وتر میں دعائے قنوت اگر بھول جائیں

وتر میں دعائے قنوت اگر بھول جائیں

کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس بارے میں کہ اگر وتر کی تیسری رکعت میں تکبیر قنوت و دعاء بھول کر رکوع کر لیا پھر یاد آنے پر واپس پلٹا اور تکبیر کہہ کر دعاء قنوت پڑھی اور پھر رکوع کیا تو کیا نماز ہو جائے گی ؟نیز اگر امام کے بھولنے پر مقتدی نے لقمہ دیا اور امام نے لقمہ قبول کر کے واپس آکر دعاء قنوت پڑھی اور پھر نماز مکمل کی تو کیا نماز درست ہو گی ؟

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب

پوچھی گئی صورت کہ جب کوئی شخص نمازِ وتر کی تیسری رکعت میں تکبیر قنوت و دعاء قنوت بھول کر رکوع میں چلا گیا تو اس کے لیے حکم یہ ہے کہ وہ قنوت پڑھنے کے لیے واپس قیام کی طرف نہ لوٹے بلکہ قنوت پڑھے بغیر نماز مکمل کرے اور آخر میں سجدہ سہو کرے، تو نماز درست ہو گی۔ اگر ایسا شخص قنوت پڑھنے کے لئے قیام کی طرف لوٹ آیا اور قنوت پڑھی، پھر اگر قصداً یعنی جان بوجھ کر یا جہالت کے سبب دوبارہ رکوع کیا تو نماز واجب الاعادہ، یعنی نماز دوبارہ پڑھنا واجب ہوگی۔

مزید یہ کہ وتر کی جماعت میں امام کے قنوت بھولنے پر مقتدی کا لقمہ دینا بے محل و بے موقع ہے کیونکہ خود امام کو رکوع سے واپس لوٹنا منع ہے تو مقتدی نے واپس لوٹنے کا لقمہ ناجائز کام کے لئے دیا ہے لہذا بے محل لقمہ دینے کے سبب اس مقتدی کی نماز فاسد ہو گئی پھر امام اس کے بتانے سے پلٹا تو امام اور سب مقتدیوں کی نماز فاسد ہوئی، لہذا اب دوبارہ وتر کی نماز پڑھی جائے گی۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

”ولو نسي القنوت فتذكر في الركوع فالصحيح أنه لا يقنت في الركوع ولا يعود إلى القيام. هكذا في التتارخانية فإن عاد إلى القيام وقنت ولم يعد الركوع لم تفسد صلاته.کذا فی البحر الرائق“

ترجمہ:اور اگر قنوت بھول گیا اور رکوع میں یاد آیا تو صحیح یہ ہے کہ رکوع میں قنوت نہ پڑھے اور نہ ہی قیام کی طرف پلٹے اسی طرح تتارخانیہ میں ہے اور اگر قیام کی طرف پلٹا، قنوت پڑھی اور رکوع دوبارہ نہیں کیا تو نماز فاسد نہیں ہوئی اسی طرح البحر الرائق میں ہے۔(الفتاوى الهندية الباب الثامن فی صلاۃ الوتر ج1 ص111 دار الفکر بیروت)

تنویر الابصار مع الدرالمختار میں ہے:

”ولو نسیہ ای القنوت ثم تذکرہ فی الرکوع لا یقنت فیہ لفوات محلہ ولا یعود الی القیام فی الاصح لان فیہ رفض الفرض للواجب فان عاد الیہ وقنت ولم یعد الرکوع لم تفسد صلاتہ لکون رکوعہ بعد قراءۃ تامۃوسجد للسھو قنت او لا لزوالہ عن محلہ“

یعنی اگر کوئی شخص قنوت پڑھنا بھول گیا پھر اسے رکوع میں یاد آیا تو دعائے قنوت کا محل فوت ہوجانےکی وجہ سےوہ رکوع میں دعائے قنوت نہیں پڑھ سکتااور اصح قول کےمطابق قنوت پڑھنےکےلیےقیام کی طرف بھی نہیں لوٹ سکتا کیونکہ اس میں واجب (قنوت) کی خاطر فرض (رکوع) کو چھوڑنا لازم آئے گا، لہذا اگر وہ قیام کی طرف لوٹا ،قنوت پڑھی اور رکوع کا اعادہ نہ کیا تو اس کی نماز فاسد نہیں ہو گی کیونکہ رکوع مکمل قراءت کے بعد اداہو چکا ہے،اب وہ شخص قنوت پڑھے یا نہ پڑھے بہر صورت سجدہ سہو کرےگاکہ قنوت اپنےمحل سےفوت ہو چکی ہے۔(الدرالمختار مع ردالمحتار باب الوتر والنوافل ج2 ص9 – 10 دار الفکر بیروت)

ردالمحتار میں ہے:

”لوسھا عن القنوت فرکع فانہ لوعاد وقنت لاتفسد علی الاصح اھ“

ترجمہ:اگر دعاء قنوت بھول گیا اور رکوع کیا پھر اگر پلٹا اور قنوت پڑھی تو اصح قول پر نماز فاسد نہیں ہو گی۔(رد المختار کتاب الصلاۃ باب سجود السہو ج2 ص84 دار الفکر بیروت)

سیدی اعلی حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں:

”اقول: و قولہ: (و لم یعدالرکوع) ای : ولم یرتفض بالعود للقنوت لا ان لو اعادہ فسدت لان زیادۃ ما دون رکعۃ لا تفسد نعم لا یکفیہ اذن سجود السھو لانہ اخر السجدۃ بھذا الرکوع عمداً فعلیہ الاعادۃ سجد للسھو او لم یسجد۔ “

ترجمہ:میں کہتا ہوں کہ ماتن علیہ الرحمہ کے اس قول’’اور اس نے رکوع کا اعادہ نہ کیا‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ قنوت پڑھنے کے لیے قیام کی طرف لوٹنے کے سبب رکوع فاسد نہیں ہوا، یہ مطلب نہیں کہ اگر دوبارہ رکوع کیا تو نماز ہی فاسد ہو جائے گی کہ رکعت سے کم کی زیادتی مفسدِ نماز نہیں، ہاں (جان بوجھ کر) دوبارہ رکوع کرنے کی صورت میں سجدہ سہو کافی نہیں ہو گا کیونکہ اس شخص نے اس رکوع کی وجہ سے جان بوجھ کر سجدے کو مؤخر کیا ہے لہذا اب نماز کا اعادہ لازم ہوگا خواہ سجدہ سہو کیا ہو یا نہ کیا ہو۔“(جدّ الممتار،باب الوتر و النوافل، ج3، ص449، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)

فتاوی رضویہ میں ہے:

”تسبیح پڑھ چکا ہو یا ابھی کچھ نہ پڑھنے پایا اسے قنوت پڑھنے کے لئے رکوع چھوڑنے کی اجازت نہیں اگر قنوت کے لئے قیام کی طرف عود کیا گناہ کیا پھر قنوت پڑھے یا نہ پڑھے اس پر سجدہ سہو ہے۔“(فتاوی رضویہ ج8 ص212 مسئلہ 1237 رضا فاؤنڈیشن لاہور)

فتاوی فیض الرسول میں ایک سوال کے جواب میں ہے:

”جو شخص دعائے قنوت پڑھنا بھول جائے اور رکوع میں چلا جائے تو اس کے لئے جائز نہیں کہ وہ دعائے قنوت پڑھنے کے لئے رکوع سے پلٹے بلکہ حکم یہ ہے کہ وہ نماز پوری کرے اور اخیر میں سجدۂ سہو کرے۔پھر اگر خود ہی یاد آجائے اور رکوع سے پلٹ کر دعائے قنوت پڑھے تو اصح یہ ہے کہ برا کیا گنہگار ہوا مگر نماز فاسد نہ ہوئی۔۔۔۔ مگر صورت مستفسرہ میں جب مقتدی نے امر ناجائز کے لئے لقمہ دیا تو اس کی نماز فاسد ہو گئی پھر امام اس کے بتانے سے پلٹا اور وہ نماز سے خارج تھا تو امام کی بھی نماز فاسد ہو گئی اور اس کے سبب کسی کی نماز نہیں ہوئی۔ ھٰکذا فی الکتب الفقھۃ۔“(فتاوی فیض الرسول جلد اول صفحہ 386 شبیر برادر لاہور)

مکتبۃ المدینہ کے مطبوعہ رسالے “لقمہ کے مسائل” میں ہے:

”جو شخص دعائے قنوت پڑھنا بھول جائے اور رکوع میں چلا جائے تو اس کے لیے جائز نہیں کہ وہ دعائے قنوت پڑھنے کے لیے رکوع سے پلٹے بلکہ حکم ہے کہ وہ نماز پوری کرے اور آخر میں سجدہ سہو کر لے پھر اگر خود ہی یاد آجائے اور رکوع سے پلٹ کر دعاء قنوت پڑھے تو اصح یہ ہے کہ گنہگار ہوا مگر نماز فاسد نہ ہوئی۔۔۔

چنانچہ صورت مذکورہ میں نماز کی اصلاح کی خاطر جو لقمہ دیا وہ درست نہ تھا کہ اس کا لقمہ دینا اس جگہ اصلاح نماز نہیں کہ خود امام کو منع ہے کہ وہ رکوع سے واپس لوٹے لہذا اس نے بے محل لقمہ دیا جس کی بنا پر اس کی نماز فاسد ہو گئی پھر امام اس کے بتانے سے پلٹا تو امام کی بھی فاسد ہو گئی کہ اس نے اس کا لقمہ لیا جو نماز سے باہر تھا اور اس کے سبب کسی کی بھی نماز نہیں ہوئی یہی حکم فتاوی فیض رسول میں بھی بیان کیا گیا ہے۔“(لقمہ کے مسائل صفحہ 33 مکتبۃ المدینہ کراچی)

واللہ تعالیٰ اعلم و رسولہ اعلم باالصواب

صلی اللہ تعالیٰ علیہ و علی آلہ و اصحابہ و بارک و سلم

ابوالمصطفٰی محمد شاہد حمید قادری

11رمضان المبارک1445ھ

22مارچ2024ء، ہفتہ

اپنا تبصرہ بھیجیں