرف واجب سے مراد یہ ہے کہ جس کی نذر یعنی منت مانی جائے فورا یا کسی شرط پر معلق کر کے، اور سنت مؤکدہ کی طرف اور یہ رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کرنا، اور مستحب کی طرف اور مستحب اعتکاف وہ ہے جو سابقہ دو کے علاوہ ہو اسی طرح فتح القدیر میں ہے۔(الفتاوی الھندیۃ کتاب الصوم، الباب السابع في الاعتکاف ج1 ص211 دار الفکر بیروت)

ردالمحتار میں ہے:

”قلت ومقتضى ذلك أن الصوم شرط أيضا في الاعتكاف المسنون لأنه مقدر بالعشر الأخير حتى لو اعتكفه بلا صوم لمرض أو سفر، ينبغي أن لا يصح عنه بل يكون نفلا فلا تحصل به إقامة سنة الكفاية ويؤيده قول الكنز سن لبث في مسجد بصوم ونية فإنه لا يمكن حمله على المنذور لتصريحه بالسنية ولا على التطوع لقوله بعده وأقله نفلا ساعة فتعين حمله على المسنون سنة مؤكدة، فيدل على اشتراط الصوم فيه“

(علامہ شامی رحمہ اللّٰہ نے فرمایا)میں کہتا ہوں اور اس کلام کا تقاضہ یہ ہے کہ (اعتکاف واجب میں) روزہ شرط ہے اسی طرح اعتکاف مسنون کے اندر بھی کیونکہ یہ رمضان کے آخری عشرے کے ساتھ مقدر ہے۔ حتی کہ اگر مرض یا سفر کی وجہ سے بغیر روزے کے اعتکاف کیا تو بہتر یہ ہے کہ اس کا اعتکاف درست نہ ہو بلکہ یہ اعتکاف نفل ہو جائے گا اور اس سے سنت کفایہ قائم نہ ہوگی۔ اور کنز کا قول اس کی تائید کرتا ہے”آدمی کا روزے اور نیت کے ساتھ مسجد کے اندر ٹھہرنا سنت ہے” کیونکہ سنت کی صراحت کی وجہ سے اسے نذر کے اعتکاف پر محمول کرنا ممکن نہیں اور نہ نفل پر محمول کرنا ممکن ہے۔ کیونکہ اس کے بعد ان کا قول ہے کہ کم سے کم (اعتکاف) نفل ہے چاہے ایک گھڑی کا ہو۔ لہذا صاحب کنز کے مذکورہ قول کو اعتکاف سنت مؤکدہ پر محمول کرنا متعین ہو جائے گا۔ پس یہ دلالت کرے گا کہ سنت مؤکدہ اعتکاف میں روزہ شرط ہے۔ (ردالمحتار ، کتاب الصوم، باب الاعتکاف، ج2 ص442 دار الفکر بیروت)

بہار شریعت میں ہے:

”اعتکاف تین قسم ہے۔

(۱) واجب، کہ اعتکاف کی منّت مانی یعنی زبان سے کہا، محض دل میں ارادہ سے واجب نہ ہوگا۔

(۲) سنت مؤ کدہ، کہ رمضان کے پورے عشرۂ اخیرہ یعنی آخر کے دس دن میں اعتکاف کیا جائے یعنی بیسویں رمضان کو سورج ڈوبتے وقت بہ نیّت اعتکاف مسجد میں ہو اور تیسویں کے غروب کے بعد یا انتیس کو چاند ہونے کے بعد نکلے۔ اگر بیسویں تاریخ کو بعد نماز مغرب نیّت اعتکاف کی تو سنت مؤکدہ ادا نہ ہوئی اور یہ اعتکاف سنت کفایہ ہے کہ اگر سب ترک کریں تو سب سے مطالبہ ہوگا اور شہر میں ایک نے کر لیا تو سب بری الذمہ۔

(۳) ان دو 2 کے علاوہ اور جو اعتکاف کیا جائے وہ مستحب و سنت غیر مؤکدہ ہے۔

اعتکافِ مستحب کے لیے نہ روزہ شرط ہے، نہ اس کے لیے کوئی خاص وقت مقرر، بلکہ جب مسجد میں اعتکاف کی نیّت کی، جب تک مسجد میں ہے معتکف ہے، چلا آیا اعتکاف ختم ہوگیا۔

یہ بغیر محنت ثواب مل رہا ہے کہ فقط نیّت کر لینے سے اعتکاف کا ثواب ملتا ہے، اسے تو نہ کھونا چاہیے۔ مسجد میں اگر دروازہ پر یہ عبارت لکھ دی جائے کہ اعتکاف کی نیّت کر لو، اعتکاف کا ثواب پاؤ گے تو بہتر ہے کہ جو اس سے ناواقف ہیں انھیں معلوم ہو جائے اور جوجانتے ہیں اُن کے لیے یاد دہانی ہو۔

اعتکافِ سنت یعنی رمضان شریف کی پچھلی دس تاریخوں میں جوکیا جاتا ہے، اُس میں روزہ شرط ہے، لہٰذا اگر کسی مریض یا مسافر نے اعتکاف تو کیا مگر روزہ نہ رکھا تو سنت ادا نہ ہوئی بلکہ نفل ہوا۔

منت کے اعتکاف میں بھی روزہ شرط ہے، یہاں تک کہ اگر ایک مہینے کے اعتکاف کی منت مانی اور یہ کہا کہ روزہ نہ رکھے گا جب بھی روزہ رکھنا واجب ہے۔“(بہار شریعت حصہ 5 روزہ کا بیان مسئلہ:7 تا 10 مکتبۃ المدینہ ملتقطاً)

امیر اہلسنت دامت برکاتہم العالیہ فیضان رمضان میں فرماتے ہیں:

”اِعتکاف کی تین قسمیں ہیں

{۱}اعتکافِ واجِب{۲}اعتکافِ سُنّت {۳} اِعتکافِ نَفْل۔

اعتکافِ واجب :

اِعتکاف کی نذر(یعنی منّت)مانی یعنی زَبان سے کہا: ’’ اللہ عَزَّوَجَلَّ کیلئے میں فلاں دن یا اتنے دن کااِعتکاف کر و ں گا۔‘‘ تواب جتنے دن کا کہا ہے اُتنے دن کا اِعتکاف کرنا واجب ہو گیا ۔ منَّت کے اَلفاظ زَبان سے اداکرنا شرط ہے، صرف دل ہی دل میں منَّت کی نیَّت کرلینے سے منَّت صحیح نہیں ہوتی۔ (اور ایسی منَّت کا پورا کرنا واجب نہیں ہوتا)

( رَدُّالْمُحْتار ج۳ص۴۹۵ مُلَخَّصاً )

منَّت کااعتکاف مردمسجدمیں کرے اور عورت مسجد بیت میں ، اِس میں روزہ بھی شرط ہے۔

(عورت گھر میں جو جگہ نمازکیلئے مخصوص کرلے اُسے ’’مسجدِ بیت‘‘کہتے ہیں )

اعتکافِ سنت:

رَمَضانُ الْمُبارَک کے آخِری عشرے کا اعتکاف ’’سنَّتِ مُؤَکَّدَہ عَلَی الْکِفایہ‘‘ ہے۔(دُرِّ مُخْتار ج ۳ ص ۴۹۵)

اگر سب ترک کریں تو سب سے مطالبہ ہوگا اور شہر میں ایک نے کر لیا تو سب بری الذِّمَّہ۔

(بہار شریعت ج۱ص۱۰۲۱)

اِس اعتکاف میں یہ ضروری ہے کہ رَمَضانُ الْمُبارَک کی بیسویں تاریخ کو غروبِ آفتاب سے پہلے پہلے مسجِدکے اندر بہ نیّتِ اعتکاف موجود ہو اور اُنتیس (اُن۔تیس)کے چاند کے بعد یا تیس کے غُروبِ آفتاب کے بعد مسجِدسے باہَر نکلے۔ اگر 20 رَمَضانُ المبارک کوغروبِ آفتاب کے بعد مسجد میں داخل ہوئے تو اِعتکاف کی سنّتِ مُؤَکَّدَہ ادانہ ہوئی۔

اعتکاف کی نیت اس طرح کیجئے:

’’میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رِضاکیلئے رَمَضانُ الْمُبارَک کے آخری عشرے کے سنّتِ اِعتکاف کی نیَّت کرتا ہوں ۔‘‘

(دل میں نیت ہونا شرط ہے، دل میں نیت حاضر ہوتے ہوئے زبان سے بھی کہہ لینا بہتر ہے)

اعتکافِ نفل

نذر اور سنّتِ مُؤَکَّدہ کے علاوہ جو اعتکاف کیاجائے وہ مستحب و سنّتِ غیر مُؤَکَّدہ ہے۔

(بہار شریعت ج۱ص۱۰۲۱)

اِس کیلئے نہ روزہ شرط ہے نہ کوئی وَقت کی قید، جب بھی مسجِدمیں داخل ہوں اِعتکاف کی نیّت کرلیجئے،جب مسجِد سے باہرنکلیں گے اِعتکاف ختم ہوجائے گا۔

میرے آقا اعلٰی حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : جب مسجد میں جائے اِعتکاف کی نیَّت کرلے، جب تک مسجد ہی میں رہے گا اِعتکاف کا بھی ثواب پائے گا۔

نیَّت دل کے ارادے کوکہتے ہیں ، اگر دل ہی میں آپ نے ارادہ کر لیا کہ ’’میں سنّتِ اِعتکاف کی نیّت کرتا ہوں ۔‘‘ آپ معتکف ہو گئے، دل میں نیّت حاضر ہوتے ہوئے زَبان سے بھی یہی الفاظ کہہ لینا بہتر ہے ۔ مادَری زَبان میں بھی نیّت ہوسکتی ہے مگرعربی میں زیادہ بہتر جبکہ معنی ذہن میں موجود ہوں ۔

’’ملفوظاتِ اعلٰی حضرت‘‘ صَفْحَہ317پرہے:

’’نَوَیْتُ سُنَّۃَ الْاِعْتِکَاف

ترجَمہ:میں نے سنّتِ اِعتکاف کی نیت کی۔‘‘

مسجدُ النَّبَوِیِّ الشَّریف عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے قدیم اور مشہور دروازے’’بابُ الرَّحمَۃ‘‘سے داخل ہوں تو سامنے ہی ستون مبارک ہے اس پر یاد دہانی کیلئے قدیم زمانے سے نمایاں طور پر نَوَیْتُ سُنَّۃَ الْاعتِکَاف لکھا ہوا ہے۔“

(فیضانِ رمضان، فیضان اعتکاف ،صفحہ 234تا236 مکتبۃ المدینہ کراچی)

واللّٰہ تعالیٰ اعلم و رسولہ اعلم باالصواب

صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ و علی آلہ و اصحابہ و بارک و سلم

ابوالمصطفٰی محمد شاہد حمید قادری

22رمضان المبارک1445ھ

2اپریل2024ء، منگل

اپنا تبصرہ بھیجیں