مشتینی ذبیحہ پاک ہے یا ناپاک اور ایسا گوشت جانوروں کو کھلانا

مشتینی ذبیحہ پاک ہے یا ناپاک اور ایسا گوشت جانوروں کو کھلانا

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ (1)مشینی ذبیحہ توحرام ہے،کیا مشینی ذبیحہ کا گوشت ناپاک شمار ہوگایا گوشت پاک ہوگا ؟اگر ایسا گوشت بریانی یا قورمہ وغیرہ میں ہو تو گوشت چھوڑ کر فقط شوربہ یا چاول وغیرہ کھاسکتے ہیں؟ (2)مشینی ذبیحہ والا گوشت پھینکنے کی بجائے کسی جانور کو کھلاسکتے ہیں یانہیں؟

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

الجواب بعون الوہاب اللہم ہدایۃالحق والصواب

(1)مشین کے ذریعےجانور اگر اس طرح ذبح ہو کہ تین رگیں کٹ جائیں تواس جانور کا (سوائے خنزیرکے)گوشت پاک ہے البتہ اس کاکھانا حرام ہے۔اس مسئلہ کی نظیر کتب فقہ میں موجود وہ جزئیات ہیں جس میں کافر اور قصدا تسمیہ ترک کرنے والے کے ذبیحہ کو پاک کہا گیا ہے۔ایسا گوشت اگر کھانے میں ہو تو گوشت چھوڑ کر بقیہ کھانا بھی نہیں کھاسکتے کہ گوشت کے اجزا واثرات کھانے میں شامل ہوتے ہیں۔

حاشیۃ الطحطاوی میں ہے

” نقل في البحر من كتاب الطهارة عن الدراية والمجتبى والقنية أن ذبح المجوسي وتارك التسمية عمدا يوجب الطهارة على الأصح وإن لم يؤكل “

ترجمہ:نقل کیا گیا بحر کی کتاب الطہارت میں درایہ،مجتبیٰ اور قنیہ سے کہ مجوسی اور قصدا تسمیہ ترک کرنے والے کا ذبیحہ اصح قول کے مطابق طہارت کو ثابت کرتا ہے اگرچہ اس کو کھایا نہیں جائے گا۔( حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح، فصل: يطهر جلد الميتة،صفحہ169،دار الكتب العلمية،بيروت)

اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں:

”واگرازیں ہم گزریم وفرض کنیم کہ ذابح معاذ اللہ بہ نیت عبادت غیر کشت ومرتد گشت تاازینہم آنچہ لازم آید حرمت ذبیحہ است نہ نجاست پوست کہ نزد امام قاضی خان مذہب ارجح آنست کہ ذبح مطلقاً تطہیر جلد میکند اگرچہ ذابح مرتد یا مجوسی باشد۔ دربحرالرائق ست قد قدمنا عن معراج الدرایۃ معزیا المجتبی ان ذبیحۃ المجوسی وتارک التسمیۃ عمدا توجب الطھارۃ علی الاصح وان لم یکن ماکولا وکذا نقل صاحب المعراج فی ھذہ المسئلۃ الطھارۃ عن القنیۃ ایضا ھنا ویدل علی ان ھذا ھو الاصح ان صاحب النھایۃ ذکر ھذا الشرط بقیل معزیا الی فتاوی قاضی خان“اس کو بھی اگر چھوڑیں اور ہم فرض کرلیں کہ معاذاللہ کہ ذبح کرنے والے نے غیر اللہ کی عبادت کی نیت سے جانور کو کاٹا اور وہ مرتد ہوگیا تب بھی جانور حرام ہوگا مگر اس کا چمڑا نجس نہ ہوگا، امام قاضی خان کے نزدیک راجح بات یہی ہے کہ ذبح مطلقاً چمڑے کو پاک کردیتا ہے خواہ ذبح کرنے والا مرتد یا مجوسی ہو۔ بحرالرائق میں ہے کہ مجتبیٰ کی طرف منسوب کرتے ہوئے ہم نے معراج الدرایہ سے پہلے نقل کیا ہے کہ مجوسی یا قصداً بسم اللہ نہ پڑھنے والے کا ذبیحہ بھی پاک ہے اگرچہ وہ کھایا نہیں جائے گا، یہی اصح ہے۔ نیز صاحبِ معراج نے بھی اس مسئلہ کو قنیہ سے نقل کیا اور کہا کہ پاک ہے۔ اس کے اصح ہونے پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ صاحبِ نہایہ نے اس شرط کو قیل کے ساتھ ذکر کیا اور اس کو قاضی خان کی طرف منسوب کیا ہے۔“ (فتاویٰ رضویہ،جلد3،صفحہ257۔۔،رضافاؤنڈیشن،لاہور)

(2)مشینی ذبیحہ والا گوشت کسی جانورکو کھلاسکتے ہیں۔شرعایہ ضروری نہیں کہ جو کھانا انسانوں کے لیے حرام ہو وہ جانوروں کے لیے بھی حرام ہو۔کتب فقہ سے یہ ثابت ہے کہ جو چیز حرام لعینہ ہو جیسے شراب اورمردار، وہ چیز انسان و جانور سب کے لیے کھانا حرام ہے اور جو چیز کسی وجہ سے ناپاک ہوجائے یا پاک ہو لیکن انسان کے لیے کھانا حرام ہے جیسا کہ مشینی ذبیحہ تو وہ جانور کو کھلاسکتے ہیں۔ہاں بعض علماء نے نجس چیزکو ماکول اللحم جانوروں کے لیے ناجائز قرار دیا ہے۔

ہدایہ میں شراب کے متعلق فرمایا گیا

”حرمۃ الانتفاع بہا؛ لأن الانتفاع بالنجس حرام“

ترجمہ: شراب سے انتفاع حرام ہے۔اس لئے کہ نجس سے انتفاع حرا م ہے۔

اس کی شرح میں صاحب عنایہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں

”(حرمۃ الانتفاع بہا)یرید التداوی بالاحتقان وسقی الدواب والإقطار فی الإحلیل“

ترجمہ: شراب سے انتفاع کی حرمت سے مراد حقنہ کے ذریعے علاج معالجہ کرنا ہے اور جانوروں کو پلانا،شراب کے قطرے شرمگاہ میں ٹپکاناہے (سب ناجائز ہے۔)(العنایۃ شرح الہدایۃ،کتاب الاشربۃ، جلد10،صفحہ96، دارالفکر،بیروت)

ہندیہ میں ہے

” لا يجوز الانتفاع بالميتة على أي وجه ولا يطعمها الكلاب والجوارح كذا في القنية “

ترجمہ:مردار سے کسی طرح کا بھی انتفاع جائز نہیں اور اسے کتوں اور شکاری جانوروں کو بھی نہیں کھلایا جاسکتا جیسا کہ قنیہ میں ہے۔(الفتاوٰی الہندیۃ، كتاب الكراهية ، الباب الثاني عشر في الهدايا والضيافات ،جلد5،صفحہ344،دارالفکر،بیروت)

احکام القرآن میں امام جصاص رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں

”وقد حرم الله الميتة تحريما مطلقا“

ترجمہ:اللہ عزوجل نے مردار کو مطلقا حرام کیا ہے۔(احکام القرآن للجصاص،جلد1،صفحہ130،دارالکتب العلمیہ،بیروت)

حاشیۃ الشلبی میں ہے

” (قوله وكذا لا يسقيها الدواب) كان أبو الحسن الكرخي يحكي عن أصحابنا أنه لا يحل للإنسان النظر إلى الخمر على وجه التلهي ولا أن يبل بها الطين ولا أن يسقيها للحيوان وكذلك الميتة لا يجوز أن يطعمها كلابه؛ لأن في ذلك انتفاعا والله تعالى حرم ذلك تحريما مطلقا معلقا بأعيانها وسئل عن الفرق بين الزيت تموت فيه الفأرة وبين الخمر في جواز الانتفاع بالزيت في غير جهة الأكل وامتناع الانتفاع بالخمر من سائر الوجوه فكان يحتج في الفرق بينهما بأن الخمر محرمة العين وأن الزيت غير محرم العين“

ترجمہ:ان کا فرمانا کہ شراب جانوروں کو بھی نہ پلائی جائے۔امام ابوالحسن کرخی ہمارے اصحاب سے حکایت کرتے ہیں کہ انسان کے لیے خمر کی طرف لہو و لعب کے طو ر پر نظر کرنا حلال نہیں اور نہ ہی مٹی گیلی کرنے کے لیے اس کااستعمال حلال ہے اور نہ ہی حیوان کو پلانا حلال ہے۔یونہی مردار کتوں کو کھلانا جائز نہیں۔ اس لیے کہ یہ انتفاع ہے اور اللہ عزوجل نے مطلقااسے عین کے ساتھ حرام کیا ہے۔پوچھا گیا کہ زیتون جس میں چوہا مر جائے اور خمر میں کیا فرق ہے کہ ناپاک زیتون سے انتفاع کھانے کے علاوہ جائز ہے اور شراب سے ہر صورت منع ہے تو اس میں فرق اس طور پر ہوگا کہ شراب عین حرام ہے اور زیتون لغیرہ حرام ہے۔( تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشِّلْبِيِّ،فصل فی طبخ العصیر، كتاب الأشربة،جلد6،صفحہ49،المطبعة الكبرى الأميرية ، القاهرة)

فتاویٰ قاضی خان میں ہے

”ولا يجوز بيع لحم ما لا يؤكل لحمه ولا بيع جلده إن كانت ميتة وإن كانت مذبوحة فباع لحمه أو جلده جاز لأنه يطهر بالذكاة حتى لو وقع في الماء القليل لا يفسده وتجوز الصلاة معه هو المختار ويباح الانتفاع به بأن يأكل سنور أو ما أشبه ذلك “

ترجمہ:جن جانوروں کا گوشت کھایا نہیں جاتا ان کا گوشت اور کھال بیچنا جائز نہیں جبکہ وہ مردہ ہوں ۔ اگر وہ مذبوحہ ہوتو گوشت اورکھال بیچنا جائز ہے کیونکہ ذبح سے وہ پاک ہوگیا۔اگروہ مذبوحہ جانور تھوڑے پانی میں گر جائے تو پانی فاسد نہ ہوگا اور اس مختار مذہب کے مطابق اس پانی سے نماز جائز ہے۔اس جانور کے گوشت سے انتفاع مباح ہے جیسے بلے یا اس کے مثل جانوروں کو کھلا دیا جائے۔(الفتاویٰ الخانیۃ ہامش علی الہندیۃ،کتاب البیوع،باب بیع الفاسد،ٍجلد2،ٍصفحہ153،مکتبۃ ،کوئٹہ)

درمختار میں ہے

”(ويحكم بنجاستها) مغلظة (من وقت الوقوع إن علم، وإلا فمذ يوم وليلة إن لم ينتفخ ولم يتفسخ) وهذا (في حق الوضوء) والغسل؛ وما عجن به فيطعم للكلاب“

ترجمہ:نجاست مغلظہ کے سبب پانی کی ناپاکی کا حکم اس وقت ہوگا جب اس کے وقوع کا علم ہوجائے ورنہ ایک دن اور ایک رات گزرنے کے بعد ہوگا اگر وہ چیز پھول ،پھٹ نہ گئی ہو۔یہ حکم وضو اور غسل میں ہے اور جو اس پانی سے آٹا گوندھا گیا وہ کتوں کو کھلا دیا جائے۔(درمختار مع ردالمحتار،کتاب الصلوٰۃ،فصل فی البئر،جلد1،صفحہ218،دارالفکر،بیروت)

اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں:

”کَرسی(اُپلے کا ٹکڑا) تر کھانے جیسے شوربے کو ناپاک کردے گی اور جس میں ایسی تری نہ ہو جیسے چاول، اگر پک جانے کے بعد گری تو اس کے پاس کے دانے جُدا کردیے جائیں اور اگر جس وقت پانی تھا اُس وقت گری تو سب ناپاک ہے جانور کو کھلا دے۔ اور مینگنی اگر بکری کی ہے تو اس کا یہی حکم ہے اور چُوہے کی ہے اور ناج مثلاً روٹی یا دلیے یا دال پلاؤ کھچڑی میں نکلی تو معاف ہے جبکہ اتنی نہ ہوکہ اس کا مزہ کھانے میں آگیا ہو اور اگر شوربے دار سالن میں نکلی تو اسے نہ کھانا چاہئے واللہ تعالیٰ اعلم۔“(فتاویٰ رضویہ،جلد4،صفحہ567،رضافاؤنڈیشن،لاہور)

مفتی احمد یارخان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

”یوں ہی نجس شہد،نجس دودھ،نجس کھانا جانور کو کھلا دینا جائز ہے مگر مردار کی چربی ان میں سے کسی جگہ خرچ نہیں کرسکتے۔“

(مرأۃ المناجیح،جلد4،صفحہ232،نعیمی کتب خانہ،گجرات)

بہارشریعت میں ہے:

”کھانا ناپاک ہوگیا تو یہ جائز نہیں کہ کسی پاگل یا بچہ کو کھلائے یا کسی ایسے جانور کو کھلائے جس کا کھانا حلال ہے۔“ (بہارشریعت،حصہ 16،صفحہ393،مکتبۃ المدینہ ،کراچی)

ہندیہ میں ہے

”إذا تنجس الخبز أو الطعام لا يجوز أن يطعم الصغير أو المعتوه أو الحيوان المأكول اللحم “

ترجمہ:جب روٹی یا کھانا ناپاک ہوجائے تو اس کھانے کو چھوٹے بچے یا معتوہ یا ماکول اللحم(جن کا گوشت کھایا جاتا ہے) جانور کو کھلانا جائز نہیں۔(الفتاوٰی الہندیۃ، كتاب الكراهية ، الباب الثاني عشر في الهدايا والضيافات ،جلد5،صفحہ344،دارالفکر،بیروت)

واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم

کتبـــــــــــــــــــــــــــہ

ابو احمد مفتی محمد انس رضا قادری

04جمادی الاول 1445ھ18دسمبر 2023ء

اپنا تبصرہ بھیجیں