منڈی میں رائج ڈالی اور لاگا کی شرعی حیثیت
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ لاگا اور ڈالی کا کیا حکم ہے؟ ڈالی کی تفصیل:کوئی شخص پھل یا سبزی کا چھابا خریدتا ہے اور اس کی قیمت1000 روپے طے ہوتی ہے لیکن جب وہ ا چھابا وصول کرتا ہے تو آڑھتی اس میں سے چند عمدہ دانے نکال لیتا ہے حالانکہ خریدار اس پر راضی نہیں ہوتا اور قیمت بھی پوری روپے وصول کرتا ہے۔ لاگا کی تفصیل:کوئی شخص منڈی سے سبزی کے توڑے خریدتا ہے اور اس کی قیمت 2000 روپے طے ہو جاتی ہے لیکن جب پیسے دینے کا وقت آتا ہے تو فی توڑے کے حساب سے 10روپے کمیشن کے طور پر لاگا کے نام پر وصول کیے جاتے ہیں ۔ بعض منڈیوں میں لاگا کا عرف ہے یہاں تک آڑھتی و خریدار دونوں کو معلوم ہوتا ہے کہ فی بوری یا پیٹی 10 روپے دینے ہوں گے اور بعض منڈیوں میں عرف نہیں ہوتا ، بہر صورت اس کا حکم بیان فرما دیں۔
بسم اﷲ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الوہاب اللہم ہدایۃالحق والصواب
صورت مستفسرہ کے مطابق سامان خریدنے کے بعد خریدار اس کا مالک ہوجاتا ہے اور بغیر مالک کی رضامندی کے آڑھتی کا اس سےڈالی کے نام پر پھل یا سبزی لینا جائز نہیں کہ یہ غیر کے مال میں اس کی اجازت کے بغیر تصرف ہے اور مسلمان کا مال باطل طریقے سے حاصل کرنا ہے جو کہ ناجائز و حرام ہے اور اس کی حرمت قرآن وحدیث سے واضح ہے۔
آڑھتی کی حیثیت بروکر کی سی ہے جب کہ وہ صرف مال بکوانے میں معاون ہو اگر طرفین(دونوں طرف یعنی بیچنے والے اور خریدنے والے) کے درمیان کوشش کی ہو مگر اس نے بیع نہ کی ہو وہ خود مالک نے ہی کی ہو تو اب اس کو کمیشن عرف کے مطابق ملے گااگر وہ کسان یا بیوپاری کی اجازت سے مال فروخت کر رہا ہے (جیسا کہ سوال سے ظاہر ہے اور یہی رائج ہے)تو اب اس صورت میں اس کا خریدار سے کمیشن لینا جائز نہیں کیونکہ یہاں پر وہ ہی عقد کرنے والا ہے، چاہے وہاں پر اس طرح خریدار سے کمیشن لینے کا عرف موجود ہو ،لہٰذا لاگا کے نام پر کمیشن لینا بھی آڑھتی کے لیے جائز نہیں ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے
”لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ“
ترجمہ:ایک دوسرے کے مال ناحق نہ کھاؤ۔(سورۃ النساء ،پارہ 5، آیت 29)
تفسیر قرطبی میں ہے
”الخطاب بھذہ الایہ یتضمن جمیع امہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم والمعنی لا یاکل بعضکم مال اخیہ بغیر حق فیدخل فی ھذا القمار والخداع والغضوب وجحد الحقوق وما لا تطیب بہ نفس مالکہ او حرمتہ الشریعہ وان طابت بہ نفس مالکہ کمھر البغی و حلوان الکاھن و اثمان الخمور والخنازیر وغیر ذلک“
ترجمہ:اس آیت میں خطاب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام امت کو شامل ہے اور معنی یہ ہے کہ تم میں سے کوئی بھی اپنے بھائی کا مال ناحق طریقے سے نہ کھائے اس عموم میں جوا،دھوکہ، غصب ،حق دینے سے انکار (کر کے حق کھا جانا )،جس چیز کے دینے پر مالک راضی نہ ہو وہ لینا اور جس کی حرمت شریعت سے ثابت ہو اسے لینا اگرچہ مالک دینے پر راضی ہو ،جیسے زانیہ کی کمائی ،کاہن کا نذرانہ اور خنزیر اور شرابوں کی قیمتیں وغیرہ سب داخل ہیں۔(تفسیر قرطبی ،جلد 2 ،صفحہ 338، دار الکتب المصریہ، القاھرہ)
مسند احمد بن حنبل میں ہے
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
”لایحل لامرء ان یاخذ مال اخیہ بغیر حقہ و ذلک لما حرم اللہ مال المسلم علی المسلم“
ترجمہ:مرد کے لیے حلال نہیں کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کا مال ناحق طریقے سے حاصل کرے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک مسلمان پر دوسرے مسلمان کا مال حرام فرمایا ہے ۔(مسند احمد بن حنبل ،جلد 39، صفحہ 19، موسسہ الرسالہ، بیروت)
مجلہ الاحکام العدلیہ میں ہے
”لایجوز لاحد ان یتصرف فی ملک الغیر بلااذنہ“
کسی کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ غیر کی ملک میں اس کی اجازت کے بغیر تصرف کرے۔(مجلہ الاحکام العدلیہ ،صفحہ 27، مطبوعہ، کراچی)
عقود الدرایہ میں ہے
”وفی الفوائد صاحب المحیط الدلال اذا باع العین بنفسہ ثم اراد ان یاخذ من المشتری الدلالہ لیس لہ ذلک لانہ ھو العاقد حقیقہ “
ترجمہ: صاحب محیط کے فوائد میں ہے کہ دلال نے ( مالک کی) چیز خود بیچی پھر خریدنے والے سے بھی کمیشن لینا چاہتا ہے تو اس کے لیے جائز نہیں کیونکہ یہاں حقیقتاً وہی عقد کر رہا ہے ۔(الفتاویٰ تنقید الحامدیہ، جلد 1 ، صفحہ 247 ، دار المعرفۃ، بیروت)
فتاویٰ شامی میں ہے
”ولیس لہ اخذ شیء من المشتری لانہ ھو العاقد حقیقہ وشرح وھبانیہ وظاھرہ انہ لایعتبر العرف ھنا لانہ لاوجہ لہ“
اور اس ( بیچنے والے) کے لیے خریدنے والے سے کمیشن وصول کرنا جائز نہیں کیونکہ حقیقت میں وہی عقد کرنے والا ہے شرح وہبانیہ اور اس کا ظاہر یہ ہے کہ یہاں عرف کا اعتبار نہیں کیا جائے گا کیونکہ یہاں عرف کے معتبر ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے ۔(فتاویٰ شامی جلد 4 صفحہ 560 مطبوعہ دار الفکر بیروت)
بہار شریعت میں ہے:
”دلال کی اُجرت یعنی دلالی بائع کے ذمہ ہے جب کہ اُس نے سامان مالک کی اجازت سے بیع کیا ہواور اگر دلال نے طرفین میں بیع کی کوشش کی ہواور بیع اس نے نہ کی ہوبلکہ مالک نے کی ہو تو جیسا وہاں کا عرف ہو یعنی اس صورت میں بھی اگر عرفاًبائع کے ذمّہ دلالی ہو تو بائع دے اور مشتری کے ذمہ ہو تو مشتری دے اور دونوں کے ذمہ ہو تو دونوں دیں ۔“ (بہار شریعت، جلد 2 ،حصہ 11 ،صفحہ 639، مکتبہ المدینہ ،کراچی)
واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم
کتبـــــــــــــــــــــــــــہ
بنت عثمان
07جمادی الآخر 1445ھ21دسمبر 2023ء