ڈاکٹر کا لیبارٹری والے سے شرکت کرنا

ڈاکٹر کا لیبارٹری والے سے شرکت کرنا

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ڈاکٹر کا کسی لیبارٹری والے سے یوں عقد کرنا کہ ٹیسٹ میری کلینک میں ہوگا تم اپنی لیبارٹری سے مشینیں لے کر ادھر بیٹھ جانا،بجلی پانی وغیرہ کے اخراجات میری طرف سے ہوں گے ۔خون کے سیمپل میں اکٹھے کرکے آپ کودوں گا،تم ٹیسٹ کرنا،جوپرافٹ ہوگاوہ فیصدکے لحاظ سے تقسیم کرلیں گے ۔ شرعی رہنمائی فرمائیں کہ یہ صورت شرعادرست ہے یانہیں؟

بسم الله الرحمن الرحيم

الجواب بعون الملك الوهاب اللهم هداية الحق والصواب

صورت مسئولہ(پوچھی گئی صورت) کا جواب یہ ہے کہ شراکت داری میں ایک شریک پر بجلی پانی کے اخراجات کی شرط رکھ دینا یہ جائز نہیں۔ کیونکہ شرکت میں اولا اخراجات نکال کر اگر راس المال(اصل سرمایہ) سے کچھ زائد بچے تو وہ نفع ہوتا ہے اور اخراجات دونوں کے ذمہ ہوتے ہیں ۔

اس کو درست کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ یا تو اخراجات دونوں کے ذمہ ہونے چاہیے جو اصل طریقہ کار ہے ۔ یا اگر کوئی شریک اپنی طرف سے احسان وتبرع کے طور پر ادا کرنا چاہے تو وہ احسان وتبرع کی صراحت کر دے یعنی یوں کہہ دے: ”یہ اخراجات میری طرف سے تبرع واحسان ہیں اور ہمیں اس کام سے جو فائدہ ہو گا وہ سارا نفع شمار ہو گا۔ ان اخراجات کو ان میں سے مائنس نہیں کیا جائے گا، حاصل ہونے والا سارا نفع ہم آپس میں طے کردہ شرط کے مطابق تقسیم کریں گے۔“ تبرع و احسان کا یہ حکم ہو گا کہ اگر بعد میں کبھی وہ تبرع کرنے والا شریک رجوع کرنا چاہے تو اسے اس کا اختیار ہو گا۔

مزید جو کلینک اور مشینوں کی تقسیم کاری کی گئی ہے کہ کلینک ڈاکٹر کا اور سیمپل لینا بھی اسی کے ذمے ہےاور مشینیں لیبارٹری کا کام کرنے والے کی طرف سے تو یہ درست ہے اور کاموں کی تقسیم کاری بھی درست ہے ۔ بس یہ ضروری ہے کہ تقبل یعنی کام کی کسی سے نفی نہ کی جائے بلکہ دونوں کام کریں اور نفع جو فیصد کے اعتبار سے مقرر کیا گیا وہ بھی درست ہے۔ پس اسی تفصیل کے مطابق ان شرائط پر شراکت کرنا شرعا درست ہو گا۔

رد المحتار میں ہے:

” قلت : وبه علم أن الشرط عدم نفي التقبل عن أحدهما لا التنصيص على تقبل كل منهما، ولا على عملهما لأنه إذا اشتركا على أن يتقبل أحدهما ويعمل الآخر بلا نفي كان لكل منهما التقبل والعمل لتضمن الشركة الوكالة. قال في البحر: وحكمها أن يصير كل واحد منهما وكيلا عن صاحبه يتقبل الأعمال، والتوكيل به جائز سواء كان الوكيل يحسن مباشرة ذلك العمل أولا “

ترجمہ : میرا کہنا ہے کہ اور اس سے یہ بات پتا چلی کہ شرط یہ ہے کہ کسی شریک سے تقبل یعنی کام کی نفی نہ کی جائے ، دونوں کے کام کرنے کی صراحت کرنا ضروری نہیں ہے ، اور نہ ان دونوں کے عمل کرنے کی صراحت کرناضروری ہے کیونکہ جب دونوں اس پر شرکت کریں گے کہ ایک ایگریمنٹ کرے گا اور دوسرا کام کرے گا، لیکن کسی سے نفی نہ کی جائے گی تو اس صورت میں دونوں میں سے ہر ایک کے لیے ایگریمنٹ کرنے اور کام کرنے کی اجازت ہو گی کیونکہ شرکت ، وکالت کو اپنےضمن میں لیے ہوتی ہے ، بحر میں فرمایا: اور شرکت کا حکم یہ ہے کہ ان میں سے ہر ایک دوسرے کا وکیل ہوتا ہے ایگریمنٹ کرنے میں اور اس کی وکالت جائز ہے ، خود و کیل یہ کام اچھے طریقے سے کر سکتا ہو یانہ کر سکتا ہو۔ (رد المحتار مع الدر المختار، كتاب الشركة، ج 04، ص 322 ، بيروت)

محیط برھانی میں ہے:

”ولو أن قصارين اشتركا ولأحدهما أداة القصارين وللآخر بيت على أن يعملا بأداة هذا في بيت هذا على أن الكسب بينهما نصفان فهذا جائز لأن الشركة ههنا وقعت على التقبل لا على إجارة البيت والأداة فإنهما لم يقولا : على أن نواجر الأداة والبيت والشركة في تقبل الأعمال جائزة“

ترجمہ: اور اگر ایسا ہو کہ دو دھوبیوں نے شرکت کی ہو اور ان میں سے ایک کا آلہ اور دوسرے کا گھر ہو اس شرط پر کہ وہ دونوں اس آلہ کے ساتھ اس گھر میں کام کریں گے اس طور پر کہ آمدنی دونوں کے درمیان نصف نصف تقسیم ہو گی تو یہ جائز ہے اس لیے کہ یہاں شرکت واقع ہوئی ہے تقبل پر نہ کہ گھر اور آلہ کے اجارے پر کیونکہ انہوں نے یوں نہیں کہا کہ ہم آلہ اور گھر کو اجرت پر دیں گے اور اعمال کے تقبل میں شرکت جائز ہے۔(المحيط البرهاني، الفصل السادس في الشركة بالاعمال، ج 06، ص 42، دار الكتب العلمية ، بيروت)

فتاوی ھندیہ میں ہے:

”وإذا أقعد الصانع معه رجلا في دكانه يطرح عليه العمل بالنصف جاز استحسانا “

ترجمہ : اور جب کاریگر اپنے ساتھ کسی شخص کو اپنی دوکان میں بٹھائے کہ میں تجھے نصف کے بدلے کام دوں گا تو یہ استحسانا جائز ہے (فتاوی هندیه ج 02 ، ص 331 کوئته)

در مختار میں ہے:

”ويكون الكسب بينهما على ما شرطا مطلقا في الاصح “

ترجمہ : اصح قول کے مطابق شرکت عمل میں نفع دونوں شریکوں کے درمیان مطلقا اس کے مطابق ہو گا جو انہوں نے شرط لگائی ہے۔

اس کے تحت حاشیة الطحطاوی میں ہے:

”وان لم يعمل الآخر ولو حاضرا أو امتنع عمد ابلا عذر اولم يحسن العمل اصلا او استعان بغيره او استاجره فان هذه الشركة باعتبار الوكالة والتوكيل بتقبل العمل صحيح احسن العمل اولا“

ترجمہ: اگر دوسرے نے کام نہ کیا اگر چہ وہ موجود تھا یا بلا عذر عمدانہ کیا یا اسے سرے سے کام ہی نہیں آتا یا اس نے دوسرے سے مددلی یا اسے اجارہ پر رکھا کیونکہ یہ شرکت وکالت کے اعتبار سے ہوتی ہے اور کام قبول کرنے میں وکیل بنانا درست ہے کام آتا ہو یا نہ آتا ہو۔ ( حاشية الطحطاوي، كتاب الشركة ، ج02، ص522، مطبوعہ كوئٹه)

فتاوی رضویہ میں مضاربت میں سفر کے اخراجات کے حوالے سے ہے :

”رقم خاص جو سفر خرچ کے لیے اسی عقد مضاربت کی بناءپر دی وہ مضاربت ہی میں شامل ہے ، ہاں اگر جدار قم دے کر تصریح کر دی کہ میں تیر اسفر خرچ تبرعا اپنے پاس سے دیتا ہوں ، جو کچھ راس المال پر بڑھے گا، وہ تمام و کمال نفع سمجھا جائے گا اور تو اس سے جدا پائے گا تو یہ اس کا احسان ہے ، اسے اختیار ہے پھر اگر وہ منع کر دے تو اس پر جبر نہیں ما على المحسنين من سبيل۔“ (فتاوی رضویہ، ج 19، ص 141، رضا فاونڈیشن، لاہور)

بہار شریعت میں صدرشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:

”اگر یوں شرکت ہوئی کہ ایک کے اوزار ہونگے اور دوسرے کا مکان یا دوکان اور دونوں ملکر کام کرینگے تو شرکت جائز ہے۔“(بہار شریعت، جلد2، مسئلہ نمبر76، حصہ1، صفحہ513، مکتبۃ المدینہ کراچی)

بہار شریعت میں مزید فرماتے ہیں:

”شرکت بالعمل کہ اسی کو شرکت بالابدان اور شرکت تقبل و شرکت صنائع بھی کہتے ہیں وہ یہ ہے کہ دوکاریگر لوگوں کے یہاں سے کام لائیں اور شرکت میں کام کریں اور جو کچھ مزدوری ملے آپس میں بانٹ لیں۔اس میں یہ ضرور نہیں کہ جو کچھ کمائیں اُس میں برابر کے شریک ہوں بلکہ کم وبیش کی بھی شرط ہو سکتی ہے اورباہم جو کچھ شرط کرلیں اُسی کے موافق تقسیم ہوگی۔اس شرکت میں یہ ضرور نہیں کہ دونوں ایک ہی کام کے کاریگر ہوں بلکہ دو مختلف کاموں کے کاریگر بھی باہم یہ شرکت کرسکتے ہیں مثلاً ایک درزی ہے دوسرا رنگریز، دونوں کپڑے لاتے ہیں وہ سیتا ہے یہ رنگتا ہے اور سلائی رنگائی کی جو کچھ اُجرت ملتی ہے اُس میں دونوں کی شرکت ہوتی ہے۔“(بہار شریعت، جلد2، مسئلہ نمبر61اور62، حصہ10، صفحہ 510، مطبوعہ، مکتبہ المدینہ کراچی)

واللہ اعلم

کتبہ

بابر عطاری مدنی اسلام آباد

9شعبان المعظم1445/ 19فروری2024

اپنا تبصرہ بھیجیں