نماز عید کس پر واجب ہے اور اس کامکمل طریقہ
کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس بارے میں کہ نماز عید کس پر واجب ہے اور اس کا وقت کیا ہے؟ نیز نماز عید کا طریقہ بیان فرما دیں۔اگر عید کی نماز کی ایک رکعت رہ جائے تو اسے بعد میں کیسے ادا کریں گے؟
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ہدایۃ الحق و الصواب
نماز عید ہر اس شخص پر واجب ہے جس پر جمعہ فرض ہے ۔نماز عید کا وقت سورج کے ایک نیزہ بلند ہونے سے لے کر زوال آفتاب تک ہے۔
نماز عید کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے اس طرح نیت کی جائے: میں نیت کرتا ہوں دو رکعت نماز عید الفطر یا عید الاضحی کی، ساتھ چھ زائد تکبیروں کے، واسطے اللہ تعالیٰ کے، پیچھے اس امام کے، پھر کانوں تک ہاتھ اٹھا کر اللہ اکبر کہہ کر حسب معمول ناف کے نیچے باندھ لئے جائیں اور ثنا پڑھی جائے۔ پھر کانوں تک ہاتھ اٹھا کر اللہ اکبر کہتے ہوئے ہاتھ لٹکا دیئے جائیں۔پھر کانوں تک ہاتھ اٹھا کر اللہ اکبر کہتے ہوئے لٹکا دیئے جائیں۔ پھر کانوں تک ہاتھ اٹھا کر اللہ اکبر کہتے ہوئے باندھ لئے جائیں۔ پہلی تکبیر یعنی تکبیر تحریمہ کے بعد ہاتھ باندھنے ہیں اس کے بعد دوسری اور تیسری تکبیر میں لٹکانے اور چوتھی میں ہاتھ باندھنے ہیں۔ اس کو یوں یادرکھئے کہ جہاں قیام میں تکبیر کے بعد کچھ پڑھنا ہے وہاں ہاتھ باندھنے ہیں اور جہاں نہیں پڑھنا وہاں ہاتھ لٹکانے ہیں۔ پھر امام تعوذ اور تسمیہ آہستہ پڑھ کر سورہ فاتحہ اور سورت جہر یعنی بُلند آواز کے ساتھ پڑھے، پھر رکوع اور سجدے کرے۔ دوسری رکعت میں امام پہلے سورہ فاتحہ اور سورت جہر کے ساتھ پڑھے (جبکہ مقتدی خاموش رہے)، پھر تین بار کانوں تک ہاتھ اٹھا کر اللّٰه اکبر کہے اور ہاتھ نہ باندھے بلکہ لٹکا لے اور چوتھی بار بغیر ہاتھ اٹھائے اللہ اکبر کہتے ہوئے رکوع میں جائے اور قاعدے کے مطابق نماز مکمل کر لے۔ ہر دو تکبیروں کے درمیان تین بار سبحان اللہ کہنے کی مقدار چپ کھڑا رہنا ہے۔
مقتدی کی اگر ایک رکعت چھوٹ جائے تو امام کے سلام پھیرنے کے بعد وہ کھڑاہوجائے گا۔ اگر ثنا پہلے نہیں پڑھی تو ثنا ،فاتحہ اور سورۃ پڑھ کر پھر تین زائد تکبیرات پڑھے گا کہ تینوں میں تکبیر کہہ کر ہاتھ چھوڑ دے گا اور چوتھی کہنے کے بعد رکوع کرے گا۔ اگر کسی نے پہلے تکبیرات کہہ کر پھر قراءت کی تو یہ ناجائز نہیں، نماز ہوجائے گی۔
بدائع الصنائع میں ہے
”تجب صلاۃ العیدعلی من تجب علیہ صلاۃ الجمعۃ “
ترجمہ:عیدکی نمازہراُس پرواجب ہے جس پرجمعہ کی نماز نمازواجب ہے ۔ (بدائع الصنائع فی ترتيب الشرائع،جلد1،صفحہ275، دار الكتب العلميۃ،بیروت)
امام اہلسنت امام احمدرضاخان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں :
” عید کی نماز ہر مسلمان پر واجب ہے مرد ہو یا عورت یہ بھی غلط ہے ۔مذہب حنفی میں عورتوں پر نہ جمعہ ہے نہ عید،ہدایہ میں ہے:”تجب صلوۃ العید علیٰ کل من تجب علیہ صلوۃ الجمعۃ“ترجمہ:نماز عید ہر اس شخص پر واجب ہے جس پر نمازِ جمعہ واجب ہے۔
اسی میں ہے :”لاتجب الجمعۃ علی مسافر ولا امراۃ“ترجمہ:مسافر اور عورت پر جمعہ واجب نہیں۔“ (فتاوی رضویہ ،جلد27،صفحہ 615-614،رضافاؤنڈیشن،لاہور)
فتاوى هندية میں ہے:
”ووقت صلاة العيدين من حين تبيض الشمس إلى أن تزول، كذا في السراجية وكذا في التبيين، والأفضل أن يعجل الأضحى ويؤخر الفطر، كذا في الخلاصة. ويصلي الإمام ركعتين فيكبر تكبيرة الافتتاح ثم يستفتح ثم يكبر ثلاثا ثم يقرأ جهرا ثم يكبر تكبيرة الركوع فإذا قام إلى الثانية قرأ ثم كبر ثلاثا وركع بالرابعة فتكون التكبيرات الزوائد ستا ثلاثا في الأولى وثلاثا في الأخرى، وثلاث أصليات تكبيرة الافتتاح وتكبيرتان للركوع فيكبر في الركعتين تسع تكبيرات ويوالي بين القراءتين وهذه رواية ابن مسعود بها أخذ أصحابنا، كذا في محيط السرخسي. ويرفع يديه في الزوائد ويسكت بين كل تكبيرتين مقدار ثلاث تسبيحات، كذا في التبيين وبه أفتى مشايخنا، كذا في الغياثية ويرسل اليدين بين التكبيرتين ولا يضع هكذا في الظهيرية“
ترجمہ:اور عیدین کی نماز کا وقت سورج سفید ہونے سے سورج کے زوال تک ہے۔ اسی طرح سراجیہ اور اسی طرح تبیین میں ہے اور افضل یہ ہے کہ عید الاضحی کی نماز میں جلدی اور عید الفطر میں تاخیر کی جائے اسی طرح خلاصہ میں ہے اور امام دو رکعتیں پڑھائے، تکبیر تحریمہ کہے پھر ثنا پڑھے پھر تین تکبیریں کہے پھر بلند آواز سے قراءت کرے پھر رکوع کی تکبیر کہے۔ پھر جب دوسری رکعت کے لیے کھڑا ہو پہلے قراءت کرے پھر تین تکبیریں کہے اور رکوع کے لیے چوتھی تکبیر کہے اور چھ تکبیریں زائد (اضافی) ہوں گی، تین پہلی رکعت میں اور تین دوسری رکعت میں، اور تین تکبیریں اصلی ہوں گی ایک شروع کی تکبیر تحریمہ اور ایک پہلی رکعت میں تکبیر رکوع اور ایک دوسری رکعت میں تکبیر رکوع۔ اور دونوں رکعت میں کل نو تکبیریں کہے گا اور دونوں(رکعات میں)قراءتوں کو لگاتار پڑھے اسی طرح روایت ہے ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کی اور اسی کو ہمارے اصحاب نے لیا ہے، اسی طرح محیط سرخسی میں ہے اور اضافی تکبیروں میں ہاتھ اٹھائے گا اور ہر دو تکبیروں کے درمیان تین مرتبہ سبحان اللہ کہنے کی مقدار خاموش رہے گا اسی طرح تبین میں ہے اور اسی طرح ہمارے مشائخ نے فتوی دیا اسی طرح غیاثیہ میں ہے اور دونوں ہاتھوں کو ہر دو تکبیروں کے درمیان چھوڑے رکھے ہاتھ نہ باندھے اسی طرح ظہیریہ میں ہے۔( الفتاوى الہندیہ الباب السابع عشر في صلاة العيدين ج1 ص150 دار الفکر بیروت)
فتح القدیر میں ہے
” ولو سبق بركعة ورأى رأي ابن مسعود رضي الله عنه يقرأ أولافیما يقضي ثم يكبر تكبيرات العيد وفي النوادر يكبر أولا ،لأن ما يقضيه المسبوق أول صلاته في حق الأذكار إجماعا. وجه الظاهر أن البداءة بالتكبير يؤدي إلى الموالاة بين التكبيرات، وهو خلاف الإجماع، ولو بدأ بالقراءة يكون موافقا لعلي رضي الله عنه ؛ لأنه بدأ بالقراءة فيهما“
ترجمہ:اگرکسی کی ایک رکعت فوت ہوگئی اوراس کامذہب سیدناعبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ والاہے تووہ فوت شدہ رکعت کو قضا کرنے میں ابتداً قراءت کرےاورپھرعیدکی تکبیرات کہے۔اورنوادرمیں ہےکہ پہلے تکبیرات کہے گاکیو نکہ مسبوق کی جونمازقضاہوئی وہ بالاجماع اذکارکے اعتبارسے اس کی نمازکاپہلاحصہ ہے۔ظاہر الروایہ کی وجہ یہ ہےکہ تکبیرات سے ابتداکرنا،تکبیرات کوپےدرپے کہنے کی طرف لے جاتاہے اوریہ خلافِ اجماع ہےاوراگروہ قراءت سے ابتداکرےتویہ سیدناعلی المرتضی رضی اللہ عنہ سے موافقت ہے کہ انہوں نے دونوں رکعتوں میں قراءت سے ابتداکی ۔ (فتح القدیر،کتاب الصلوٰۃ ،باب صلوٰۃ العیدین،جلد2،صفحہ76،مطبوعہ کوئٹہ)
واللّٰہ تعالیٰ اعلم و رسولہ اعلم باالصواب
صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ و علی آلہ و اصحابہ و بارک و سلم
محمد شاہد حمید قادری
28رمضان المبارک1445ھ
9 اپریل 2024، پیر
نظر ثانی و ترمیم:
مفتی محمد انس رضا قادری