قعدہ اولی بھول کر کھڑا ہوگیا اور پھر لوٹا

قعدہ اولی بھول کر کھڑا ہوگیا اور پھر لوٹا

کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس بارے میں کہ اگر امام عصر کی نماز میں دوسری رکعت پر نہ بیٹھا، قعدۂ اولیٰ بھول کر سیدھا کھڑا ہو گیا اب کسی نے لقمہ دیا اور امام نے اس کا لقمہ قبول کر لیا تو کیا نماز ہو جائے گی؟ اور اگر امام سیدھا کھڑا نہ ہوا ہو بلکہ کھڑے ہونے کے قریب ہو یا بیٹھنے کے قریب ہو تو اب لقمہ دینے اور امام کے قبول کرنے کا کیا حکم ہوگا؟

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق وا لصواب

پوچھی گئی صورت میں اگر امام قعدۂ اولی بھول گیا اور دوسری رکعت پر بیٹھنے کے بجائے مکمل کھڑا ہو گیا تو اب اسے لوٹنا جائز نہیں، اور قعدۂ اولی(واجب)چھوٹنے کے سبب سجدۂ سہو واجب ہو گیا۔ اور اس صورت میں لقمہ دینے کا محل و موقع نہیں، لہذا غیر محل میں لقمہ دینے والے کی نماز گئی اور اگر امام نے لقمہ لے لیا تو امام کی بھی گئی اور سب مقتدیوں کی بھی نماز فاسد ہو گئی۔

اور اگر کھڑا ہونے کے قریب تھا یعنی نچلا دھڑ(ٹانگیں) سیدھی تھیں اور کمر(پیٹھ) میں خم (جھکاؤ) ہے، تو اس صورت میں اختلاف ہے، ایک قوی قول یہ ہے کہ اس صورت میں سجدہ سہو واجب ہو چکا اور واپس لوٹنا جائز نہیں، لہذا اس قول کے مطابق مقتدی کا لقمہ دینا جائز نہیں۔ اور لقمہ دینے سے دینے والے کی، اور قبول کرنے سے امام اور تمام نمازیوں کی نماز فاسد ہو جائے گی۔ دوسرا قول یہ ہے کہ امام کو قعدے کی طرف لوٹنے کا حکم ہے اور سجدہ سہو واجب ہوچکا، یہی قول ظاہر الروایہ،اصح و راجح ہے، اور فتوی و عمل اسی پر ہے۔ اس مفتی بہ قول کے مطابق امام کو جب لوٹنے کا حکم ہے تو مقتدی کا لقمہ دینا اور امام کا اس کو قبول کر کے بیٹھنا درست ہوا، لہذا اس صورت میں کسی کی نماز فاسد نہیں ہوگی، البتہ سجدہ سہو واجب ہے۔

اور اگر امام بیٹھنے کے قریب ہے، نچلا حصہ یعنی ٹانگیں سیدھی نہیں ہوئیں، تو بالاتفاق واپس لوٹنے کا حکم ہے اور اس صورت میں مذہب اصح، و راجح قول کے مطابق سجدہ سہو واجب نہیں۔ لہذا اس صورت میں مقتدی کا لقمہ دینا اور امام کا لقمہ لینا دونوں درست ہیں۔

اور اگر مقتدی نے اس وقت لقمہ دیا کہ امام ابھی مکمل سیدھا نہ کھڑا ہوا تھا کہ اتنے میں پورا سیدھا ہوگیا، اس کے بعد لوٹا تو مذہب اصح میں نماز ہو تو سب کی گئی مگر مخالفت حکم کے سبب مکروہ تحریمی واجب الاعادہ ہوئی یعنی دوبارہ پڑھنا واجب ہے، کیونکہ سیدھا کھڑا ہونے کے بعد قعدۂ اولیٰ کے لئے لوٹنا جائز نہیں۔

المحيط البرهاني میں ہے:

”لو ترك القعدة الأولى ثم تذكر بعدما استتم قائما، فإنه لا يعود؛ لأن القيام مشروع نفسه، فإذا وجد أدنى ما يطلق عليه اسم القيام تم الركن في نفسه، فلو عاد إلى القعدة يصير رافضا للركن بعد التمام لمكان الواجب، وهذا لا يجوز“

اگر پہلا قعدہ چھوڑا پھر پورا کھڑا ہونے کے بعد یاد آیا تو واپس نہ لوٹے کیونکہ قیام خود مشروع ہے اور جب اس کا ادنی حصہ پایا گیا جس پر قیام کا اطلاق ہوتا ہے تو فی نفسہ رکن پورا ہو گیا تو اگر قعدے کی طرف پلٹے تو رکن کو پورا ہونے کے بعد واجب کے سبب چھوڑنے والا ہو گا جبکہ ایسا کرنا جائز نہیں۔( المحيط البرهاني الفصل السابع عشر في سجود السهو ج1 ص499 دار الکتب العلمیہ بیروت)

تنوير الأبصار مع الدرالمختار میں ہے:

”(سھاعن القعود الاول من الفرض ثم تذکرہ عاد الیہ) وتشھد ولا سھو علیہ فی الاصح(ما لم یستقم قائماً) فی ظاھر المذھب وھو الاصح فتح۔(والا)ای:وان استقام قائما(لا) یعود لاشتغالہ بفرض القیام (وسجد للسھو) لترک الواجب (فلو عاد الی القعود) بعد ذلک (تفسد صلاتہ) لرفض الفرض لما لیس بفرض وصححہ الزیلعی (وقیل: لا)تفسد لکنہ یکون مسیئا ویسجدلتاخیرالواجب (وھوالاشبہ) کماحققہ الکمال وھوالحق بحر۔ملخصا“

امام فرض کے پہلے قعدے سے بھول جائےپھر اسے یاد آجائے تو قعدے کی طرف لوٹ آئے اور تشہد پڑھے اور اصح قول کے مطابق اس پر (سجدہ) سہو نہیں جب تک کہ سیدھا کھڑا نہ ہو ظاہر مذہب کے مطابق ،اور یہی اصح ہے۔فتح۔ اور اگر وہ سیدھا کھڑا ہو گیاتووہ نہ لوٹے قیام کے فرض میں اس کے مشغول ہونے کی وجہ سے اور سجدہ سہو کرے واجب کے ترک کی وجہ سے ،اور اگر اس (سیدھا کھڑا ہونے) کےبعد قعدہ کی طرف لوٹاتو اس کی نماز فاسد ہوجائے گی فرض کو ایسی چیز کی وجہ سے چھوڑنے کے سبب جو کہ فرض نہیں اور زیلعی نے اس کو صحیح قرار دیا اور کہا گیا نماز فاسد نہیں ہوگی لیکن گناہگار ہوگا اور وہ سجدہ (سہو)کرے گا واجب کی تاخیرکی وجہ سے۔اور یہی مختارہے جیساکہ کمال نےاس کی تحقیق کی اور یہی حق ہے ۔بحر۔ (الدرالمختار مع ردالمحتار،باب سجود السهو،ج2، ص83- 84، دار الفكر بيروت)

رد المحتار میں ہے:

”قولہ:(ولا سھو علیہ فی الاصح)یعنی اذا عاد قبل ان یستتم قائماًو کان الی القعود اقرب فانہ لا سجود علیہ فی الاصح و علیہ الاکثر،واختار فی الولوالجیۃ وجوب السجود،اما اذا عاد وھو الی القیام اقرب فعلیہ سجود السھو کما فی نورالایضاح و شرحہ بلا حکایۃ خلاف فیہ و صحح اعتبار ذلک فی الفتح بما فی الکافی ان استوی النصف الاسفل و ظھرہ بعد منحن فھو اقرب الی القیام و ان لم یستو فھو اقرب الی القعود“

مصنف علیہ الرحمہ کا قول:(اور اس پر سجدہ سہو نہیں اصح قول کے مطابق) ان کی مراد یہ ہے کہ جب وہ سیدھا کھڑا ہونے سے پہلے لوٹے اور قعود کے زیادہ قریب ہو کیونکہ اس پر اصح قول کے مطابق کوئی سجدہ نہیں اور اسی پر اکثر ہیں اور ولوالجیہ میں سجدےکے وجوب کو اختیارفرمایا،بہرحال جب وہ لوٹے اس حال میں کہ وہ قیام کے زیادہ قریب ہو تو اس پر سجدہ سہو ہے جیسا کہ نور الایضاح اور اس کی شرح میں کسی اختلاف کی حکایت کے بغیر ہے اور فتح القدیر میں اس کے اعتبار کو صحیح قرار دیا اس کی وجہ سے جو کافی میں ہے کہ اگر نیچے (والےبدن کا) آدھا (حصہ)سیدھا ہو جائے اور اس کی پیٹھ اس کے بعد جھکی ہوئی ہو تو وہ قیام کے زیادہ قریب ہے اور (نیچے والا آدھا حصہ)سیدھا نہ ہوا ہو تو وہ قعود کے زیادہ قریب ہے۔(ردالمحتار،باب سجود السهو، ج2، ص83- 84، دار الفكر بيروت)

اسی میں ہے:

”قولہ:(فی ظاھر المذھب) مقابلہ ما فی الھدایۃ:ان کان الی القعود اقرب عاد الیہ ولا سھو علیہ فی الاصح ولو الی القیام اقرب فلا و علیہ السھو وھو مروی عن ابی یوسف و اختارہ مشایخ بخاری و اصحاب المتون کالکنز و غیرہ و مشی فی نور الایضاح علی الاول کالمصنف تبعا لمواھب الرحمان و شرحہ البرھان۔ قال:و لصریح ما رواہ أبوداود عنہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم:اذا قام الامام فی الرکعتین فان ذکر قبل ان یستوی قائماً فلیجلس،وان استوی قائماً فلا یجلس و یسجد سجدتی السھو اھ“

مصنف علیہ الرحمہ کا قول:(ظاہر مذہب کے مطابق)اس کے مقابل وہ(قول) ہے جو ہدایہ میں ہے کہ:اگر قعود کے زیادہ قریب ہو تو اس کی طرف لوٹ آئے اور اصح قول کے مطابق اس پر (سجدہ) سہو نہیں اور اگر قیام کے زیادہ قریب ہو تو نہیں( لوٹے) اور اس پر (سجدہ) سہو ہے اور یہ امام ابو یوسف علیہ الرحمہ سے مروی ہے اور اسے بخاری کے مشایخ اور اصحاب متون، جیسے کنز اور ان کے علاوہ نے اختیار فرمایا ہے اور نور الایضاح میں پہلے قول پر چلے ہیں مصنف علیہ الرحمہ کی طرح مواہب الرحمان اور اس کی شرح برھان کی پیروی کرتے ہوئے۔انہوں نےفرمایا اور اس صریح (حدیث)کی وجہ سے جسے امام ابو داود علیہ الرحمہ نے نبی پاک صلی اللہ تعالی سے روایت کیا کہ :امام جب دو رکعتوں پر کھڑا ہوجائے تو اگر اسے سیدھا کھڑے ہونے سے پہلے یا د آجائے تو چاہیے کہ بیٹھ جائے،اور اگر سیدھا کھڑا ہو جائے تو نہ بیٹھے اور سہو کے دو سجدے کرے۔(رد المحتار ،باب سجود السهو، ج2، ص83- 84، دار الفكر بيروت)

مراقی الفلاح میں ہے:

”(و من سھا عن القعود الاول من الفرض عاد الیہ) وجوباً( مالم یستقم قائماً فی ظاھر الروایۃ وھو الاصح) کما فی التبیین، والبرھان والفتح لصریح قولہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم :”اذا قام الامام فی الرکعتین فان ذکر قبل ان یستوی قائماً فلیجلس و ان استوی قائماً فلا یجلس ،و یسجد سجدتی السھو رواہ ابو داود و فی الھدایۃ والکنز ان کان الی القیام اقرب لا یعود والا عاد۔ (فان عاد)من سھا عن القعود (وھو الی القیام اقرب سجد للسھو)لترک الواجب۔ملخصا“

ترجمہ:اور جو فرض کے پہلے قعدے سے کھڑا ہو جائے تو اس کی طرف وجوبی طور پر لوٹ آئے جب تک سیدھا کھڑا نہ ہو ظاہر الروایہ کے مطابق اور یہی اصح ہے، جیسا کی کہ تبیین، برہان اور فتح القدیر میں ہے نبی پاک صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے صریح فرمان کی وجہ سے کہ امام جب دو رکعتوں پر کھڑا ہو جائے تو اگر اسے سیدھا کھڑے ہونے سے پہلے یاد آجائے تو چاہیے کے بیٹھ جائے،اور اگر سیدھا کھڑا ہو جائے تو نہ بیٹھے اور سہو کے دو سجدے کرے۔اس حدیث پاک کو امام داود علیہ الرحمہ نے روایت کیا ہے۔ اور ہدایہ و کنز میں ہے اگر قیام کے زیادہ قریب ہو تو نہ لوٹے وگرنہ لوٹ آئے۔پس اگر لوٹ آیا وہ شخص جو قعود سے بھول چکا تھا اس حال میں کہ وہ قیام کے زیادہ قریب ہو تو سہو کا سجدہ کرے واجب کے ترک کی وجہ سے۔(مراقی الفلاح مع الطحطاوی، باب سجود السھو، ص466- 467، دار الکتب العلمیہ بیروت)

مراقی الفلاح کی عبارت”وھو الی القیام اقرب الخ”کے تحت حاشیہ طحطاوی میں ہے:

”ظاھرہ انہ ان لم یستو قائماً یجب علیہ العود ثم یفصل فی سجود السھو فان کان الی القیام اقرب سجد لہ، وان کان الی القعود اقرب لا،فحکم السجود متعلق بالقرب و عدمہ و حکم العود متعلق بالاستواء و عدمہ“

ترجمہ:اس کا ظاہر یہ ہے کہ اگر وہ سیدھا کھڑا نہ ہو تو اس پر لوٹنا واجب ہے پھر تفصیل کی جائے گی سجدہ سہو کے بارے میں ،پس اگر قیام کے زیادہ قریب ہو تو سہو کا سجدہ کرے گا ،اور قعود کے زیادہ قریب ہو تو(سجدہ سہو) نہیں (کرے گا)، لہذا سجدے کا حکم قیام کے قریب ہونے اور نہ ہونے سے متعلق ہے، اور لوٹنے کا حکم سیدھے ہونے اور نہ ہونے سے متعلق ہے۔(حاشیۃالطحطاوی علی المراقی، ص466، دار الکتب العلمیہ بیروت)

سیدی اعلی حضرت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں:

”اگر ابھی قعود سے قریب ہے کہ نیچے کا آدھا بدن ہنوز سیدھا نہ ہونے پایا جب تو بالاتفاق لوٹ آئے اور مذہب اصح میں اس پر سجدہ سہو نہیں اور اگر قیام سے قریب ہوگیا یعنی بدن کا نصف زیریں سیدھا اور پیٹھ میں خم باقی ہے تو بھی مذہب اصح و راجح میں پلٹ آنے ہی کا حکم ہے، مگر اب اس پر سجدہ سہو واجب۔“(فتاوی رضویہ،ج8، ص181، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)

سیدی اعلی حضرت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں:

”اگر امام ابھی پورا سیدھا کھڑا نہ ہونے پایا تھا کہ مقتدی نے بتایا اور وہ بیٹھ گیا تو سب کی نماز ہوگئی اور سجدہ سہو کی حاجت نہ تھی، اور اگر امام پورا کھڑا ہوگیا تھا اس کے بعد مقتدی نے بتایا تو مقتدی کی نماز اسی وقت جاتی رہی ،اور جب اس کے کہنے سے امام لوٹا تو اس کی بھی گئی اور سب کی گئی،اور اگر مقتدی نے اس وقت بتایا تھا کہ امام ابھی پورا سیدھا نہ کھڑا ہوا تھا کہ اتنے میں پورا سیدھا ہوگیا اس کے بعد لوٹا تو مذہب اصح میں نماز ہو تو سب کی گئی مگر مخالفت حکم کے سبب مکروہ ہوئی، کہ سیدھا کھڑا ہونے کے بعد قعدہ اولی کے لئے لوٹنا جائز نہیں، نماز کا اعادہ کریں خصوصاً ایک مذہب قوی پر نماز ہوئی ہی نہیں، تواعادہ فرض ہے۔“(فتاوی رضویہ،ج8، ص214، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)

فیضان فرض علوم میں ہے:

”اس صورت میں(یعنی امام ابھی بیٹھنے کے قریب تھا) مقتدی کے لقمہ دینے سے اس کی نماز فاسد نہ ہوئی لیکن امام کا کھڑا ہو کر لوٹنا ناجائز تھا جس کی سبب نماز مکروہ تحریمی، واجب الاعادہ ہوئی۔“(فیضان فرض علوم لقمہ کے مسائل جلد1 صفحہ 440 مکتبہ امام اہلسنت لاہور)

واللّٰہ تعالیٰ اعلم و رسولہ اعلم باالصواب

صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ و علی آلہ و اصحابہ و بارک و سلم

ابوالمصطفٰی محمد شاہد حمید قادری

23شعبان المعظم1445ھ

5مارچ2024ء، منگل

اپنا تبصرہ بھیجیں