معراج کا انکار کرنا
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ معراج شریف کا اِنکار کرنے والے کے لیے کیا حکم ہے نیز یہ بھی وضاحت فرمادیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معراج شریف جسمانی تھی یا روحانی؟
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب
ابتداءً یہ جاننا ضروری ہے کہ سفرِ معراج کے تین حصے ہیں (1)اَسرٰی (2)معراج (3)اعراج یاعروج۔ اِن میں حصہ اول “اَسرٰی” یعنی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مکہ مکرمہ سے بیت المقدس تک رات کے مختصر حصہ میں تشریف لے جانا اِس کا انکار کرنے والا کافر ہے کیونکہ یہ قرآن پاک کی نصِ قطعی سے ثابت ہے۔
حصہ دوم “معراج” یعنی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا آسمانوں کی سیرکرنا اور منازل قرب میں پہنچنا اِس کا انکار کرنے والا شخص گمراہ ہے کیونکہ یہ احادیثِ صحیحہ مُعتمده مشهوره سے ثابت ہے۔
حصہ سوم “اعراج” یا “عُروج” یعنی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سَر کی آنکھوں سے دیدار الہی کرنا، جنت میں جانا، فوق العرش یعنی عرش سے اوپر جانا اس کا انکار کرنے والا گنہگار ہے کیونکہ یہ احادیثِ احاد سے ثابت ہے۔
دوسرا اسے روحانی معراج کہنا سرا سر غلط ہے کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ پاک کی طرف سے جسمانی معراج شریف نصیب ہوئی اور اِس پر سورہ بنی اسرائیل کی آیت نمبر1 میں اللہ پاک کا فرمان دلالت کرتا ہے “پاکی ہے اسے جو راتوں رات اپنے بندے کو لے گیا” یہاں لفظ “عبد” کا ذکر فرمایا اور لفظ “عبد” جسم وروح کے مجموعے کا نام ہے، اسی طرح احادیثِ صحیحہ بھی اس پر دلالت کرتی ہیں۔ اور جمہور صحابہ و تابعین، محدثین ومتکلمین اور فقہاء کرام کا یہی عقیدہ ہے کہ معراج شریف جسم وروح کے ساتھ ہوئی۔ اور جسم وروح کے ساتھ ماننے ہی کی صورت میں تخصیص ہے وگرنہ کوئی معراج شریف کو روحانی سیر یا خواب کہے تو اس پر تعجب کس بات کا؟ یُوں تو خواب میں ہر خاص وعام کا مقاماتِ مقدسہ کی سیرکرنا، مسجد اقصی و حرمینِ طیبین تک ہو آنے کا امکان ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿ سُبْحٰنَ الَّذِیْٓ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِیْ بٰرَکْنَا حَوْلَہ لِنُرِیَہ مِنْ اٰیٰتِنَا اِنَّہ ہُوَ السَّمِیْعُ البَصِیْرُ ﴾
ترجمہ کنزالایمان: پاکی ہے اسے جوراتوں رات اپنے بندے کو لے گیا مسجدحرام سے مسجد اقصیٰ تک جس کے گردا گرد ہم نے برکت رکھی کہ ہم اسے اپنی عظیم نشانیاں دکھائیں بیشک وہ سنتا دیکھتا ہے۔ (سورہ بنی اسرائیل،پ15،آیت01)
اس آیت مبارکہ کے تحت صدر الافاضل حضرت علامہ مولانامفتی محمدنعیم الدین مرادآبادی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:
”حضور پُرنور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا بیت المقدس تک شب کے چھوٹے حصّہ میں تشریف لے جانا نصِّ قرآنی سے ثابت ہے ، اس کا منکِر کافر ہے اور آسمانوں کی سیر اور منازلِ قرب میں پہنچنا احادیثِ صحیحہ معتمدہ مشہورہ سے ثابت ہے ، جو حدِّ تواتر کے قریب پہنچ گئی ہیں ، اس کا منکِر گمراہ ہے۔“(خزائن العرفان ،فی التفسیر،بنی اسرائیل،پارہ 15،آیت1)
فقہ اکبرمیں ہے:
”وخبرالمعراج حق فمن ردہ فھوضال مبتدع“
اس کی شرح میں ملاعلی قاری علیہ الرحمۃ تحریرفرماتے ہیں :
”(وخبرالمعراج )ای بجسدالمصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم یقظۃ الی السماء ثم الی ماشاء اللہ تعالی من المقامات العلی(حق)ای حدیثہ ثابت بطرق متعددۃ(فمن ردہ) ای ذلک الخبرولم یومن بمقتضی ذلک الاثر(فھوضال مبتدع)ای جامع بین الضلالۃ والبدعۃ“
ترجمہ:اورمعراج یعنی مصطفی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کابیداری کی حالت میں آسمان کی طرف اورپھر بلند مقامات سے جہاں اللہ تعالی نے چاہاوہاں تشریف لے جانے کی خبر یعنی حدیث حق ہے یعنی طرق متعددہ سے ثابت ہے پس جس نے اس خبرکاردکیااوراس کے مقتضی پرایمان نہ لایاتووہ گمراہ بدعتی ہے یعنی گمراہی اوربدعت کاجامع ہے ۔ (فقہ اکبرمع الشرح،بحث فی ان المعراج حق،ص189، مطبوعہ کراچی)
شرح العقائدالنسفیہ میں ہے :
”والمعراج لرسول اللہ عزوجل وصلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم فی الیقظۃ بشخصہ الی السماءثم الی ماشاء اللہ تعالی من العلی حق ای ثابت بالخبرالمشہورحتی ان منکرہ یکون مبتدعا“
ترجمہ:اوررسول اللہ عزوجل وصلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کےلیے بیداری میں جسم کے ساتھ آسمان تک پھرجن بلندمقامات تک اللہ تعالی نے چاہاوہاں تک معراج حق ہے یعنی خبرمشہورسے ثابت ہے یہاں تک کہ اس کاانکارکرنے والابدعتی ہوگا۔(شرح العقائدالنسفیۃ،مبحث المعراج الخ،ص175،مطبوعہ لاھور)
فتح القدیر میں ہے:
”ومنكر المعراج إن أنكر الإسراء إلى بيت المقدس فكافر، وإن أنكر المعراج منه فمبتدع“
ترجمہ:اورمعراج کامنکراگربیت مقدس تک رات کوجانے کاانکارکرے تووہ کافرہے اور اگر وہاں سے معراج کاانکارکرے توبدعتی ہے ۔(فتح القدیر،باب الامامۃ، ج1، ص350،دارالکفر،بیروت)
النبراس میں ہے:
”الجمھورعلی ان منکرالحدیث المتواتر کافر و منکر المشھور فاسق ومنکر خبرالاحاداثم ھذا ھو الصحیح“
ترجمہ:جمہوراس پرہیں کہ حدیث متواترکاانکارکرنے والاکافرہے اورحدیث مشہورکاانکارکرنے والافاسق (گمراہ)ہے اور اخباراحادکاانکارکرنے والا گنہگارہے ،یہی صحیح ہے ۔(النبراس شرح شرح العقائد، ص292،مطبوعہ ملتان)
شرح العقائدالنسفیۃ میں ہے:
”فالاسراء وھومن المسجدالحرام الی بیت المقدس قطعی ثبت بالکتاب والمعراج من الارض الی السماء مشہور و من السماء الی الجنۃ اوالی العرش اوغیرذلک احاد“
ترجمہ:پس اسراء اوروہ ہے مسجدحرام سے بیت المقدس تک جانا ، قطعی ہے جوکتاب اللہ سے ثابت ہے اورزمین سے آسمان تک معراج مشہورہے اور آسمان سے جنت تک یا عرش تک یااس کے علاوہ کی طرف جانااخباراحادسے ثابت ہے ۔(شرح العقائدالنسفیۃ،مبحث المعراج الخ،ص176،مطبوعہ لاھور)
تفسیر خازن میں ہے:
’’والحق الذی علیہ اکثر الناس ومعظم السلف وعامۃ الخلف من المتاخرین من الفقھاء والمحدثین والمتکلمین انہ اسری بروحہ وجسدہ صلی اللہ علیہ وسلم، ویدل علیہ قولہ سبحانہ وتعالی: ﴿ سُبْحٰنَ الَّذِیْٓ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلًا ﴾، ولفظ العبد عبارۃ عن مجموع الروح والجسد، والاحادیث الصحیحۃ التی تقدمت تدل علی صحۃ ھذا القول‘‘
ترجمہ: حق وہی ہے جس پر کثیر لوگ، اکابر علماء اور متاخرین میں سے عام فقہاء، محدثین اور متکلمین ہیں کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جسم اور روح مبارک کے ساتھ سیر فرمائی اور اس پر اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان دلالت کر تا ہے : ’’ پاکی ہے اسے جو راتوں رات اپنے بندے کو لے گیا‘‘ کیونکہ لفظِ عبد روح اور جسم دونوں کے مجموعے کا نام ہے، یونہی ( ماقبل) ذکر کردہ احادیث صحیحہ بھی اس قول کی صحت پر دلالت کرتی ہیں ۔( تفسیر خازن، پارہ15، سورہ بنی اسرائیل، تحت آیت1، جلد3، صفحہ158، مطبوعہ پشاور)
نسیم الریاض میں ہے:
’’(انہ اسراء بالجسد والروح فی القصۃ کلھا) ای فی قصۃ الاسراء الی المسجد الاقصی والسموات، (وعلیہ تدل الآیۃ) الدالۃ علی شطرھا صریحاً (وصحیح الاخبار) المشھور المستفیضۃ الدالۃ علی عروجہ صلی اللہ علیہ وسلم الی السماء، والاحادیث الاحاد الدالۃ علی دخولہ الجنۃ ووصولہ الی العرش او طرف العالم کما سیاتی کل ذلک بجسدہ یقظۃ‘‘
ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پورے واقعہ معراج میں یعنی مسجد اقصی سے آسمانوں تک جسم و روح مبارک کے ساتھ سیر فرمائی، جس کے ایک حصے پر آیت کریمہ واضح طور پہ دلالت کرتی ہےاور آسمانوں تک کی سیر پر حدیث مشہور مستفیض دلالت کرتی ہے، نیز جنت میں داخل ہونے، عرش پہ جانے یا عالم کے اطراف میں جانے پہ خبر واحد دلالت کرتی ہے، جیسا کہ آگے آئے گااور یہ سب بیداری میں جسم مبارک کے ساتھ تھا۔ (نسیم الریاض شرح الشفاء لقاضی عیاض، جلد2، صفحہ269، مطبوعہ،ملتان)
نسیم الریاض میں مزید لکھا ہے:
’’(ذھب معظم السلف والمسلمین) عطف للعام علی الخاص، وفیہ اشارۃ الی ان خلافہ لا ینبغی لمسلم اعتقادہ ( الی انہ اسراء بالجسد (مع الروح) وفی الیقظۃ‘‘
ترجمہ: (اکابر علماء و مسلمین اس طرف گئے ہیں ) یہ عام کا خاص پر عطف ہے اور اکابر علماء و مسلمین کہنے میں اس طرف اشارہ ہے کہ اس کے خلاف کا اعتقاد رکھنا کسی مسلمان کو زیب نہیں دیتا۔ (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حالت بیداری میں جسم اور روح مبارک کے ساتھ سیر فرمائی )۔(نسیم الریاض شرح الشفاء لقاضی عیاض، جلد2، صفحہ267، مطبوعہ ملتان)
النبراس میں ہے :
’’والمعراج لرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی الیقظۃ بشخصہ الی السماء، ثم الی ما شاء اللہ تعالی من العلی حق ای ثابت بالخبر المشھور حتی ان منکرہ یکون مبتدعاً،۔۔ فالاسراء ھو من المسجد الحرام الی البیت المقدس قطعی ای یقینی ثبت بالکتاب ای القرآن ویکفر منکرہ۔۔ الخ‘‘
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معراج بیداری کے عالم میں جسم اقدس کے ساتھ آسمانوں کی طرف ہوئی، پھر آگے جہاں تک اللہ تعالیٰ نے چاہا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا تشریف لے جانا خبرِ مشہور سے ثابت ہے، حتی کہ اس کا منکر بدعتی ہے ۔۔ مسجد حرام سے بیت المقدس تک کی سیر قطعی یقینی اور کتاب اللہ سے ثابت ہے، اور اس کا منکر کافر ہے۔(النبراس، صفحہ 292 تا 295، مطبوعہ پشاور)
فتاوی رضویہ میں ہے:
’’معراج شریف یقیناً قطعاً اسی جسم مبارک کے ساتھ ہوئی نہ کہ فقط روحانی، جو ان کی عطا سے ان کے غلاموں کو بھی ہوتی ہے، اللہ عزوجل فرماتا ہے: ﴿ سُبْحٰنَ الَّذِیْٓ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلًا ﴾ ( یعنی ) پاکی ہے اسے جو رات میں لے گیا اپنے بندہ کو، یہ نہ فرمایا کہ لے گیا اپنے بندہ کی روح کو۔‘‘ ( فتاوی رضویہ، جلد15، صفحہ 74، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
مقالات کاظمی میں ہے:
’’جمہور علماء، صحابہ، تابعین و تبع تابعین اور ان کے بعد محدثین و فقہا اور متکلمین سب کا مذہب یہ ہے کہ اسراء اور معراج دونوں بحالت بیداری اور جسمانی ہیں اور یہی حق ہے۔‘‘ (مقالات کاظمی، جلد1، صفحہ114، مکتبہ ضیائیہ، راولپنڈی)
فتاوی رضویہ میں سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ اسی موضوع پر کلام کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’ان عظیم وقائع نے معراج مبارک کا جسمانی ہونا بھی آفتاب سے زیادہ واضح کردیا، اگر وہ کوئی روحانی سیر یا خواب تھا تواس پر تعجب کیا؟ زید و عمر و خواب میں حرمین شریفین تک ہو آتے ہیں اور پھر صبح اپنے بستر پر ہیں۔ رؤیا کے لفظ سے استدلال کرنا اور ﴿اِلَّا فِتْنَۃً لِّلنَّاسِ﴾ نہ دیکھنا صریح خطا ہے۔ رؤیا بمعنی رویت آتا ہے اور فتنہ و آزمائش بیداری ہی میں ہے نہ کہ خواب میں، ولہذا ارشاد ہوا: ﴿ سُبْحٰنَ الَّذِیْٓ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلًا ﴾ ( یعنی ) پاکی ہے اسے جو اپنے بندے کو لے گیا ۔‘‘ (فتاوی رضویہ، جلد29، صفحہ635، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
واللہ ورسولہ اعلم عزوجل وصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کتبہ
بابر عطاری مدنی اسلام آباد
21رجب المرجب1445ھ/ 2فروری2024ء