دارالحرب میں سود کا حکم اور عصر حاضر کے مفتیان کرام کے دلائل کا تجزیہ

دارالحرب میں سود کا حکم اور عصر حاضر کے مفتیان کرام کے دلائل کا تجزیہ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس بارے میں کہ کافر حربی اورمسلمان کے درمیان سود کا کیا حکم ہے؟کئی حنفی علمائے کرام و مفتیان عظام کا یہ موقف ہے کہ دارالحرب میں بھی کافر سے سودی عقد حرام ہے۔

ایک مفتی صاحب کابیان ہے کہ ” دارالحرب کی تعریف میں اضافہ کیا جائے ایک تو وہاں پر کبھی اسلامی حکومت نہ رہی تھی نہ اب ہو اور دوسرا وہاں پر کوئی بھی عبادت یا اسلامی شعار آپ آزادانہ نہ کرسکے جیسے مکہ میں تھا کہ کلمہ پڑھنے پر سخت معاملات تھے اس وجہ سے یوکے ،یو ایس اے وغیرہ دارالحرب نہیں ہے کہ یہاں پر اسلامی آزادی ہے، اب تو یہ دار الکفر ہے اور حکما دار الاسلام ہے اور یہ دار الحرب نہیں ہے لہذا سود کا لین دین جائز نہیں ہوگا چاہے مسلمان سے ہو یا کافر سے ہو۔ “

ایک عالم کابیان ہے کہ ” امریکہ وغیرہ سے سود لین دین میں اگر سود کی نیت نہ کی جائے تو جائز ہے تو یہ کیسا لین دین ہوا کہ سود لے بھی رہے ہیں اور نیت بھی نہ ہو۔ آگے المغنی ابن قدامہ حنبلی کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ ”یحرم الربا فی دار الحرب کتحریم فی دار الاسلام وبه قال مالك والاوزاعی وابو یوسف والشافعی واسحاق“ یہ احناف کا مجمع علیہ مسئلہ نہیں ہے، جمہور علماء بشمول قاضی ابو یوسف کے کہ وہ اہل علم یہ کہتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ قاضی ابو یوسف امام محمد اور ان اکابرین کے درمیان جب اختلاف ہو جائے تو ایسا مسئلہ جس میں قضاء کے متعلق ریاستی سطح پر اثر پڑے گا تو” یقدم قول ابی یوسف“ یعنی امام ابو یوسف کے قول کو مقدم کیا جاتا ہے کیونکہ وہ چیف جسٹس رہے ہیں اور یہ شیخ عبد القادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کا مسلک بھی ہے۔” لہذا آپ قرآن وحدیث کی روشنی میں رہنمائی فرمادیں؟

بسم الله الرحمن الرحيم

الجواب بعون الملك الوهاب اللهم هداية الحق والصواب

عصر حاضر کے کئی علمائے کرام اور مفتیان کرام تحقیق کے جوش میں یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ حنفی ہیں۔ اپنے موقف پر ان کو جو بھی دلیل ملے چاہے وہ فقہ حنبلی کی ہو یا فقہ حنفی میں غیر مفتیٰ بہ قول ہو اسے لے کر وہ نہ صرف اپنی تحقیق کو حنفی فقہ کا شاہکار ثابت کرتے ہیں بلکہ دیگر مفتیان کرام کو “جاہل و شدت پسند “ظاہر کرتے ہیں۔ یہ روش اہل علم حضرات کے لیے بالکل ہی مناسب نہیں۔

حنفی فقہ میں یہ مسئلہ روز روشن کی طرح واضح ہے کہ دار الحرب میں حربی اور مسلمان کے درمیان زیادتی” سود” نہیں ہے ، یہ امام اعظم ابوحنیفہ ، امام محمد کا موقف ہے ، جن کو بعد میں آنے والے حنفی علماء نے بھی اختیار کیا ہے اور کثیر کتب فقہ اور اردو فتاویٰ میں یہی مذکور ہے۔ امام سرخسی علیہ رحمۃ نے اپنی کتاب مبسوط میں متعدد احادیث سے یہ بات ثابت کی ہے کہ مسلمان اور حربی کافر کے درمیان سود متحقق نہیں ہوگا۔

پہلی بات یہ کہ اس بارے میں حدیث موجود ہے:” لاربا بین المسلمین والحربی” اور پھر اس حدیث کی صحت پر بھی کلام کرتے ہوئے امام سرخسی فرماتے ہیں کہ اگرچہ یہ حدیث مرسل ہے لیکن مکحول کی مرسل روایات بھی مقبول ہوتی ہے اور کثیر کتب فقہ میں اس کو جائز قرار دیا گیا ہے ۔

دوسری بات یہ کہ دار الحرب میں اگرچہ مسلمانوں کو مذہبی آزادی حاصل ہو تب بھی وہ دار الحرب ہی رہتا ہے اور صدیوں سے جو علمائے احناف نے اپنی کتب میں جو کافر سے نفع لینے کو جائز لکھا ہے تو صدیوں سے ہر جگہ پر مکہ جیسا ماحول نہیں تھا ،لہذا یہ نظریہ کہ “شعار اسلام کو قائم کرنے میں آزادانہ ماحول ہو” تو اس سے کوئی دار الحرب حکما دار الاسلام نہیں ہو جائے گا۔

نیز اگر دارالحرب کی قید بھی نکال دی جائے اور وہ دار الاسلام بھی ہو تب بھی حربی کافر اور مسلمان کے درمیان سود متحقق نہیں ہوگا کیونکہ سود متحقق ہونے کے لیے “طرفین کا مال معصوم ہونا “ضروری ہے جو کہ علماء کے نزدیک متّفق علیہ مسئلہ ہے اور حربی کا مال ، مالِ معصوم نہیں جس بناءپر سود متحقق نہیں ہوگا اور نص ”لاربا بین المسلمین والحربی“میں لا نفی جنس سے ہر قسم کی زیادتی کو سود سے مستثنیٰ کردیا ہے۔ اگر اس زیادتی میں دھوکا اور غدر نہ ہو تو یہ جائز ہے اور سود کہہ کر نہ لینے سے مراد یہ ہے کہ جب سود متحقق ہی نہیں ہوگا تو سود سمجھ کر لینا جائز نہیں ہے۔

رہا یہ کہ المغنی میں ابن قدامہ حنبلی کا یا امام شافعی کا جو موقف ہے یا غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ کا جو مسلک ہے کہ زیادتی سود ہے تو ہم فقہ میں امام ابو حنیفہ کے مقلد ہیں اور غوث پاک رحمتہ اللہ علیہ حنبلی تھے اور ہم حنفی ہے غوث پاک رحمتہ اللہ علیہ ہمارے طریقت میں امام ہیں، فروعی مسائل میں ہم ان کے مقلد نہیں۔

سنن ترمذی میں ہے

”حدثنا الحسين بن حريث، حدثنا معاوية بن عمرو، عن ابي إسحاق الفزاري، عن سفيان الثوري، عن حبيب بن ابي عمرة، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس، في قول الله تعالى: الم {1} غلبت الروم {2} في ادنى الارض (سورة الروم آية 1-2)، قال: غلبت وغلبت كان المشركون يحبون ان يظهر اهل فارس على الروم لانهم وإياهم اهل اوثان، وكان المسلمون يحبون ان يظهر الروم على فارس لانهم اهل كتاب، فذكروه لابي بكر، فذكره ابو بكر لرسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: ” اما إنهم سيغلبون “، فذكره ابو بكر لهم، فقالوا: اجعل بيننا وبينك اجلا فإن ظهرنا كان لنا كذا وكذا، وإن ظهرتم كان لكم كذا وكذا، فجعل اجلا خمس سنين فلم يظهروا، فذكروا ذلك للنبي صلى الله عليه وسلم، فقال: ” الا جعلته إلى دون “، قال: اراه العشر، قال ابو سعيد: والبضع ما دون العشر، قال: ثم ظهرت الروم بعد، قال: فذلك قوله تعالى: الم غلبت الروم إلى قوله ويومئذ يفرح المؤمنون بنصر الله ينصر من يشاء (سورة الروم آية 1 ـ 5)، قال سفيان: سمعت انهم ظهروا عليهم يوم بدر “. قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح غريب إنما نعرفه من حديث سفيان الثوري، عن حبيب بن ابي عمرة“

ترجمہ:‏‏‏‏ عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما آیت «الم غلبت الروم في أدنى الأرض» کے بارے میں کہتے ہیں: «غَلَبَتْ» اور «غُلِبَتْ» دونوں پڑھا گیا ہے، کفار و مشرکین پسند کرتے تھے کہ اہل فارس روم پر غالب آ جائیں، اس لیے کہ کفار و مشرکین اور وہ سب بت پرست تھے جب کہ مسلمان چاہتے تھے کہ رومی اہل فارس پر غالب آ جائیں، اس لیے کہ رومی اہل کتاب تھے، انہوں نے اس کا ذکر ابوبکر رضی الله عنہ سے کیا اور ابوبکر رضی الله عنہ نے رسول اللہ سے، آپ نے فرمایا: ”وہ (رومی) (مغلوب ہو جانے کے بعد پھر) غالب آ جائیں گے، ابوبکر رضی الله عنہ نے جا کر انہیں یہ بات بتائی، انہوں نے کہا: (ایسی بات ہے تو) ہمارے اور اپنے درمیان کوئی مدت متعین کر لو، اگر ہم غالب آ گئے تو ہمیں تم اتنا اتنا دینا، اور اگر تم غالب آ گئے (جیت گئے) تو ہم تمہیں اتنا اتنا دیں گے۔ تو انہوں نے پانچ سال کی مدت رکھ دی، لیکن وہ (رومی) اس مدت میں غالب نہ آ سکے، ابوبکر رضی الله عنہ نے یہ بات بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتائی۔ آپ نے فرمایا: ”تم نے اس کی مدت اس سے کچھ آگے کیوں نہ بڑھا دی؟“ راوی کہتے ہیں: میرا خیال ہے کہ آپ کی مراد اس سے دس (سال) تھی، ابوسعید نے کہا کہ «بضع» دس سے کم کو کہتے ہیں، اس کے بعد رومی غالب آ گئے۔ (ابن عباس رضی الله عنہما) کہتے ہیں: اللہ تعالیٰ کے قول «الم غلبت الروم» سے «ويومئذ يفرح المؤمنون بنصر الله ينصر من يشاء» تک کا یہی مفہوم ہے، سفیان ثوری کہتے ہیں: میں نے سنا ہے کہ وہ (رومی) لوگ ان پر اس دن غالب آئے جس دن بدر کی جنگ لڑی گئی تھی۔

امام ترمذی کہتے ہیں:یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ہم اسے صرف سفیان ثوری کی اس روایت سے جسے وہ حبیب بن ابو عمرہ کے واسطے سے بیان کرتے ہیں، جانتے ہیں۔(سنن الترمذي ، أبواب تفسير القرآن، باب: ومن سورة الروم ،برقم 3193)

مبسوط سرخسی میں ہے :

”وجه الدلالة من الحديث: أن هذا من القِمار الذي لا يحلُّ، وقد أجازه النبي صلى الله عليه وسلم لأبي بكر، فدلَّ على أن مثل هذا جائز مع الكفار، وقد كانوا في مكةَ وكانت دارَ حرب“ ترجمہ:اور یہ حدیث سے دلیل کی وجہ یہ ہے کہ چونکہ یہ جوا ہے اور حلال نہیں ہے مگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس کی اجازت دی کیونکہ یہ مثل کفار کے ساتھ جائز ہے کیونکہ مکہ اس وقت دار الحرب تھا۔(المبسوط للسرخسي، جلد 14 ، صفحہ 57، دار الفکر بیروت)

مبسوط سرخسی میں ہے :

”قال رحمه الله: ذُكِرَ عن مكحول عن رسول الله صلى الله عليه وسلم: “لا ربا بين المسلمين وبين أهل دار الحرب في دار الحرب”، وهذا الحديث وإن كان مرسلًا فمكحول فقيه ثقة، والمرسل من مثله مقبول، وهو دليل لأبي حنيفة ومحمّد رحمهما الله تعالى في جواز بيع المسلم الدرهم بالدرهمين من الحربي في دار الحرب“ ترجمہ:مکحول سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا ہے: دار الحرب میں دار الحرب کے باشندوں اور مسلمانوں کے درمیان سود نہیں ہے۔ امام سرخسی نے لکھا ہے: اگر یہ حدیث مرسل بھی ہو تو کوئی بات نہیں کیونکہ مکحول ثقہ فقیہ ہیں ، اور ان جیسوں کی مرسل روایت بھی مقبول ہوتی ہے اور یہ دلیل ہے امام ابو حنیفہ اور امام محمد کیونکہ مسلمان کا حربی کے ساتھ دار الحرب میں ایک درہم کا دو درہم کے عوض بیع کرنا جائز ہے۔(مبسوط سرخسی ،جلد 14 ، صفحہ 79، مطبوعہ دار الفکر بیروت)

مبسوط سرخسی میں ہے :

”أنه جائز لا بأس به؛ وبهذا قال أبو حنيفة ومحمد بن الحسن، وإبراهيم النخعي“ترجمہ:اور یہ جائز ہے اور اس (نفع) میں کوئی حرج نہیں اور یہ قول امام ابو حنیفہ اور محمد بن حسن اور ابراھیم نخعی کا ہے۔

(المبسوط للسرخسي ،جلد 14 صفحہ 56، دار الفکر بیروت،المحيط البرهاني،7/ 231، البحر الرائق شرح كنز الدقائق ،6/ 147، وحاشية ابن عابدين،5/ 186،مختصر اختلاف العلماء،3/ 491)

ردالمحتار میں ہے :

”اذادخل المسلم دار الحرب بامان فلا باس بان یاخذ منھم اموالھم بطیب انفسھم بأي وجه کان لأنه انما اخذ المباح علی وجه عری عن الغدر فیکون طیبا له والاسیر و المستامن سواء حتی لو باعھم درھما بدرھمین او میتة بدراھم او اخذ مالا منھم بطریق القمار فذٰلک کله طیب له“ترجمہ: جب کوئی مسلمان امان لے کر دارالحرب میں داخل ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں کہ وہ حربیوں کا مال ان کی رضامندی سے کسی بھی طریقے سے لے کیونکہ اس نے مال مباح ایسے طریقے سے لیا جو کہ دھوکہ سے خالی ہے لہٰذا یہ اس کےلئے حلال ہے، قیدی اور مستامن برابر ہیں ، یہاں تک کہ اگر کسی نے ان پر دو درہموں کے عوض ایک درہم بیچا یا کچھ درہموں کے عوض مردار بیچا یا جوئے کے ذریعے ان کا مال لے لیا تو یہ سب اس کے لئے حلال ہے۔ ( ردالمحتار ،کتاب البیوع ، باب الربا ، جلد 4 ، صفحہ 188داراحیاء التراث العربی بیروت)

بدائع الصنائع میں امام علاؤ الدین کاسانی حنفی (متوفی ۵۸۷ھ) لکھتے ہیں :

”وأما شرائط جريان الربا، فمنها أن يكون البدلان معصومين؛ فإن كان أحدهما غير معصوم، لا يتحقق الربا عندنا“ترجمہ: سود جاری ہونے کی چند شرطیں ہیں ، انہیں میں سے یہ ہے کہ بدلین معصوم ہوں ، تو اگر ان میں سے ایک غیر معصوم ہو تو ہمارے نزدیک سود متحقق نہیں ہوگا۔(بدائع الصنائع ، کتاب البیوع ، فصل في شرائط جريان الربا ، جلد 7 صفحہ 80، دارالکتب العلمیہ بیروت )

ہدایہ میں ہے :

”ولنا : قوله عليه السلام : «لا ربا بين المسلم والحربي في دار الحرب ، ولأن مالهم مباح في دارهم فبأي طريق أخذه المسلم أخذ مالا مباحاً إذا لم يكن فيه غدر“یعنی ، ہماری دلیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ مسلم و کافر حربی کے درمیان دارالحرب میں کوئی سود نہیں ہے ، نیز اسلئے کہ ان کے ملک ان کا مال مباح ہے تو جس طرح سے بھی مسلمان اسے لےگا مباح مال ہی لےگا بشرطیکہ اس میں دھوکہ نہ ہو ۔(الھدایۃ ، کتاب البیوع ، باب الربا ، جلد 5، صفحہ 202 ، مطبوعہ کراچی)

فتح القدیر میں ہے :

”إطلاق النصوص فی المال المحظور وانما یحرم علی المسلم اذاکان بطریق الغدر فاذالم یاخذ غدر فبأي طریق اخذہ حل بعد کونه برضا، بخلاف المستامن “ترجمہ:نصوص کااطلاق ممنوع مال میں ہے حربی کا مال مسلمان پر صرف اس صورت میں حرام ہوتا ہے جب وہ دھوکے سے لے، چنانچہ جب اس نے دھوکہ کے بغیر لیا چاہے جس طریقے سے لیا ہو تو اس کےلئے حلال ہے بشرطیکہ اس حربی کی رضامندی سے لیا ہو بخلاف حربی مستأمن کے۔( فتح القدیر ، باب الربا، جلد 6 ، صفحہ 178، مکتبہ نوریہ رضویہ)

” الدرروالغرر “میں علامہ محمد بن فراموز المعروف بملا خسرو حنفی (متوفی 885ھ) لکھتے ہیں :

” فان مالهم مباح وبعقد الامان لم يصر معصوما لكنه التزم ان لا يغدرهم ولا يتعرض لما فى ايديهم بلارضاهم فاذا اخذه برضاهم اخذ مالا مباحا بلا غدر”یعنی ان کا مال مباح ہے عقد امان کی وجہ سے معصوم نہیں ہوجائےگا ، البتہ یہ لازم ہے کہ انہیں دھوکہ نہ دے اور جو مال ان کی ملکیت میں ہے بلا رضامندی اس سے تعرض نہ کرے ، اور جب ان کی رضامندی سے لے تو مال مباح بلاغدر لےگا۔ (الدرروالغرر ، کتاب البیوع ، باب الربا ، جلد 2 ،صفحہ 189 ،میرمحمد کتب خانہ کراچی)

ردالمحتار میں ہے :

” لا بأس بأن يأخذ منهم أموالهم بطيب أنفسهم بأي وجه كان؛ لأنه إنما أخذ المباح على وجه عري عن الغدر“یعنی ان کی خوشدلی سے ان کا مال لینے میں حرج نہیں چاہے جس طرح سے بھی ہو ، اسلئے کہ مال مباح لیا ہے جو دھوکہ سے خالی ہے۔

( ردالمحتار ،کتاب البیوع ، باب الربا ، جلد 4 ، صفحہ 189،داراحیاء التراث العربی بیروت)

سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان بریلوی علیہ الرحمہ فتاوٰی رضویہ میں لکھتے ہیں:

“ہاں جو مال غیر مسلم سے کہ نہ ذمی ہو نہ مستامن بغیر اپنی طرف سے کسی غدر اور بد عہدی کے ملے اگر چہ عقود فاسدہ کے نام سے اسے اس نیت سے نہ بہ نیت ربا وغیرہ محرمات سے لینا جائز ہے اگر چہ وہ دینے والا کچھ کہے یا سمجھے کہ اسکے لئے اس کی نیت بہتر ہے نہ کہ دوسرے کی ۔“(فتاویٰ رضویہ،جلد17، صفحہ325،رضا فاؤنڈیشن،لاہور)

فتاوٰی رضویہ میں ہے :

” اگر قرض دیا اور زیادہ لینا قرار پایا تو مسلمان سے حرام قطعی اور ہندو سے جائز جبکہ اسے سود سمجھ کر نہ لے۔“(فتاویٰ رضویہ،جلد17، صفحہ327،رضا فاؤنڈیشن،لاہور)

فتاویٰ رضویہ میں ایک دوسرے مقام پر ہے :

“سود لینا نہ مسلمان سے جائز نہ ہندو سے ، لإطلاق قوله تعالى “وَحَرَّمَ الرَّبوا ،” أما ما يؤخذ من الحربي في دار الحرب فمال مباح ليس بربا ۔ ترجمہ: اس ارشاد باری تعالی کے اطلاق کی وجہ سے کہ ” اور اللہ تعالی نے سود کو حرام کر دیا لیکن جو کچھ دار الحرب میں حربی سے لیا جائے تو وہ مباح مال ہے سود نہیں۔“(فتاویٰ رضویہ،جلد17، صفحہ308،رضا فاؤنڈیشن،لاہور)

بہار شریعت میں ہے :

“عقد فاسد کے ذریعہ سے کافر حربی کا مال حاصل کرنا ممنوع نہیں یعنی جو عقد مابین دو مسلمان ممنوع ہے اگر حربی کے ساتھ کیا جائے تو منع نہیں مگر شرط یہ ہے کہ وہ عقد مسلم کے لیے مفید ہو مثلاً ایک روپیہ کے بدلے میں دو روپے خریدے یااُس کے ہاتھ مُردار کو بیچ ڈالا کہ اس طریقہ سے مسلمان کا روپیہ حاصل کرنا شرع کے خلاف اور حرام ہے اور کافر سے حاصل کرناجائز ہے۔“(بہارشریعت جلد2 ، حصہ 11 صفحہ 870، مکتبة المدینة کراچی)

فتاویٰ فیض الرسول میں ہے:

“تفسیرات احمدیہ کے حوالے سے ہے کہ ان ھم الا حربی وما یعقلھا الا العلمون تو جب یہاں کہ کافر حربی ٹھہرے تو ان کا مال مباح ہے بشرطیکہ ان کی رضا سے جو عذر اور بد عہدی نہ ہو لہذا وہ بینک جو خالص غیر مسلموں کے ہیں ان میں روپیہ جمع کرنے پر جو زیادتی ملتی ہے اس کا لینا جائز ہے کہ وہ خوشی سے دیتے ہیں اور لینے میں اپنی عزت و آبرو کا کوئی خطرہ نہیں وہ رقم کسی کے سود کہہ دینے سے سود نہ ہوگی اسے اپنے ہر جائز کام میں استعمال کرسکتا ہے……یہاں کے غیر مسلم حربی ہے اور حربی و مسلم کے درمیان سود نہیں ہے کہ حدیث شریف میں ہے کہ لاربا بین المسلم والحربی فی دار الحرب اسی طرح یہاں کہ کسی فرد غیر مسلم کو ایک روپیہ دے کر دو روپیہ دینا جائز ہے سود نہیں ہے۔“(فتاویٰ فیض الرسول ، جلد 2 ، صفحہ 253، اکبر بک سیلرز لاہور)

فتاویٰ امجدیہ میں ہے :

”اگر اس قسم کا عقد کیا جائے جو دو مسلمان یا مسلم و ذمی کے مابین ہوتا تو سود ہوتا اس کافر حربی سے یہ عقد سودنہیں۔حدیث شریف میں ہے” لا ربوا بین المسلم والحربی فی دار الحرب ” بظاہر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ربوا ہے اور جائز ہے یہ ان کی غلطی ہے. قرآن مجید میں مطلق وارد کہ”حرم الربوا ” تو ربوا حلال کیوں کر ہو سکتا ہے. بلکہ حقیقت حال یہ ہے کہ سود ہی نہیں جس کے لیے حرمت ہو اس واسطے حدیث شریف میں “لا ربوا” فرمایا کہ یہ سود ہی نہیں نہ یہ “یجوز الربوا” کہ سود تو ہے مگر جائز ہے. اور خود صاحب مذہب امام اعظم رضی اللہ تعالی عنہ بھی یہی فرماتے ہیں کہ یہ سود نہیں۔“ (فتاویٰ امجدیہ، جلد 3، صفحہ 214، مکتبہ رضویہ کراچی)

فتاویٰ بحر العلوم میں ہے :

” ہندوستان دارالاسلام ہے یہاں کے کافر حربی ہیں اپنی خوشی سے اگر اپنی کوئی رقم یامال ومتاع ایسے معاملے کے ذریعہ جو مسلمانوں میں ناجائز ہو دیں تو عقود فاسدہ کے ذریعہ یہاں کے غیر مسلموں کا مال لیا جاسکتا ہے ایسے طریقے سے نہیں لیا جاسکتا جس سے مسلمان کی اذیت اور بے عزتی کا خطرہ ہو یا غیرقوم کودھوکہ دیاگیا ہو ۔ھدایہ میں ہے: لان مالھم مباح فی دراھم فبای طریق اخذہ عنھم اخذ مالا مباحا اذالم یکن فیه غدرا“(فتاوی بحرالعلوم ،کتاب البیوع ،جلد 4 ،صفحہ 99، شبیر برادرز لاہور)

فتاویٰ فقیہ ملت ہے :

“کافر حربی کا مال معصوم نہیں لہذا وہ سود نہیں اور ہندوستان کے کفارحربی ہیں لہذا ان سے جو رقم ان کی خوشی سے دستیاب ہو جبکہ عذر نہ ہو اگرچہ وہ سود کہکر دیں گے مگر لینے والا سود سمجھ کر نہ لے تو جائز ہے اور سود سمجھ کر لینا جائز نہیں۔“(فتاوی فقیہ ملت ، جلد 2، صفحہ نمبر 208، شبیر برادرز لاہور )

فتاویٰ بریلی شریف میں ہے :

“سود حرام قطعی ہے مسلم خواہ کافر کسی سے سود کا معاملہ جائز نہیں مگر سود کے تحقق کے لیے شرائط ہیں جب وہ پائیں جائیں گے تو سود متحقق ہوگا ورنہ نہیں ازآں جملہ عصمت بدلین ہے لہذا اگر ایک طرف سے مال معصوم ہو اور دوسری طرف سے مال غیر معصوم ہو تو سود نہ ہوگا ……اور یہ شرط فقہاء کے نزدیک متفق علیہ ہے اس لیے علامہ شامی نے اسے بے ذکر خلاف ذکر کیا ہے اور فتح القدیر سے اسکا مفہوم نہیں ہوتا پھر یہ شرط نص لاربا بین المسلمین والحربی میں جس کی علت کا فائدہ دیتی ہے اسی طرح اس کے صریح مفہوم کے مطابق ہے کہ لانفی جنس کے لیے ہے جس کا صاف مطلب ہے کہ مسلم و حربی کے درمیان زیادتی کا لین دین سود نہیں ہے۔“

(فتاویٰ بریلی شریف ، صفحہ 32/33 ، مطبوعہ مرکزی دارالافتاء سوداگران بریلی شریف)

سیر اعلام النبلاءمیں ہے :

’’الشيخ عبد القادر أبومحمد بن عبد اللہ الجيلي :الشيخ، الإمام، العالم، الزاهد، العارف، القدوة، شيخ الإسلام، علم الأولياء، محيي الدين، أبو محمد عبد القادر ابن أبي صالح عبد اللہ بن جنكي دوست الجيلي ، الحنبلي، شيخ بغداد“ترجمہ :شیخ عبد القادر ابو محمد بن عبد اللہ الجیلانی :شیخ ، امام ، عالم ، زاہد، عارف، پیشوا، شیخ الاسلام ، عَلَم الاولیاء ، محی الدین ابومحمد عبد القادر بن ابو صالح عبد اللہ بن جنگی دوست جیلانی ، حنبلی ، بغداد کے شیخ ہیں ۔(سیر اعلام النبلاء، جلد 20 ،صفحہ 439، مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت)

سیر اعلام النبلاءمیں ہے :

’’قال السمعاني: كان عبد القادر من أهل جيلان إمام الحنابلة، وشيخهم في عصره ‘‘یعنی امام سمعانی کہتے ہیں : شیخ عبدالقادر جیلان کے رہنے والے ہیں ، اپنے زمانے کے حنبلیوں کے امام اور ان کے شیخ ہیں ۔(سیر اعلام النبلاء،جلد 20، صفحہ 441، مؤسسۃ الرسالہ، بیروت)

والله اعلم عزّوجلّ ورسوله اعلم صلى الله عليه وآله وسلم

کتبـــــــــــــــــــــــــــه

ممبر “فقہ کورس”(الرضا قرآن و فقہ اکیڈمی)

14 ذی القعدہ 1445ھ22 مئی 2024ء

نظر ثانی:

مفتي محمد اَنَس رضا قادري

اپنا تبصرہ بھیجیں