سونے چاندی کے بٹن لگانا

سونے چاندی کے بٹن لگانا

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام کہ مرد کے لیے سونے، چاندی کے بٹن لگانا نیز جن کپڑوں پر یہ لگے ہوں ان کو پہن کر نماز پڑھنا کیسا؟

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب

سونے ،چاندی کے بٹن لگانا جائز ہے۔جب لگانا جائز ہے تو نماز بھی بلا کراہت درست ہے۔ کیونکہ سونے،چاندی کے بٹن جسم کے تابع نہیں بلکہ کرتے کے ساتھ گندھے ہوئے ہونے کی وجہ سے کرتے ہی کے تابع ہوتے ہیں ۔ اگر زنجیر والے بٹن ہوں توپھر ان کا استعمال جائز نہیں کیونکہ زنجیر زیور کے حکم میں ہے اور اس کا استعمال مرد کے لئے ناجائزوحرام ہے۔

نوٹ :بٹن لگانے میں مرد کے لیے چاندی کی انگوٹھی کی طرح ساڑھے چار ماشہ سے کم وزن ہونے کی شرعاً کوئی قید نہیں ہے۔

درمختارمیں ہے:

’’لاباس بازرار الدیباج والذھب‘‘

ترجمہ: ریشم اور سونے کے بٹن لگانے میں کوئی حرج نہیں ۔(درمختار ،کتاب الحظر والاباحۃ جلد9،صفحہ586،مطبوعہ کوئٹہ)

در مختار میں ہے:

”لاباس بعروۃ القمیص وزرہ من الحریر، لانہ تبع و فی التتارخانیۃ عن السیر الکبیر : لاباس بازرار الدیباج و الذھب“

ترجمہ: قمیص کا کاج اور اس کے بٹن ریشم کے ہوں تو کوئی حرج نہیں، اس لئے کہ یہ تابع ہیں، اور تاتارخانیہ میں سیرکبیر سے ہے کہ ریشم اور سونے کے بٹنوں میں حرج نہیں ہے۔(ردالمحتار علی الدرالمختار، کتاب الحظر و الإباحۃ، فصل في اللبس، جلد9، صفحہ586، مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

”فی السیر الکبیر لاباس بلبس الثوب فی غیر الحرب اذ اکان ازرارہ دیباجا اوذھبا کذا فی الذخیرۃ“

ترجمہ: سیرکبیر میں ہے کہ جنگ کے علاوہ ایسا کپڑا پہننے میں کوئی حرج نہیں ہے جس کے بٹن ریشم یا سونے کے ہوں، ایسے ہی “ذخیرہ” میں ہے۔ (فتاوی عالمگیری، کتاب الکراہیۃ، الباب التاسع فی اللبس مایکرہ من ذلک و مالایکرہ، جلد5، صفحہ332، مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)

فتاویٰ رضویہ میں ہے:

”زر (بٹن) کے لئے کپڑے میں سلا ہونا ضرور نہیں بلکہ مخیط و مربوط مغروز و مرکوز سب کو عام ہے ولہذا ائمہ لغت میں اس کی تعریف میں صرف لفظ وضع اخذ کیا جس مں اصل تخصیص خیاطت نہیں۔“(فتاویٰ رضویہ، جلد 22، صفحہ 117، رضا فاؤنڈیشن لاہور)

مزیدفتاوی رضویہ میں امام اہلسنت اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ مزید فرماتے ہیں:

”زنجیروں کے لئے نہ زر کی طرح کوئی نص فقیر نے پایا نہ جواز پر کوئی صاف دلیل بلکہ وہ بظاہر مقصود بنفسہا ہیں۔ نہ زر کی طرح کپڑے کی کوئی غرض ان سے متعلق، نہ علم کی طرح ثوب میں مستہلک کہ تابع ثواب ٹھہریں، نہ ان سے سنگار اور زینت کے سوا کوئی فائدہ مقصود اور وہ زیور زناں سے کمال مشابہ ہیں۔ ان کی ہیئت و حالت بالکل سہاروں کی سی ہے کہ ایک طرف ان کے کنڈوں میں بالیاں پروکر ان کو دونوں جانب سے پیشانی کے بالوں میں لاکر کانٹا ڈال کر ملا دیتے ہیں وہ بھی ان زنجیروں کی طرح لڑیاں ہی ہیں بلکہ ان سے علاوہ تزین ایک فائدہ بھی مقصود ہوتا ہے کہ بالیوں کا بوجھ کانوں پر نہ پڑے یہ انھیں اٹھا کر سہارا دئے رہیں، اسی لئے ان کو “سہارے” کہتے ہیں۔ اور ان زنجیروں کی لڑیاں سوا زینت کے کوئی فائدہ نہیں دیتیں تو بہ نسبت سہاروں کے ان کی لڑیاں جھومر کی لڑیوں سے اشبہ ہیں اور سہاروں کی طرح یہ بھی داخل ملبوس ہیں بلکہ ان کا صرف زینت کے لئے بالذات مقصود اور کپڑے کی اغراض سے محض بے تعلق و نامستہلک ہونا جھومر کی طرح ان کے اور بھی زیادہ لبس مستقل کا مقتضی ہے اور ذہب و فضہ میں اصل حرمت ہے تو جب تک صریح دلیل سے جواز ثابت نہ ہو زنجیروں پر عدم جواز ہی کا حکم دیں گے۔“(فتاویٰ رضویہ، جلد22، صفحہ125، رضا فاؤنڈیشن لاہور)

بہار شریعت میں صدرالشریعہ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:

’’سونے چاندی کے بٹن کرتے یا اچکن میں لگانا ، جائز ہے، جس طرح ریشم کی گھنڈی جائز ہے یعنی جبکہ بٹن بغیر زنجیر ہوں اور اگر زنجیر والے بٹن ہوں تو ان کا استعمال ناجائز ہے کہ یہ زنجیر زیور کے حکم میں ہے، جس کا استعمال مرد کو ناجائز ہے۔‘‘ (بہار شریعت ،جلد3،حصہ 16،صفحہ415،مکتبۃ المدینہ، کراچی)

فتاوی فقیہ ملت میں ہے:

”اسٹیل کی گھڑی کاا استعمال بغیر چین کے چمڑے وغیرہ کے فیتہ کے ساتھ اس لئے جائز ہے کہ گھڑی تابع ہے جس طرح کے سونے کا بٹن اسٹیل وغیرہ دھاتوں کی زنجیر کے ساتھ کسی مرد کو لگانا ناجائز ہے اور نیلون وغیرہ کے دھاگے کے ساتھ جائز ہے۔“ (فتاوی فقیہ ملت، جلد2، صفحہ354+351 مکتبہ فقیہ ملت اکیڈمی اوجھا گنج بستی)

واللہ و رسولہ اعلم عزوجل و صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

کتبہ

بابر عطاری مدنی اسلام آباد

29جمادی الاخری،1445ھ/12جنوری2024ء

اپنا تبصرہ بھیجیں