یورپ ممالک میں حکومت سے ایڈ لینے کے لیے جھوٹ بولنا

یورپ ممالک میں حکومت سے ایڈ لینے کے لیے جھوٹ بولنا

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں کہ باہر کے کئی ممالک میں بے روزگار یا کم آمدنی والے افراد کو حکومت کچھ رقم دیتی ہے۔ اب کئی مرتبہ جو روزگار والے ہوتے ہیں وہ یہ ظاہر کرکے کہ ہم بے روزگار ہیں یا ہماری آمدن کم ہے اور حکومت سے پیسے لیتے رہتے ہیں ،ان کا ایسا کرنا کیسا ہے؟

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الجواب: بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب

حکومت کی طرف سے ملنے والی رقم کا مدار حکومتی شرائط و ضوابط پر ہوتا ہے، اگر کوئی شخص حکومت کی طے کردہ شرائط کے مطابق رقم کو حاصل کرے تو درست ہے وگرنہ شرائط کے نہ پائے جانے کی صورت میں رقم کو لینا ناجائز و گناہ ہے کیونکہ اس میں سرا سر جھوٹ ہے اور دھوکہ ہے۔یعنی اپنی اصل حالت کو چھپانا۔ تو جس طرح مسلمان کو دھوکہ نہیں دے سکتے اسی طرح حصولِ مال کے لیے غیر مسلم کو بھی دھوکہ دینا جائز نہیں ہے۔ دوسرا قانونی جُرم کا اِرتکاب کر کے خود کو ذلت کی جگہ پیش کرنا بھی شرعًا جرم ہے لہذا بے روزگای یا کم آمدنی ظاہر کرکے مال کو حاصل کرنا ناجائز وحرام ہے۔

سنن ابی داؤد میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

’’ایاکم والکذب، فان الکذب یھدی الی الفجور وان الفجور یھدی الی النار وان الرجل لیکذب ویتحری الکذب حتی یکتب عند اللہ کذابا‘‘

ترجمہ: جھوٹ سے بچو، کہ جھوٹ گناہ کی طرف لے جاتا ہے اور گناہ جہنم میں لے جانے کا سبب ہے۔ کوئی شخص جھوٹ بولتا اور سوچتا رہتا ہے حتی کہ اللہ کی بارگاہ میں جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے۔(سنن ابی داؤد، کتاب الادب، باب فی التشدید في الکذب، جلد2، صفحہ339، مطبوعہ لاهور)

مسلم شریف میں ہے:

”لیس منا من غشنا“

ترجمہ: وہ ہم میں سے نہیں جو ہمیں دھوکہ دے۔(صحیح مسلم، جلد 1،صفحہ70، سنن ابی داؤد ، جلد2، صفحہ133،مطبوعہ، کراچی)

جامع صغیر ہے:

”قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من غشنا فلیس منا والمکروالخداع فی النار“

ترجمہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جس نے دھوکہ دیا وہ ہم میں سے نہیں اور مکرکرنے والا اور دھوکہ دینے والا دونوں جہنمی ہیں۔(جامع الصغیر، جلد6، صفحہ241، مطبوعہ بیروت)

المحيط البرهانی فی الفقه النعمانی میں ہے:

”والغدرحرام“

ترجمہ:اوردھوکہ دیناحرام ہے ۔(المحيط البرهانی فی الفقه النعمانی،جلد2، صفحہ363، دارالکتب العلمية، بيروت)

فیض القدیر میں ہے:

”والغش ستر حال الشئ“

یعنی دھوکے سے مراد کسی شی کا اصل حال چھپاناہے۔(فیض القدیر، جلد6، صفحہ240، مطبوعہ، بیروت)

فتاوی رضویہ میں ہے:

’’غدر و بد عہدی مطلقاً سب سے حرام ہے مسلم ہو یا کافر، ذمی ہو یا حربی، مستامن ہو یا غیر مستامن، اصلی ہو یا مرتد۔‘‘(فتاوی رضویہ، جلد 14، صفحہ139، رضا فاؤنڈیشن، لاهور)

فتاوی رضویہ میں مزید اعلی حضرت علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:

”جو کافر نہ ذمی ہو نہ مستامن سواغدر(دھوکہ) بدعہدی کے کہ مطلقاً ہر کا فر سے بھی حرام ہے، باقی اس کی رضا سے اس کا مال جس طرح ملے جس عقد کے نام سے ہو مسلمان کے لئے حلال ہے۔“(فتاوی رضویہ، جلد17، صفحه348، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)

جامع ترمذی میں ہے:

”قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لا ینبغی للمؤمن ا ن یذل نفسہ‘‘

ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مومن کے لیے یہ جائز نہیں کہ اپنے آپ کو ذلت میں مبتلا کرے۔(جامع الترمذی، باب ماجاء فی النھی عن سب الریاح،جلد4، صفحہ523، مطبوعہ مصر)

بنایہ شرح ھدایہ میں ہے:

’’اذلال النفس حرام‘‘

یعنی: اپنے آپ کو ذلت پر پیش کرنا حرام ہے۔ (البنایہ شرح الھدایہ، جلد 4، صفحہ 619، مطبوعہ کوئٹہ)

فتاوی رضویہ میں سیدی اعلی حضرت امام اہلسنت امام احمدرضاخان علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:

”غدر(دھوکہ)مطلقاً حرام ہے نیز کسی قانونی جُرم کاارتکاب کرکے اپنے آپ کو بلاوجہ ذلت و بلاکے لئے پیش کرنا شرعاً بھی جرم ہے۔“(فتاوی رضویہ، جلد23، صفحہ581، رضافاؤنڈیشن، لاہور )

واللہ و رسولہ اعلم عزوجل و صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

کتبہ

بابر عطاری مدنی اسلام آباد

10جمادی الاخری1445ھ/24دسمبر

اپنا تبصرہ بھیجیں