چمن زمان صاحب کی دورانِ سفر قصر نماز نہ پڑھنا
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں کہ سوشل میڈیا میں ایک مسئلہ چل رہا ہے جس میں ایک مولوی صاحب کہہ رہے ہیں :” میں سفر میں تھا لیکن ایک دوست کے ہاں مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے اپنے گھر آگیا ہوں ،تو میں نے وہاں پوری نماز پڑھی ہے۔“ کیا شرعا یوں ممکن ہے کہ جس جگہ بھی یوں پیارو محبت ملے اور اپنا گھر محسوس ہو تو وہاں قصر کی بجائے پوری نماز پڑھ لی جائے؟
بسم اﷲ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الوہاب اللہم ہدایۃالحق والصواب
شرعی طور پر یوں کسی جگہ اپنا گھر محسوس ہونے پر قصر کی جگہ پوری نماز پڑھنا جائز نہیں بلکہ قصر ہی کرنا لازم ہے۔ کسی جگہ پوری نماز پڑھنے کی دو صورتیں ہیں:
(1) وطن اصلی :وطن اصلی وہ جگہ ہے جہاں اس کی پیدائش ہے یا اس کی بیوی وہاں رہتی ہے یا وہاں سکونت کرلی اور یہ ارادہ ہے کہ يہاں سے نہ جائے گا۔
(2) وطن اقامت: وطن اقامت وہ جگہ ہے کہ مسافر نے پندرہ دن یا اس سے زیادہ ٹھہرنے کا وہاں ارادہ کیا ہو۔
ان دو کے علاوہ تیسری کوئی جگہ نہیں ہے جہاں مسافر کسی صورت بھی پوری پڑھ سکے۔یہاں تک کہ جس جگہ انسان پیدا ہوتا ہے،ا سکے والدین و رشتہ دار وہاں رہتے ہیں، جب اس نے اس جگہ کو ہمیشہ کے لیے ترک کردیا اور دوسری جگہ مستقل شفٹ ہوگیا تو اب جب کبھی وہ اپنے حقیقی سابقہ گھر شرعی سفر کرکے آئے گا تو پندرہ دن سے کم رہنے کی صورت میں قصر کرے گا حالانکہ یہ جگہ ایسی نہیں جہاں اسے اپنا گھر محسوس ہو بلکہ یہ اس کا سابقہ گھر ہی ہے۔
حضور سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی ولادت اور شادی مکہ شریف میں ہوئی لیکن اہل و عیال کے ساتھ ہجرت فرما کر مدینہ شریف تشریف لے آئے تو مکہ شریف آپ کا وطن اصلی نہ رہا اسی لئے حجۃُ الوداع کے موقع پر ہمارے آقا ومولا صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے مکہ شریف میں قصر نماز ادا فرمائی ۔
لہذا جس مولوی نے یہ عمل کیا ہے اور پھر میڈیا میں اس پر فخر کیا ہے اس پر لازم ہے کہ وہ اپنے مؤقف سے توبہ و رجوع کرے اور دو رکعت کی قصر قضا کے طور پر کرے کیونکہ قصر کی جگہ اگر پوری نماز پڑھ لی جائے تو یہ ترکِ واجب ہونے کی صورت میں نماز دوبارہ پڑھنا واجب ہوتا ہے۔
تنویر الابصار ودرمختار اور رد المحتار میں ہے: وما بین الھلالین من رد المحتار :
”(الوطن الأصلي) هو موطن ولادته أو تأهله(أي تزوجه) أو توطنه(أي عزم على القرار فيه وعدم الارتحال وإن لم يتأهل)“
ترجمہ: وطن اصلی وہ جگہ ہے جہاں پیدا ہوا ہے یا شادی کی ہے یا اس جگہ کو وطن بنالیا ہے۔ وطن بنالینے کا مطلب یہ ہے کہ وہاں رہنے کا پکا ارادہ کرلیا ہے اور وہاں سے واپس جانے کا ارادہ نہیں اگرچہ بیوی پاس نہ ہو۔(درمختار، جلد2، صفحہ131، دار الفكر، بيروت)
غنیۃ المستملی میں ہے
”الاوطان ثلثۃ وطن اصلی ووطن اقامۃ ووطن سفر فالاصلی وھو مولد الانسان او موضع تاھل بہ ومن قصدہ التعیش بہ لاالارتحال عنہ“
ترجمہ: وطن تین قسم کے ہیں وطن اصلی، وطن اقامت، وطن سفر۔ وطن اصلی وہ جگہ ہے جہاں انسان کی پیدائش ہوئی یا وہاں شادی کرلی ہے اور وہاں ہمیشہ رہنے کا ارادہ ہے، وہاں سے جانے کا ارادہ نہیں۔(غنیۃ المستملی، صفحہ468، مطبوعہ کوئٹہ)
بہار شریعت میں ہے:
”وطن اصلی: وہ جگہ ہے جہاں اس کی پیدائش ہے یا اس کے گھر کے لوگ وہاں رہتے ہیں یا وہاں سکونت کر لی اور یہ ارادہ ہے کہ يہاں سے نہ جائے گا۔“ (بہار شریعت، جلد1، صفحہ750، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
بدائع الصنائع میں ہے
”(ووطن) الإقامة: وهو أن يقصد الإنسان أن يمكث في موضع صالح للإقامة خمسة عشر يوما أو أكثر“
ترجمہ:وطن اقامت وہ ٹھہرنے کے قابل جگہ ہوتی ہے جہاں انسان پندرہ دن یا اس سے زیادہ ٹھہرنے کا ارادہ کرے ۔( بدائع الصنائع،کتاب الصلوٰۃ، فصل بيان ما يصير المسافر به مقيما ،جلد1،صفحہ103،دار الكتب العلمية)
درمختار میں ہے
’’(الوطن الأصلي) هو موطن ولادته أو تأهله أو توطنه (يبطل بمثله) إذا لم يبق له بالأول أهل، فلو بقي لم يبطل بل يتم فيهما‘‘
ترجمہ:وطن اصلی وہ ہے جو اس کی جائے ولادت ہو یا اس نے وہاں اہل بنالیے ہو ں یا اس کو وطن بنالیا ہو ،یہ اپنی مثل سے باطل ہوجاتا ہے جبکہ پہلی جگہ اہل باقی نہ رہیں ،اگر وہاں بھی اہل ہوں تو وہ باطل نہ ہوا بلکہ دونوں جگہ پوری نماز پڑھے گا ۔
اس کے تحت رد المحتار میں ہے
’’(قوله أو تأهله) أي تزوجه. قال في شرح المنية۔۔۔۔لو كان له أهل ببلدتين فأيتهما دخلها صار مقيما، فإن ماتت زوجته في إحداهما وبقي له فيها دور وعقار قيل لا يبقى وطنا له إذ المعتبر الأهل دون الدار كما لو تأهل ببلدة واستقرت سكنا له وليس له فيها دار وقيل تبقى. اهـ.۔۔۔(قوله إذا لم يبق له بالأول أهل) أي وإن بقي له فيه عقار‘‘
ترجمہ:یعنی اس نے وہاں شادی کرلی ۔شرح منیہ میں فرمایا : اگر اس کے اہل دوشہروں میں ہوں تو جہاں بھی جائے گا مقیم ہوجائے گا پھر اگر ایک جگہ اس کی زوجہ فوت ہوگئی اور وہاں اس کے گھر اور زمین باقی ہے تو ایک قول یہ ہے کہ وہ اس کا وطن نہیں رہے گا کیونکہ اہل معتبر ہیں نہ کہ گھر جیساکہ اگر اس نے کسی شہر میں شادی کرلی اور بیوی نے اس کے لیے وہاں رہائش کا انتظام کردیا حالانکہ شوہر کی وہاں کوئی زمین نہیں ہے (تو وہ مقیم ہوجائے گا)اور ایک قول یہ ہے کہ وہ مقیم رہے گا۔ان کا قول کہ جب پہلی جگہ اس کےاہل نہ رہے یعنی اگرچہ وہاں زمین ہو ۔ (رد المحتار علی درمختار ،کتاب الصلوۃ ،باب صلوۃ المسافر ،مطلب فی الوطن الاصلی ووطن الاقامۃ، جلد2، صفحہ131، دارالفکر)
امام اہلسنت امام احمدرضاخان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں
’’اقول:یظہر للعبد الضعیف انّ نقل الاہل والمتاع یکون علی وجہین:احدہما:ان ینقل علی عزم ترک التوطّن ھاھنا، والآخر:لا علی ذلک، فعلی الاوّل لا یبقی الوطن وطناً وان بقی لہ فیہ دور وعقار وعلی الثانی یبقی‘‘
ترجمہ:میں کہتاہوں:عبدضعیف پر ظاہرہواکہ اہل ومتاع کونقل کرنے کی دوصورتیں ہیں ،اُن میں سے ایک یہ ہے وہ اس جگہ سے ترک وطن کرنے کے ارادے سے نقل کرے اور دوسری جو اس طور پر نہ ہو تو پہلی صورت میں یہ وطن نہیں رہے گا اگرچہ یہاں گھر اور زمین ہو اور دوسری صورت میں یہ وطن رہے گا ۔(جدالممتار ،کتاب الصلاۃ،باب صلوۃ المسافر،مطلبٌ فی الوطن الاصلیّ ووطن الاقامۃ، جلد3،صفحہ572،مکتبۃ المدینہ)
محیط برہانی میں ہے:
”من حكم الوطن الأصلي أن ينتقض بالوطن الأصلي، لأنه مثله والشيء ينتقض بما هو مثله حتى لو انتقل من البلد الذي تأهل به بأهله وعياله وتوطن ببلدة أخرى بأهله وعياله لا تبقى البلدة المنتقل عنها وطنا له ألا ترى أن مكة كانت وطنا أصليا لرسول الله عليه السلام ثم لما هاجر منها إلى المدينة بأهله وعياله وتوطن (ف) انتقض وطنه بمكة حتى قال عام حجة الوداع أتموا صلاتكم يا أهل مكة، فإنا قوم سفر“
ترجمہ: وطن اصلی، وطن اصلی کے ساتھ باطل ہوجاتا ہے کیونکہ وہ اس کا مثل ہے اور چیز اپنی مثل کے ساتھ ٹوٹ جاتی ہے اسی وجہ سے جس شہر میں اپنے اہل وعیال کے ساتھ رہتا ہے اس سے منتقل ہوکر اگر دوسری جگہ کو اپنا وطن بنالیا تو پہلا شہر اس کا وطن اصلی نہیں رہےگا۔ کیا دیکھتے نہیں کہ مکہ حضور سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کاوطن اصلی تھاپھرجب حضور سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نےاپنے اہل وعیال کےساتھ مدینہ شریف کی طرف ہجرت فرمائی اوراسے اپنی جائے سکونت بنالیاتومکہ حضور سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کاوطن اصلی نہ رہا،یہاں تک کہ حجۃ الوداع کےسال حضور سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:اے مکہ کے رہنے والو اپنی نماز مکمل کروکیونکہ ہم لوگ مسافرہیں۔(محیط برھانی،جلد2،صفحہ36، دار الكتب العلمية، بيروت)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
” وفرض المسافر في الرباعية ركعتان، كذا في الهداية، والقصر واجب عندنا، كذا في الخلاصة فإن صلى أربعا وقعد في الثانية قدر التشهد أجزأته والأخريان نافلة ويصير مسيئا لتأخير السلام وإن لم يقعد في الثانية قدرها بطلت، كذا في الهداية “
ترجمہ: مسافر کے لیے چار رکعتوں والی نماز میں دو رکعتیں پڑھنا فرض ہے اور ایسا ہی ہدایہ میں ہے اور قصر کرنا ہمارے نزدیک واجب ہے ، ایسا ہی خلاصہ میں ہے۔ اگر اس نے چار رکعتیں پڑھ لیں اور دوسری رکعت میں تشہد کی مقدار قعدہ کر لیا تھا تو اس کے دو فرض ادا ہو گئے، اور باقی دو رکعتیں نفل ہو گئیں، اور سلام میں تاخیر کی وجہ سے وہ گنہگار ہو گا، اور اگر دوسری رکعت میں اتنی مقدار نہ بیٹھا تو اس کے فرض باطل ہو گئے، ایسا ہی ہدایہ میں ہے ۔(فتاوی ہندیہ، جلد 1، صفحہ 139، 140، دار الفکر بیروت)
امام اہل سنت احمد رضاخان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
” جس پر شرعاً قصر ہے اور اس نے جہلاً پڑھی اُس پر مواخذہ ہے اور اس نماز کا پھیرنا واجب ۔۔۔ مسافر اگر بے نیتِ اقامت چار رکعت پوری پڑھے گنہگار ہو گا اور مقیمین کی نماز اس کے پیچھے باطل ہو جائے گی اگر دو رکعت اولی کے بعد اس کی اقتداء باقی رکھیں گے۔ “(فتاوی رضویہ، جلد 8 ، صفحہ 270، 271 ، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم
کتبـــــــــــــــــــــــــــہ
ابو احمد مفتی محمد انس رضا قادری
03شعبان المعظم 1445ھ14فروری 2024ء