عرف و تعامل اور عموم بلویٰ کے سبب شرعی مسائل میں رخصت

عرف و تعامل اور عموم بلویٰ کے سبب شرعی مسائل میں رخصت

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان کرام اس بارے میں کہ عموم بلوی،حرج و تعامل وغیرہ کے مسائل کی وجہ سے جو شریعت میں رخصت نکلتی ہے اس میں کونسے مسائل آتے ہیں؟ کیا ہر طرح کے مسئلہ میں جب لوگ مبتلا ہوجائیں تو اس میں رخصت نکل آئے گی؟

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الجواب بعوان الملک الوھاب اللھم ھدایہ الحق والصواب

صورت مسئولہ کے مطابق عموم بلوی ،حرج اور تعامل اس وقت معتبر ہوگا جب کہ قرآن وحدیث میں کسی نص قطعی یا نص صریح کے مخالف نہ ہو کیونکہ ان میں اجتھاد معتبر نہیں لہذا تو ایسے معاملات میں عموم بلوی حرج اور تعامل کی گنجائش نہیں اسی طرح اگر کسی کو سود چھوڑنے میں حرج ہو تو اس کی وجہ سے اس کی حرمت کا حکم ساقط نہیں ہوگا کیونکہ یہ نص قطعی کے مقابل ہے اسی طرح اگر کسی ملک میں یا ساری دنیا میں شراب نوشی عام ہوجائے جوئے اور سٹہ کا کاروبار عام ہوجائے لوگوں کا اس پر تعامل ہو قرض پر سود لیا جائے یا آزادی کے نام پر بےپردگی و بے حیائی کا دور دورہ ہو یا کوئی ناجائز شرعی رسم عام ہوجائے تو ان تمام معاملات پر عموم بلوی اور لوگوں کا تعامل اور ترک پر حرج شدید یا نقصان کی بناء پر حلت کے حکم کا صدور نہیں ہوگا۔

عموم بلوی حرج اور تعامل اگر نص ظنی کے مقابل ہو تو اس وجہ سے حدیث واحد کو بلکلیہ تو نہیں چھوڑ سکتے البتہ حدیث میں جس چیز کی تخصیص کی گئی ہے اور جس خاص صورت کو منع کیا گیا ہے اس کے علاوہ دیگر صورتوں پر عموم بلوی حرج اور تعامل کی بناء پر جواز کا فتویٰ دیا جاسکتا ہے جیساکہ بلخ کے فقہاء کرام نے قفیز الطحان سے ملتی جلتی صورت کو جیسے کپڑا بننے والے کو اسی سے ایک تہائی اجرت لینے کی اجازت دی تھی عرف اور تعامل الناس کی وجہ سے کیونکہ عرف و تعامل کی وجہ سے حدیث کو منسوخ تو نہیں کیا جاسکتا البتہ اس میں کچھ تخصیص کی جاسکتی ہے جیسے راستے کے کیچڑ کا معاف ہونا جب تک نجاست کا اثر نہ ہو اور تر نجاست کو رگڑنے سے پاک کرنا اور بیع سلم کے جواز کا حکم اور حرج کی بناء پر بلی کے جھوٹے کو مکروہ تنزیہی کہنے کا حکم۔

اور اس کے لیے دوسری شرط یہ ہے کہ اس میں واقعتا ضرورت متحقق ہو محض وہم کی بناء پر حکم نہیں دیا جاۓ گا۔

اسی طرح عموم بلوی یا حرج یا تعامل پر جاری کردہ حکم تب تک قائم رہے گا جب تک وہ عذر یا حرج موجود ہو جب وہ عذر ختم ہو جائے گا حکم بھی اٹھ جائے گا ۔

عموم بلوی ،حرج اور تعامل سے اخذ ہونے والے احکام کا فیصلہ اہل علم واہل فتویٰ حضرات کی رائے پر موقوف ہے اور جید مفتیان کرام اس میں تفکر اور باہمی مشورے سے فیصلہ کریں۔ ان کے لیے بھی ضروری ہے کہ مروج زمانہ عادات اور تعامل الناس سے واقف ہوں۔

مبسوط سرخسی اور تبیین الحقائق میں ہے

”وإِنما تعتبر البلوٰی فیما لیس فیہ نص بخلافہ فأما مع وجود النص لا معتبر بہ“

ترجمہ:عمومِ بلوٰی کا اعتبار وہاں کیا جائے گا جہاں اس کے خلاف کوئی نص موجود نہ ہو۔جہاں نص موجود ہو وہاں عمومِ بلوٰی کا اعتبار نہیں کیا جائے گا۔(مبسوط سرخسی جلد 4 صفحہ 10 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ تبیین الحقائق جلد 2 صفحہ 80 مطبوعہ بیروت)

غمز عیون الأبصار شرح کتاب الأشباہ والنظائر میں ہے

”وقال ابن نجیم: ولا اعتبار عندہ بالبلوٰی فی موضع النص، وقال الحموی: المشقة والحرج إنما یعتبران فی موضع لا نص فیہ، وأما مع النص بخلافہ فلا“

ترجمہ امام ابن نجیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں عموم بلوی اس جگہ معتبر نہیں جہاں نص موجود ہو اور امام حموی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں اور مشقت و حرج کا اعتبار وہاں ہوگا جہاں نص موجود نہ ہو اور ان کے مخالف پر نص موجود نہ ہو۔(غمز عیون الأبصار شرح کتاب الأشباہ والنظائر جلد 1 صفحہ 284 مطبوعہ بیروت)

فتح القدیر میں علامہ ابن ہمام رحمہ اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں:

وما قیل إن البلوٰی لاتعتبر فی موضع النص عنہ ،کبول الانسان ممنوع، بل تعتبر إذا تحققت، بالنص النافی للحرج وھو لیس معارضة للنص بالرأی“

اور کہا گیا کہ عموم بلوی نص کے مقابلے میں معتبر نہیں جیسا کہ بول انسان ممنوع ہے بلکہ اس کا اعتبار اس کے متحقق ہونے پر ہے اور نص حرج کے لیے منافی ہے اور یہ نص کا رائے کے مقابلے میں تعارض نہ ہو ۔(فتح القدیر جلد 1 صفحہ 189 مطبوعہ دار الفکر بیروت)

شرح عقود رسم المفتی میں ہے

”لو دفع إلی حائک غزلاً لینسجه بالثلث فمشایخ بلخ کنصیر بن یحیی ومحمد بن سلمة وغیرھما کانوا یجیزون ھذہ الإجارۃ فی الثیاب لتعامل أھل بلدھم فی الثیاب، والتعامل حجة یترک بہ القیاس ویخص بہ الأثر وتجوز ھذہ الإجارۃ فی الثیاب للتعامل بمعنی تخصیص النص الذی ورد فی قفیز الطحان، لأن النص ورد فی قفیز الطحان لا فی الحایک إلا أن الحایک نظیرہ فیکون واردًا فیہ دلالة فمتی ترکناالعمل بدلالة ھذا النص فی الحایک عملنا بالنص فی قفیز الطحان کان تخصیصًا لا ترکًا اصلاً وتخصیص النص بالتعامل جائز“

ترجمہ: اگر کسی نے کپڑا بننے والے کو کپڑا اس شرط پر دے دیا کہ اس کپڑے کی ایک تہائی مقدار کے بدلے میں اسے کپڑا بن دے گا تو بلخ کے مشائخ جیسے نظیر بن محمد یحییٰ،محمد بن سلمہ وغیرہ نے اس صورت کو جائز قرار دیا ہےکیونکہ ان کے شہر میں اس طرح معاملہ کرنے کا عام رواج تھااور تعامل ایک ایسی دلیل ہے جس کی وجہ سے قیاس کو ترک کیا جا سکتا ہے اور حدیث میں تخصیص کی جاسکتی ہے،لہذا تعامل کی وجہ سے کپڑوں کے اجارہ میں اس صورت کو جائز قرار دینے کا مطلب یہ ہوگا کہ قفیز الطحان سے متعلق وارد حدیث کے اندر تخصیص کردی گئی ہے کیونکہ حدیث قفیز الطحان سے متعلق ہے،کپڑے بننے سے متعلق نہیں،البتہ کپڑابننے کی صورت اس کی نظیرہے،اس لیے وہ حدیث دلالۃً اس کے بارے میں بھی ہوگی،لہذا ہم نے تعامل کی وجہ سے کپڑا بننے کے مسئلہ میں اس حدیث پر عمل نہیں کیا اور قفیز الطحان کے سلسلے میں اس حدیث پر عمل کیا تو یہ حدیث میں تخصیص ہوئی،حدیث کوبالکلیہ ترک کرنا نہ ہوا اور تعامل کی وجہ سےحدیث میں تخصیص کی جا سکتی ہے۔(شرح عقود رسم المفتی صفحہ 14)

ردالمختار میں ہے

”طین الشوارع عفو وإن ملأ الثوب للضرورۃ ولو مختلطاً بالعذرات وتجوز الصلاۃ معہ۔۔۔ والحاصل أن الذی ینبغی أنّہ حیث کان العفو للضرورۃ۔۔۔ وإلّا فلا ضرورۃ“

راستے کا کیچڑ پاک ہے اگر کپڑوں پر لگ جائے ضرورت کے تحت اور عذر کی بناء پر کہ اس سے بچنا ممکن نہیں اس میں نماز پڑھنا جائز ہے اور پس حاصل یہ ہے کہ ضرورت کی بناء پر اس کو معاف کر دیا گیا اور اس کے حکم میں تخفیف ہوگئی۔(ردالمختار باب الانجاس جلد 1 صفحہ 324 مطبوعہ بیروت۔)

فتح القدیر میں ہے

”وفی الرطب لایجوز حتّی یغسلہ، لأنّ المسح بالأرض یکثرہ ولایطھرہ، وعن ابی یوسفؒ أنّہ إذا مسحه بالأرض حتّی لم یبق اثرا لنجاسة یطھرلعموم البلوٰیٰ“

اور تر نجاست جائز نہیں ہے یہاں تک کہ اس کو دھولیا جائے پس اگر رگڑ دیا جاۓ اس کو زمین پر اور وہ کثیر ہو تو پاک نہیں ہوگی اور امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں جب(جوتے چمڑے کے موزے وغیرہ)کو رگڑ دیا جاۓ یہاں تک کہ نجاست کا اثر باقی نہ رہے تو وہ پاک ہوگا عموم بلوی کے تحت۔(فتح القدیر،کتاب الطھارۃ جلد 1 صفحہ 94 مطبوعہ کوئٹہ)

ردّالمحتار میں ہے

”وعلی قول أبی یوسف أکثر المشائخ وھو الأصح، المختار وعلیہ الفتوی لعموم البلوٰیٰ“

اسی کے تحت ہے کہ امام ابو یوسف کے قول پر فتویٰ ہے اکثر مشائخ کے نزدیک یہی صحیح ترین ہے یہی مختار ہے اور اسی پر فتویٰ ہے عموم بلوی کی وجہ سے ۔(ردالمختار جلد 1 صفحہ 310 مطبوعہ بیروت)

ردالمختار میں ہے

”إن کان الأصل فیہ الحرمة ،فإن سقطت لعموم البلوٰی فتنزیہ کسؤر الھرة وإلا فتحریم کلحم الحمار“

اور اس میں اصل حرمت ہے لیکن عموم بلوی کہ وجہ سے بلی کا جھوٹا مکروہ تنزیہی ہے اور سوائے گدھے کہ اس کا گوشت حرام ہے کہ اس میں یہ متحقق نہیں ۔(رد المحتار جلد 9 صفحہ 55 مطبوعہ بیروت)

البنایہ شرح الهدايه میں ہے

”أنه عَلَيْهِ السَّلَامُ:نهى عن بيع ما ليس عند الإنسان ورخص في السلم“

(آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس چیز کی خرید و فروخت سے منع فرمایا جو کہ انسان کے پاس موجود نہ ہو لیکن بیع سلم میں اجازت دی۔(البناية شرح الهداية،جلد 8، صفحہ 329 مطبوعہ دار الكتب العلمية، بيروت)

صحیح البخاری میں ہے

”قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ وَالنَّاسُ يُسْلِفُونَ فِي الثَّمَرِ الْعَامَ وَالْعَامَيْنِ أَوْ قَالَ عَامَيْنِ أَوْ ثَلَاثَةًشَکَّ إِسْمَاعِيلُ فَقَالَ مَنْ سَلَّفَ فِي تَمْرٍ فَلْيُسْلِفْ فِي کَيْلٍ مَعْلُوم وَوَزْنٍ مَعْلُومٍ“

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو لوگ اس وقت پھلوں میں ایک سال یا دو سال کی مدت پربیع سلم کرتے تھے یا یہ کہا کہ دو سال یا تین سال کی مدت پر سلم کرتے تھے(راوی اسماعیل کو شک ہوا،) آپ نےفرمایا: جو شخص کھجور میں بیع سلم کرے تو اسےچاہیے کہ معین ناپ اور مقررہ وزن میں ہو۔( صحیح البخاری جلد 3 حدیث 1227 صحیح مسلم، جلد3، صفحہ 85، حدیث: 2239 مطبوعہ کراچی)

رسائل ابن عابدین میں ہے

”قالوا فی شروط الاجتهاد: أنه لا بد فیه من معرفة عادات الناس، فکثیر من الأحکام تختلف باختلاف الزمان لتغیر عرف أهله ولحدوث ضرورۃ أو فساد أهل الزمان بحیث لوبقی الحکم علی ما کان علیه اوّلا، للزم منه المشقۃ والضرر بالناس، ولخالف قواعد الشریعة المبنیة علی التخفیف والتیسیر ودفع الضرر والفساد“

اجتہادکے شرائط میں فقہاءیہ شرط بھی بیان کرتے ہیں کہ اجتہادمیں لوگوں کی عادات کوسمجھناضروری ہے، کیونکہ زمانے میں تبدیلی کے ساتھ بہت سے احکام تبدیل ہو جاتے ہیں۔ اِس کے متعدد وجوہ ہو سکتے ہیں، مثلاً: اس زمانے کے لوگوں کے رسم و رواج کی تبدیلی ضرورت کا اقتضا، یا لوگوں کے احوال میں اِس بنا پر کسی خرابی کا اندیشہ کہ حکم اگر پہلی صورت پر باقی رہا تو اُن کے لیے ضرر اورمشقت کا باعث اور ہماری اُس شریعت کے قواعد کے خلاف ہو گا جو آسانی ، سہولت اور دفع ضرر پر مبنی ہے۔(مجموعة رسائل ابن عابدين، جلد:2،صفحہ125 ، مطبوعہ سھیل اکیڈمی)

انوار البروق میں ہے

”فإذا تغيرت العادة أو بطلت، بطلت هذه الفتاوى، وحرمت الفتوى بها لعدم مدركها فتأمل ذلك، بل تتبع الفتاوى هذه العوائد كيفما تقلبت كما تتبع النقود في كل عصر“

جب کوئی عادت بدل جائے یا ختم ہو جائے تو اس کے ساتھ وہ فتاویٰ بھی ختم ہو جائیں گے(جو اس عادت کی بنیاد پرصادر کئے گئے تھے) اس لئے کہ اب عادت کے بدلنے سے وہ وجہ ختم ہو چکی ہے، بلکہ فتاویٰ اُس عادت کے تحت ہی ہوں گے جس طرف وہ عادت جائے گی جیسا ہر زمانے میں کرنسی کامعاملہ ہے۔ (أنوار البروق في أنواء الفروق، جلد1، صفحہ 288 مطبوعہ بیروت )

نشر العرف میں ہے

”لا بد من معرفۃ عادات الناس فکثیر من الاحکام تختلف باختلاف الزمان لتغیر عرف اھلہ او لحدوث ضرورۃ او فساد اھل الزمان بحیث لو بقی الحکم علی ما کان علیہ او لا للزم منہ المشقۃ و الضرر بالناس و لخالف قواعد الشریعۃ المبنیۃ علی التخفیف و التیسیر و دفع الضرر و الفساد لبقاء العالم علی اثم نظام و احسن احکام و لھذا تری مشائخ المذھب خالفوا ما نص علیہ المجتھد فی مواضع کثیرۃ بناھا علی ما کان فی زمنہ لعلمھم بانہ لو کان فی زمنھم لقال بما قالوا بہ اخذاً من قواعد مذھبہ‘‘

لوگوں کی عادتوں کی پہچان ضروری ہے کہ بہت سے احکام ،زمانہ بدلنے سے بدل جاتے ہیں کہ اہل زمانہ کا عرف تبدیل ہونے یا کسی ضرورت کے پیدا ہونے یا اہل زمانہ کے فساد کی وجہ سے ایسی صورت پیدا ہوجاتی ہے کہ اگر وہ پہلا حکم باقی رہے، تو اس سے لوگوں پر ضرر اور مشقت لازم ہوگااور یہ ان شرعی قوانین کے مخالف ہے کہ جن کی بنیاد تخفیف و تیسیر یعنی آسانی دینے اور ضرر و فساد،دور کرنے پر ہے تاکہ دنیا ، اتم نظام اور احسن احکام پر باقی رہے۔ اسی وجہ سے تم مذہب کے مشائخ کو دیکھو گے کہ وہ کثیر مقامات پر اپنے زمانے کے عرف کی بنا پر مجتہد سے منصوص مسئلہ کے خلاف کرتے ہیں ،کیونکہ مجتہد کے مذہب کے قوانین سے اخذ کرتے ہوئے یہ حضرات جانتے ہیں کہ اگر ان کے زمانے میں وہ مجتہد ہوتے تو یہی فرماتے جو انہوں نے فرمایا۔(رسائل ابن عابدین،جلد2،صفحہ125،مطبوعہ سھیل اکیڈمی)

فتویٰ رضویہ میں سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فرماتے ہیں:’’ و من لم یعرف اھل زمانہ و لم یراع فی الفتیا حال مکانہ فھو جاھل مبطل فی قولہ و بیانہ‘‘ اور جو اہل زمانہ کا عرف نہیں جانتا اور فتوی دینے میں اس کے حال کی رعایت نہیں کرتا ،وہ جاہل اور ان کے قول و بیان کو باطل کرنے والا ہے۔‘‘(فتاوی رضویہ،ج25،ص339،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن ،لاھور)

نشر العرف میں ہے

’’لیس للمفتی و لا للقاضی ان یحکما بظاھر الروایۃ و یترکا العرف ‘‘

مفتی اور قاضی کے لیے جائز نہیں کہ ظاہر الروایہ کے مطابق حکم دیں اور عرف کو چھوڑ دیں۔(رسائل ابن عابدین،جلد2،صفحہ133،مطبوعہ سھیل اکیڈمی)

واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم

کتبہ

ممبر فقہ کورس

11صفر المظفر 1445ھ29اگست 2023ء

اپنا تبصرہ بھیجیں