سورۃ کے حوالے سے مقتدی کا لقمہ دینا

سورۃ کے حوالے سے مقتدی کا لقمہ دینا

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام مسئلہ ذیل میں کہ زید جوکہ امام ہے اس نے نماز تراویح میں جہاں زید کو سورہ کافرون پڑھنا تھا زید نے سورہ لھب پڑھا دیا تو پیچھے سے بکر نے لقمہ دیا سورہ کافرون کا ،تو زید نے لقمہ نہیں لیا کیونکہ وہاں بکر کا لقمہ بیجا تھا اور بکر لقمہ دینے کی وجہ سے نماز سے خارج ہوگیا تو اگر زید لقمہ لیتا تو زید جوکہ امام تھا اسکی بھی نماز فاسد ہوتی اور اسکے ساتھ مقتدیوں کی نماز بھی فاسد۔ تو سوال یہ ہے کہ کہ زید نے لقمہ نہیں لیا تو کیا اسکو سجدہ سہو کی حاجت رہی ؟دوسرا یہ کہ بکر جس نے لقمہ دیا اسکے نماز کا کیا حکم ہے؟

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایہ الحق والصواب

صورت مسئولہ کے مطابق بکر کا لقمہ بے محل تھا جس وجہ سے اس کی نماز فاسد ہوگئی کیونکہ جب زید نے سورہ لھب پڑھا دی تو چونکہ وہ سورت شروع کرچکا تھا لہذا اگر کوئی سورت شروع کردی جائے اگرچہ ایک ہی حرف پڑھا ہو تو اس کو مکمل کرنا ضروری ہوتا ہے اور ایک سورت کو چھوڑ کر دوسری سورت پڑھنا مکروہ ہے۔

لقمہ دینے کا مطلب یہ ہے کہ مجھ سے یہ لے لو اور سکھانا نماز کا حصہ نہیں اور یہ شے نماز میں داخل نہیں لہذا جو نماز سے نہیں وہ فساد نماز کا سبب ہے اسی اصول کے پیش نظر امام کو لقمہ دینے سے نماز فاسد ہو جائے گی کہ اس میں سیکھنا سیکھانا پایا جارہا ہے جو مفسد نماز کا سبب ہے البتہ احادیث میں اس کی اجازت کے پیش نظر اور اصلاح نماز کی ضرورت کے تحت ہو تو یہ جائز ہے اس کے علاوہ دیگر صورتوں میں جبکہ اصلاح کی گنجائش باقی نہ رہے تو یہ مفسد صلوٰۃ ہے ۔

امام زید نے لقمہ نہیں لیا تو پھر بھی اس پر سجدہ سہو واجب نہیں ہوگا کہ اگر کسی نے پہلی رکعت میں کوئی سورت تلاوت کی اور دوسری رکعت میں دوسرے مقام سے سورت تلاوت کی تو یہ مکروہ نہیں ہے جبکہ دونوں مقاموں میں دو یا زیادہ آیات کا فاصلہ ہو اور اگر درمیان میں دو سورتوں کا وقفہ ہو تو کوئی مضائقہ نہیں ہے اور سجدہ سہو ترک واجب پر لازم ہوتا ہے۔

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

”و تفسد صلاتہ بالفتح مرۃ و لا یشترط فیہ التکرار و ھو الاصح “

یعنی بے محل ایک مرتبہ ہی لقمہ دینے سے نماز فاسد ہوجائے گی اس میں تکرار شرط نہیں اور یہی اصح قول ہے ۔(فتاوٰی عالمگیری، کتاب الصلاۃ، ج 01،ص 99،مطبوعہ پشاور)

المحیط البرھانی میں ہے

”اما اذا لم یکن فیہ إصلاح صلاته……. تفسد صلاته لأنہ تعلیم فی غیر موضع الحاجاتہ “

یعنی جس لقمہ دینے میں نماز کی اصلاح نا ہو تو نماز فاسد ہو جاے گی کیونکیہ بغیر حاجت کے سیکھانا پایا جا رہا ہے{( المحیط البرھانی ،جلد 1 صفحہ 389 بیروت}

فتویٰ رضویہ میں اعلحضرت امام احمد رضا رَحْمَةُ اَللهِ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:

” بے محل لقمہ دینا اصل قیاس کے مطابق ہو جاے گا کیوں کہ قیاس تو چاہتا ہے کہ لقمہ دینے سے نماز فاسد ہونی چاہے مگر ضررت کی وجہ سے نماز فاسد نہیں ہوتی بے محل ضرورت ہی نہیں ہے اس وجہ سے نماز ٹوٹ جاے گی۔ (فتاوی رضویہ ،ج 7 ، ص260 رضا فانڈیشن لاہور )

فتویٰ رضویہ میں امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فرماتے ہیں:

”ہمارے امام رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے نزدیک اصل ان مسائل میں یہ ہے کہ بتانا اگرچہ لفظاًقراء ت یاذکر مثلاً: تسبیح وتکبیر ہے اور یہ سب اجزا واذکار نماز سے ہیں، مگر معناً کلام ہے کہ اس کا حاصل امام سے خطاب کرنا اور اسے سکھانا ہوتاہے یعنی توبھولا، اس کے بعد تجھے یہ کرناچاہئے، پرظاہر کہ اس سے یہی غرض مراد ہوتی ہے اور سامع کوبھی یہی معنی مفہوم، تو اس کے کلام ہونے میں کیاشک رہا ،اگرچہ صورۃً قرآن یاذکر، و لہٰذا اگرنماز میں کسی یحییٰ نامی کو خطاب کی نیت سے یہ آیہ کریمہ﴿ یٰیَحْیٰی خُذِ الْکِتٰبَ بِقُوَّۃٍ ﴾پڑھی، بالاتفاق نماز جاتی رہی،حالانکہ وہ حقیقۃً قرآن ہے، اس بنا پرقیاس یہ تھا کہ مطلقاً بتانا، اگرچہ برمحل ہو ، مفسد نماز ہو کہ جب وہ بلحاظ معنی کلام ٹھہرا تو بہرحال افساد نماز کرے گا ،مگرحاجت اصلاح نماز کے وقت یا جہاں خاص نص وارد ہے، ہمارے ائمہ نے اس قیاس کوترک فرمایا اور بحکم استحسان جس کے اعلی وجوہ سے نص وضرورت ہے جواز کاحکم دیا ۔“(فتاوی رضویہ، جلد7، صفحہ 257، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

مزید فرماتے ہیں :

”پس جو بتانا حاجت و نص کے مواضع سے جدا ہو،وہ بیشک اصل قیاس پر جاری رہے گا کہ وہاں اس کے حکم کاکوئی معارض نہیں۔۔۔۔۔علامہ ابن امیرالحاج حلبی ’’حلیہ‘‘ میں فرماتے ہیں:’’ الذی یفتح کانہ یقول خذ منی کذا والتعلیم لیس من الصلاۃ فی شیئ وادخال مالیس منھا فیھا یوجب فسادھا وکان قضیۃ ھذا المعنی ان تفسد صلاتہ اذا فتح علی امامہ لکن سقط اعتبار التعلیم للاحادیث و للحاجۃ الی اصلاح صلاۃ نفسہ فماعدا ذلک یعمل فیہ بقضیۃ القیاس اھ ملخصا بالمعنی‘‘ لقمہ دینے والا گویا کہہ رہاہوتاہے کہ ’’مجھ سے یہ لے لو‘‘ اور سکھانا نماز کاحصہ نہیں اور ایسی شے کانماز میں داخل کرنا جو نماز میں سے نہیں، نماز کے فساد کاسبب ہے۔ اس بات کے پیش نظر ہونایہی چاہئے کہ جب امام کو لقمہ دیاجائے ،تو بھی نماز فاسد ہوجائے لیکن اس صورت میں نماز کے فساد کا حکم اس لیے جاری نہیں کیاجاتا،کہ احادیث میں اس کی اجازت ہے اور نماز کی اصلاح کی بھی حاجت ہے،البتہ اس کے علاوہ دیگر صورتوں میں قیاس پر عمل کیاجائے گا(یعنی نماز فاسد ہوجائے گی) ملخصاً بالمعنٰی۔“(فتاوی رضویہ، جلد7، صفحہ260، رضا فاؤنڈیشن ،لاھور)

فتاوٰی فقیہ ملت میں ہے:

”صورتِ مسئولہ میں زید کی نماز ہوگئی البتہ اگر اس نے بے ترتیبی سے سہواً پڑھا تو کچھ حرج نہیں اور قصداً پڑھا تو گنہگار ہوا۔ ۔۔اور خلافِ ترتیب پڑھنے کے بعد اگر کسی نے لقمہ دیدیا تو اس کا لقمہ دینا اور امام کا اسے قبول کرنا جائز نہیں کہ امام کو اوپر والی سورت شروع کرنے کے بعد اسی کو پورا کرنے کا حکم ہے اسے چھوڑ کر بعد والی سورت پڑھنے کی اجازت نہیں۔ ۔۔۔ایسی صورت میں لقمہ دینے والے کی نماز بے جا لقمہ دینے کے سبب فاسد ہوگئی اور اگر امام نے ایسا لقمہ لے لیا تو امام کی اور اس کے ساتھ سب کی نماز خراب ہوگئی۔“ (فتاوٰی فقیہ ملت ، ج 01،ص 165، شبیر برادرز)

وقار الفتاوی میں مفتی وقار الدین علیہ الرحمہ ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں:

”نماز ایسی عبادت ہے کہ حالت نماز میں کسی کو سکھانا یا کسی سے سیکھنا دونوں ناجائز ہیں یعنی کسی کو لقمہ دینا یاکسی سے لقمہ لینا ۔مگرضرورتاً اصلاح نماز کےقصد سے جائزرکھاگیا ،اورقاعدہ یہی ہےکہ ضرورتاً جائز اور بغیر ضرورت اگر لقمہ دیا جائے تو لقمہ دینے والے کی نماز فاسد ہوجائےگی ، اور اگر امام لےلےگا تو سب کی نماز فاسد ہوجائے گی ۔“(وقار الفتاویٰ،ج 02،ص 235، بزم وقار الدین)

در مختار میں ہے

” لا بأس أن يقرأ سورة ويعيدها في الثانية، وأن يقرأ في الأولى من محل وفي الثانية من آخر ولو من سورة إن كان بينهما آيتان فأكثر“

ترجمہ:اس میں حرج نہیں کہ پہلی رکعت میں جو سورت پڑھے ،دوسری میں بھی وہی پڑھے،اور اس میں بھی حرج نہیں کہ پہلی رکعت میں ایک مقام سے پڑھے اور دوسری رکعت میں کسی اور مقام سے پڑھے اگرچہ ایک ہی سورت سے ہو جبکہ دونوں مقاموں میں دو یا زیادہ آیات کا فاصلہ ہو۔

رد المحتار میں ہے

” لو قرأ في الأولى من وسط سورة أو من سورة أولها ثم قرأ في الثانية من وسط سورة أخرى أو من أولها أو سورة قصيرة الأصح أنه لا يكره، لكن الأولى أن لا يفعل من غير ضرورة ۔۔۔(قوله ولو من سورة إلخ) واصل بما قبله أي لو قرأ من محلين، بأن انتقل من آية إلى أخرى من سورة واحدة لا يكره إذا كان بينهما آيتان فأكثر، لكن الأولى أن لا يفعل بلا ضرورة لأنه يوهم الإعراض والترجيح بلا مرجح شرح المنية؛ وإنما فرض المسألة في الركعتين لأنه لو انتقل في الركعة الواحدة من آية إلى آية يكره وإن كان بينهما آيات بلا ضرورة؛ فإن سها ثم تذكر يعود مراعاة لترتيب الآيات شرح المنية“

ترجمہ:اگر کسی نے پہلی رکعت میں کسی سورت کے درمیان یا شروع سے قراءت کی اور دوسری رکعت میں کسی اور سورت کے درمیان یا شروع سے قراءت کی تو اصح یہ ہے کہ یوں قراءت کرنا مکروہ نہیں لیکن بہتر یہی ہے کہ بغیر ضرورت یوں نہ کرے۔۔۔(اور مصنف کا قول:کہ اگرچہ ایک ہی سورت سے ہو)یہ ما قبل عبارت سے متصل ہے یعنی اگر کسی نے دو مقام سے قراءت کی بایں صورت کہ ایک ہی سورت کی ایک آیت سے دوسری آیت کی طرف منتقل ہوا تو مکروہ نہیں جبکہ دونوں مقاموں کے مابین دو یا دو سے زیادہ آیات کا فاصلہ ہو لیکن بہتر یہی ہے کہ بلا ضرورت یوں نہ کرے کیونکہ یہ اعراض و ترجیح بلا مرجح کا وہم ڈالتا ہے ،شرح منیۃ،اور یہ مسئلہ دو رکعتوں کے متعلق ہے اس لئے کہ اگرکوئی ایک ہی رکعت میں بلا ضرورت ایک آیت سے دوسری آیت کی طرف منتقل ہوا تو مکروہ ہے اگرچہ دونوں آیتوں کے مابین کئی آیات ہوں ،اگر بھول کر یوں کیا تو جب یاد آئے ،ترتیبِ آیات کی رعایت کرتے ہوئے واپس پلٹے،شرح المنیۃ۔ (رد المحتار علی الدر المختار،کتاب الصلاۃ،فصل فی القراءۃ،ج 1،ص 546،دار الفکر، بیروت )

بہارِ شریعت میں ہے

“فرائض کی پہلی رکعت میں چند آیتیں پڑھیں اور دوسری میں دوسری جگہ سے چند آیتیں پڑھیں،اگرچہ اسی سورت کی ہوں تو اگر درمیان میں دو یا زیادہ آیتیں رہ گئیں تو حرج نہیں، مگر بلا ضرورت ایسا نہ کرے اوراگر ایک ہی رکعت میں چند آیتیں پڑھیں پھر کچھ چھوڑ کر دوسری جگہ سے پڑھا، تو مکروہ ہے اور بھول کر ایسا ہوا تو لوٹے اور چھوٹی ہوئی آیتیں پڑھے۔”( بہارِ شریعت ، جلد 1 ،صفحہ 549 ، مکتبۃ المدینہ کراچی)

فتویٰ رضویہ میں ہے :

”سورت متروکہ اگر مدیداست کہ برتقدیر قرأتش در ثانیہ اطالت ثانیہ براولی لازم آید پس ازاں گزشتہ سورت ثالثہ خواندن باکے ندارد چنانکہ دراولی والتین ودر ثانیہ قدر ورنہ در فرائض مکروہ چنانچہ نصر و اخلاص واگردو سورت درمیان باشد مضائقہ نے ہمچو نصر و فلق -واﷲ تعالٰی اعلم“

اگر متروکہ سورت اتنی لمبی ہے کہ اس کی قرات سے دوسری رکعت پہلی رکعت سے طویل ہوجائے گی تو ایسی سورت کو ترک کرکے تیسری سورت پڑھنے میں کوئی حرج نہیں مثلاً پہلی رکعت میں سورہ والتین اور دوسری رکعت میں سورہ قدر پڑھے اور اگر ایسی صورت نہیں تو فرائض میں ایسا کرنا مکروہ ہے جیسا کہ سورہ نصر اور سورہ اخلاص کا پڑھنا اور اگر درمیان میں دو۲ سورتیں ہوں تو پھر کوئی مضائقہ نہیں مثلاً سورہ نصر اور سورہ فلق- واﷲ تعالٰی اعلم۔“(فتویٰ رضویہ ،جلد 6 ،صفحہ 268، رضا فائونڈیشن لاہور)

واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم

کتبـــــــــــــــــــــــــــہ

ممبر فقہ کورس

28 رمضان المبارک1445ھ08 اپریل 2024ء

اپنا تبصرہ بھیجیں