نماز تسبیح کے قومہ میں ہاتھ باندھنا

نماز تسبیح کے قومہ میں ہاتھ باندھنا

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ صلاۃ التسبیح میں رکوع کے بعد جب کھڑے ہوتے ہیں تو اس وقت تسبیح پڑھتے ہوئے کیا ہاتھ کھلے رکھے جائیں گے یا قیام کی طرح باندھ لیے جائیں گے؟

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب اللٰھم ھدایۃ الحق والصواب

نماز تسبیح ادا کرتے ہوئے، رکوع کے بعد جب قومہ میں کھڑے ہوں گے تو ربنا ولک الحمد کے بعد ہاتھ باندھ کر تسبیحات پڑھی جائیں گی، کیونکہ اس صورت میں یہ ذکر مسنون رکھنے والا ذی قرار قیام شمار ہوتا ہے اور ہر ایسے قیام میں ہاتھ باندھنا سنت ہے۔

علامہ علاؤ الدین محمد بن علی الحصکفی ﷫ (المتوفی: 1088ھ/1677ء) لکھتے ہیں:

”(وهو سنة قيام…له قرار فيه ذكر مسنون فيضع حالة الثناء، وفي القنوت وتكبيرات الجنازة لا) يسن (في قيام بين ركوع وسجود) لعدم القرار (و) لا بين (تكبيرات العيد) لعدم الذكر ما لم يطل القيام فيضع“

ترجمہ: اور ہاتھ باندھنا ایسے ذی قرار قیام کی سنت ہے جس میں ذکر مسنون موجود ہو پس حالتِ ثنا میں، قنوت میں اور جنازے کی تکبیرات میں ہاتھ باندھے گا۔ رکوع و سجود کے درمیان (یعنی قومہ میں ہاتھ باندھنا) ذی قرار قیام نہ ہونے کی وجہ سے سنت نہیں، اور ذکر مسنون نہ ہونے کی وجہ سے عید کی تکبیروں کے درمیان ہاتھ باندھنا بھی سنت نہیں ، جب تک کہ اس قیام کو طویل نہ کردے، تو ہاتھ باندھے گا۔

(الدر المختار شرح تنویر الابصار، کتاب الصلاۃ، صفحه نمبر 67 ملتقطا، مطبوعه: دار الکتب العلمیة بیروت)

اس کے تحت علامہ سید احمد بن محمد طحطاوی ﷫(المتوفی: 1231 ھ/1815ء) لکھتے ہیں:

”(قوله: ما لم يطل القيام فيضع)ظاهرہ یعم؛ ای قیام طال وعلیہ فیضع فی قیام صلاۃ التسابیح الذی بین الرکوع والسجود“

ترجمہ: (شارح کا قول: جب تک کہ اس قیام کو طویل نہ کر دے، تو ہاتھ باندھے گا) اس کا ظاہر یہ ہے کہ ہاتھ باندھنے کا حکم عام ہے، خواہ کسی بھی قیام کو طویل کرے، تو اسی عموم کی بنا پر صلاۃ التسبیح کے رکوع و سجود کے درمیان (یعنی قومہ میں) ہاتھ باندھے گا۔(حاشية الطحطاوي على الدر المختار، کتاب الصلاۃ، جلد نمبر 2، صفحه نمبر 171، مطبوعه: دار الکتب العلمیة بیروت)

علامہ ابن عابدين سید محمد امين بن عمر شامی حنفی ﷫ (المتوفى: 1252ھ/1836ء) لکھتے ہیں:

”إن مصلي النافلة ولو سنة يسن له أن يأتي بعد التحميد بالأدعية الواردة نحو ” ملء السماوات والأرض ” إلخ واللهم اغفر لي وارحمني بين السجدتين نهر، ومقتضاه أنه يعتمد بيديه في النافلة…ومقتضاه أنه يعتمد أيضا في صلاة التسابيح“

ترجمہ: نفل نماز پڑھنے والا اگرچہ وہ سنت پڑھ رہا ہو، اس کے لیے (قومہ میں) تحمید کے بعد وارد دعائیں جیسے “ملء السماوات والأرض…الخ” پڑھنا اور دو سجدوں کے درمیان “اللهم اغفر لي وارحمني ” پڑھنا سنت ہے۔ النہر الفائق۔ اور اس کا مقتضا یہ ہے کہ نفل نماز میں (تحمیدکے بعد جب یہ دعائیں پڑھے گا تو) اپنے ہاتھوں کو باندھ لے گا۔… اور یہ اس بات کا مقتضی ہے کہ تسبیح نماز میں بھی اپنے ہاتھوں کو باندھا جائے۔(رد المحتار علی الدر المختار، کتاب الصلاۃ، جلد نمبر 1، صفحه نمبر 488 ملتقطا، مطبوعه: دار الفکر)

شیخ الإسلام والمسلمین امام اہل سنت اعلی حضرت امام احمد رضا خان﷫ (المتوفی: 1340ھ/1921ء) لکھتے ہیں:

”إن الوضع لمراعاة أدب القيام بين يدي الملك الجبار جل جلاله فهو مطلوب لنفس المثول بين يديه“

ترجمہ: ہاتھوں کا باندھنا بادشاہ جبار جل جلالہ کے حضور کھڑے ہونے کے آداب کی پاس داری کے لیے ہے، پس اپنے آپ کو اس کے حضور پیش کرنے کے لیے یہی ضروری ہے ۔(جد الممتار علی رد المحتار، کتاب الصلاۃ، جلد نمبر 3، صفحه نمبر 189، مطبوعه: مکتبة المدینه کراچی)

آپ ﷫ فتاوی رضویہ میں لکھتے ہیں:

’’یہ قیام ذی قرارو صاحبِ ذکر ،مشروع ہوا اور ہر ایسے قیام میں ہاتھ باندھنا نقلاً وشرعاً سنّت اور عقلاً و عرفا ادبِ حضرت۔ “ (فتاوی رضویۃ، جلد نمبر 6، صفحه نمبر 411، مطبوعه: رضا فاؤنڈیشن لاهور)

فقیہ عصرشارح بخاری مفتی محمد شریف الحق امجدی ﷫ لکھتے ہیں:

”صلاۃ التسبیح کے قومہ میں ہاتھ باندھے رہے۔“(ماہنامہ اشرفیہ جنوری 1987ء، صفحه نمبر 6، مطبوعه: جامعہ اشرفیہ مبارک پور اعظم گڑھ)

والله اعلم عزوجل ورسوله اعلم صلی الله تعالیٰ علیه وآله وسلم

کتبــــــــــــــــــــــــــــه

ابو محمد احمد رضا عطاری حنفی

25 رمضان المبارک 1445ھ / 5 اپریل2024ء

نظر ثانی:

مفتی محمد انس رضا قادری

اپنا تبصرہ بھیجیں