شرعی معذور کا اشراق کے وضو سے ظہر پڑھنا
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس بارے میں کہ شرعی معذور (جس کا وضو برقرار نہیں رہتا)نے اگر فجر کی نماز کے لیے وضو کیا تو کیا اس وضو سے اشراق چاشت ادا کرسکتا ہے ؟ نیز کیا اشراق و چاشت کے وضو سے ظہر پڑھ سکتا ہے؟
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایہ الحق والصواب
شرعی معذور فجر کے وضو سے اشراق و چاشت ادا نہیں کرسکتا کہ معذور کے لیے حکم یہ ہے کہ ہر فرض نماز کے لیے وضو کرے اور اس فرض نماز کے وقت میں جتنے چاہے فرائض ونوافل ادا کرسکتا ہے لیکن جب فرض نماز کا وقت نکل جائے گا اسی وقت اس سابقہ حدث کے سبب اس کا وضو ٹوٹ جائے گا لہذا فجر کا وقت ختم ہونے سے معذور کا وضو ٹوٹ گیا ۔ اگر اس نے طلوع آفتاب کے بعد وضو کیا تو اب اس وضو سے اشرق وچاشت اور نماز ظہر ادا کرسکتا ہے اور اس کا وضو ظہر کا وقت ختم ہونے تک قائم رہے گا کہ درمیان میں کسی فرض نماز کا وقت ختم نہیں ہوا اگرچہ اشراق و چاشت کا وقت ختم ہو جائے کیونکہ یہ نماز نفل ہے فرض نہیں ہے ۔
فتاوی ہندیہ میں ہے
”المستحاضة ومن به سلس البول أو استطلاق البطن أو انفلات الريح أو رعاف دائم أو جرح لا يرقأ يتوضئون لوقت كل صلاة ويصلون بذلك الوضوء في الوقت ما شاءوا من الفرائض والنوافل هكذا في البحر الرائق…ويبطل الوضوء عند خروج وقت المفروضة بالحدث السابق. هكذا في الهداية وهو الصحيح“
ترجمہ:مستحاضہ اور وہ جیسے پیشاب جاری رہنے کی بیماری ہو یا دست کی ہو یا ریح نکل جاتی ہوں یا نکسیر جاری ہو یا کوئی زخم ہو جو بند نہ ہوتا ہو تو یہ سب لوگ ہر نماز کے لیے وضو کریں اور اس سے اس وقت میں جو فرض ونفل چائیں پڑھیں یہ بحر الرائق میں ہے اور معذور کا وضو فرض نماز کا وقت نکلنے سے اسی حدث سے ٹوٹ ہو جاتا ہے جو اولا ہوچکا یہی ھدایہ میں مذکور ہے اور یہی صحیح ہے ۔(فتاویٰ ھندیہ ،كتاب الطهارة، فصل في تطهير الأنجاس،ج1، ص41، ، دار الفكر بيروت)
ردالمختار میں ہے
”(فإذا خرج الوقت بطل) أي: ظهر حدثه السابق، حتى لو توضأ على الانقطاع ودام إلى خروجه لم يبطل بالخروج ما لم يطرأ حدث آخر أو يسيل كمسألة مسح خفه،وأفاد أنه لو توضأ بعد الطلوع ولو لعيد أو ضحى لم يبطل إلا بخروج وقت الظهر“
ترجمہ: جب وقت نکل جائے تو وضو باطل ہو جائے گا یعنی سابق حدث ظاہر ہوا تو وضو باطل ہو جائے گا حتی کہ اگر عذر کے ختم ہونے پر وضو کیا اور وقت کے خروج تک عذر نہ ہوا تو وقت نکلنے کے ساتھ وضو باطل نہ ہوگا جب تک کہ دوسرا حدث لاحق نہ ہو یا سابق عذر جاری نہ رہے جیسے موزے پر مسح کا مسئلہ ہے اور فائدہ یہ ہے کہ اگر طلوع آفتاب کے بعد وضو کیا اگرچہ عید یا چاشت کے لئے وضو کیا تو ان اوقات کے خروج سے وضو باطل نہ ہوگا مگر ظہر کا وقت نکلنے سے باطل ہو جائے گا ۔(ردالمختار ،كتاب الطهارة، باب الحيض، مطلب في احكام المعذور، ج1، ص 306، مطبوعہ کوئٹہ)
ھدایہ میں ہے
”واذا خرج الوقت بطل وضوءھم واستانفوا الوضوء لصلوٰۃ الاخری ۔۔۔۔فان توضوا حین طلوع الشمس اجزاھم حتی یذھب وقت الظھر ھذا عند ابی حنیفہ ومحمد وقال ابو یوسف وامام زفر اجزاھم حتی یدخل وقت الظھر“
اور جب وقت نکل گیا تو ان معذوروں کا وضو باطل ہوگیا اور دوسری نماز کے لیے سرے سے وضو کرے۔ اگر معذور نے طلوع آفتاب کے وقت وضو کیا تو اس کو کافی ہوگا یہاں تک کہ ظہر کا وقت چلا جائے یہ امام ابو حنیفہ اور امام محمد کے نزدیک ہے اور امام ابو یوسف اور امام زفر نے کہا کہ ان کو کافی ہوگا یہاں تک کہ ظہر کا وقت داخل ہو جائے ۔(ھدایہ ، جلد 1 ، صفحہ 240 ، مطبوعہ کراچی)
بہار شریعت میں ہے :
”فرض نماز کا وقت جانے سے معذور کا وُضو ٹوٹ جاتا ہے جیسے کسی نے عصر کے وقت وُضو کیا تھاتو آفتاب کے ڈوبتے ہی وُضو جاتارہااور اگر کسی نے آفتاب نکلنے کے بعد وُضو کیا تو جب تک ظہر کا وقت ختم نہ ہو وُضو نہ جائے گا کہ ابھی تک کسی فرض نماز کا وقت نہیں گیا۔“(بہار شریعت ،جلد 1، حصہ 2، صفحہ 389 ، مکتبہ المدینہ کراچی)
واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم
کتبـــــــــــــــــــــــــــہ
ممبر فقہ کورس
8شوال المکرم 1445ھ16 اپریل 2024ء
نظر ثانی:
مفتی محمد انس رضا قادری