مسافر کا تراویح چھوڑنا

مسافر کا تراویح چھوڑنا

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس بارے میں کہ مسافر کو روزہ چھوڑنے کی تو اجازت ہے ،لیکن اس کے لیے تراویح کا کیا حکم ہوگا؟

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایہ الحق والصواب

صورت مستفسرہ کے مطابق نماز کی سنتوں کے حوالے سے اصول یہ ہے اگر بس یا ٹرین نکلنے کا خوف نہ ہو یا کسی اور طرح کے مسائل نہ ہوں اور وہ حالت امن وسکون میں ہو تو نماز سنن ادا کرے گا کہ لیے سنن میں قصر نہیں ہے ۔اگر سواری کے نکل جانے کا خوف ہو یا امن کی حالت میں نہ ہو تو سنن چھوڑ سکتا ہے، البتہ بہتر یہی ہے کہ حتی المقدور اس سنن کو ادا کیا جائے جب تک کہ شدید عذر نہ ہو ۔ تراویح چونکہ سنت مؤکدہ ہے لہذا اس کا بھی یہی حکم ہے اور تراویح ایک مستقل عبادت ہے روزے سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

فتاوی عالمگیری میں ہے

”و بعضھم جوزوا للمسافر ترك السنن، و المختار انہ لایاتی بھا فی حال الخوف، و یاتی بھا فی حال القرار و الامن ھکذا فی الوجیز الکردری“

یعنی بعض فقہائے کرام نے مسافر کیلئے سنتوں کو چھوڑنا جائز قرار دیا ہے اور مختار یہ ہے کہ خوف کی حالت میں سنتیں ادا نہ کرے، اور قرار (سکون) اور امن کی حالت میں سنتوں کو ادا کرے، ایسے ہی “وجیز کردری” میں ہے۔(فتاوی عالمگیری ،جلد 1، صفحہ 139، مکتبہ دارالفکر بیروت)

بحر الرائق میں ہے

”وقال الھندوانی : الفعل حال النزول والترك حال المسیر، و فی التجنیس والمختار انہ ان کان حال امن و قرار یاتی بھا، لانھا شرعت مکملات،والمسافر الیہ محتاج“

یعنی امام ہندوانی علیہ الرحمۃ نے فرمایا : پڑاؤ کی حالتِ میں سنتیں ادا کرنا اور چلنے کی حالت میں سنتیں کو چھوڑنا ہے۔ اور “تجنیس” میں ہے : مختار یہ ہے کہ اگر وہ (مسافر) امن اور قرار کی حالت میں ہو تو وہ سنتوں کو ادا کرے کیونکہ سنتوں کو (فرضوں کی) تکمیل کرنے والی کے طور پر مشروع کیا گیا ہے حالانکہ مسافر اس (تکمیل) کی جانب محتاج ہے۔(البحرالرائق، جلد 2 ،صفحہ 130، دار المعرفۃ بیروت)

ردالمختار میں ہے

”وياتى المسافر بالسنن ان كان فى حال امن وقرار والا بان كان فى خوف وفرار لا ياتى بها وقوله وياتى المسافر بالسنن أي الرواتب“

ترجمہ:اور مسافر سنن ادا کرے گا اگر وہ امن وقرار میں ہو اور اگر ایسا نہ ہو کہ وہ خوف و فرار میں ہو وہ سنن کو ادا نہیں کرے گا اور مسافر سنن ادا کرے گا سے مراد سنن مؤکدہ ہیں ۔(ردالمختار ، جلد 3 ، صفحہ 737، دار الکتب العلمیہ بیروت)

حلبی کبیر میں ہے

”ویرخص للمسافرترک السنن وقیل لا والاعدل ماقالہ الھندوانی ان فعلھا افضل حالۃ النزول والترک افضل حالۃ السیر الا سنۃ الفجر“

یعنی مسافر کیلیے سنتوں کو چھوڑنے کی رخصت ہے اور بعض علماء نے کہا کہ سنتیں چھوڑنے کی رخصت نہیں اور سب سے زیادہ انصاف والی بات وہ ہے جو امام ہندوانی علیہ الرحمۃ نے فرمائی کہ اس (مسافر) کا نزول (منزلِ مقصود پر ٹھہرنے) کی حالت میں سنتوں کو ادا کرنا افضل ہے اور سیر (چلنے) کی حالت میں سنتوں کو چھوڑنا افضل ہے سوائے فجر کی سنتوں کے۔(حلبی الکبیر ،صفحہ 244، مطبوعہ بیروت)

بہار شریعت میں ہے :

”سُنّتوں میں قصر نہیں بلکہ پوری پڑھی جائیں گی البتہ خوف اور رواروی کی حالت میں معاف ہیں اور امن کی حالت میں پڑھی جائیں ۔“(بہار شریعت ، جلد 1 ، حصہ 4، صفحہ 749، مکتبہ المدینہ کراچی)

مسافر کی نماز میں شیخِ طریقت امیرِ اہلسنت حضرت علامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطار قادری رضوی دامت برکاتھم العالیہ تحریر فرماتے ہیں:

”سنتوں میں قصر نہیں بلکہ پوری پڑھی جائیں گی، خوف اور رواروی (یعنی بھاگم بھاگ ، گھبراہٹ) کی حالت میں سنتیں معاف ہیں اور امن کی حالت میں پڑھی جائیں گی۔“(مسافر کی نماز ،صفحہ 13، مکتبۃ المدینہ کراچی)

مجمع الانہر شرح ملتقی الابحر میں ہے

”( التراويح سنة مؤكدة) للرجال والنساء جميعا( في كل ليلة من رمضان بعد العشاء ۔ ۔ ۔عشرون ركعة)“

ترجمہ:رمضان المبارک کی ہر رات میں عشاء کے بعد تراویح کی نماز بیس رکعت ، مرد و عورت سب کے لئے سنت مؤکدہ ہے ۔(مجمع الانہر شرح ملتقی الابحر،کتاب الصلاۃ،فصل فی التراویح،ج 1،ص 135، دار إحياء التراث العربي،بيروت)

بہار شریعت میں ہے:

” تراویح مرد و عورت سب کے ليے بالاجماع سنت مؤکدہ ہے۔“ (بھار شریعت، جلد1، حصہ4، صفحہ688، مکتبۃ المدینہ)

واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم

کتبـــــــــــــــــــــــــــہ

ممبر فقہ کورس

10رمضان المبارک1445ھ21مارچ 2024ء

نظر ثانی:

مفتی محمد انس رضا قادری

اپنا تبصرہ بھیجیں