نشے میں کفر
کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ نشہ کی حالت میں جب عقل سلامت نہ ہو،اگر کوئی کفریہ جملہ بولے تو کیااس سے کفر لازم آتا ہے؟
بسم اﷲ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الوہاب اللہم ہدایۃالحق والصواب
اگر واقعی کوئی نشے کی حالت میں جب عقل سلامت نہ ہوکفریہ جملہ بولے تو کفر لازم نہیں آتا۔
النتف فی الفتاوٰی میں ہے
’’ارتداد السکران فی سکرہ:فقال ابو حنیفۃ ومحمد وابو عبد اللہ لایقبل ولاتبین منہ امرأتہ‘‘
یعنی امام ابوحنیفہ ،امام محمد اور ابو عبداللہ رحمہم اللہ نے فرمایا کہ جو نشے کی حالت میں کفر کرتو وہ کافر نہ ہوگا اور اس کی بیوی اس پر حرام نہ ہوگی۔(النتف فی الفتاوی،کتاب المرتد،ارتداد السکران،جلد2،صفحہ690، مؤسسۃ الرسالۃ ،بیروت)
بدائع الصنائع میں ہے
’’السکران الذاہب العقل لا تصح ردتہ استحسانا۔۔۔(وجہ) الاستحسان أن أحکام الکفر مبنیۃ علی الکفر، کما أن أحکام الإیمان مبنیۃ علی الإیمان، والإیمان والکفر یرجعان إلی التصدیق والتکذیب، وإنما الإقرار دلیل علیہما، وإقرار السکران الذاہب العقل لا یصلح دلالۃ علی التکذیب، فلا یصح إقرارہ‘‘
یعنی جس نشے سے عقل زائل ہوجائے اس میں استحساناارتداد صحیح نہیں۔ وجہ یہ ہے کہ کفر کے احکام کفر پر مبنی ہیں جیسے ایمان کی احکام ایمان پر مبنی ہیں۔ ایمان اور کفرتصدیق اور تکذیب پر مبنی ہیں اور اقرار اس پر دلیل ہے۔ جبکہ حالت نشے میں جب عقل سلامت نہ ہو تو یہ زبان سے اقرار اس کی تکذیب پر دلیل نہیں،اسلئے یہ اقرار صحیح نہیں۔ (بدائع الصنائع،کتاب السیر،فصل فی بیان أحکام المرتدین،جلد7،صفحہ134،دارالکتب العلمیہ ،بیروت)
بہارشریعت میں ہے:
’’ مرتد ہونے کی چند شرطیں ہیں :(۱) عقل۔ نا سمجھ بچہ اور پاگل سے ایسی بات نکلی تو حکم کفر نہیں ۔(۲)ہوش۔ اگر نشہ میں بکا تو کُفر نہ ہوا۔ (۳) اختیار مجبوری اور اکراہ کی صورت میں حکم کفر نہیں مجبوری کے یہ معنے ہیں کہ جان جانے یا عضو کٹنے یا ضرب شدید کا صحیح اندیشہ ہو اس صورت میں صرف زبان سے اس کلمہ کے کہنے کی اجازت ہے بشرطیکہ دل میں وہی اطمینان ایمانی ہو{ اِلَّا مَنْ اُکْرِہَ وَقَلْبُہ‘ مُطْمَئِنٌ بِاْلِایْمَانِ } ۔‘‘ (بہارشریعت،جلد2،حصہ9،صفحہ456،مکتبۃ المدینہ،کراچی)
واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم
کتبـــــــــــــــــــــــــــہ
ابو احمد مفتی محمد انس رضا قادری
28جمادی الآخر 1445ھ11جنوری 2024ء