تکبیر قنوت اور دعائے قنوت اور ہاتھ اٹھانے کی شرعی حیثیت
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس بارے میں کہ تکبیر قنوت اور دعائے قنوت کا کیا حکم ہے اور اس میں ہاتھ اٹھانے کی شرعی حیثیت کیا ہے اور اگر ان میں سے کچھ بھول جائے تو کیا سجدہ سہو کرنا ہوگا ؟
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایہ الحق والصواب
تکبیر قنوت اور اس کے بعد دعائے قنوت پڑھنا واجب ہے اور اگر یہ بھول جائے تو سجدہ سہو کرنا ہوگا کہ یہ واجبات نماز میں سے ہیں اور اگر آخر میں سجدہ سہو کرنا بھول گیا یا نہ کیا تو نماز واجب الاعادہ ہوگی یعنی اس کو لوٹانا واجب ہوگا ۔ تکبیر قنوت کے وقت ہاتھ اٹھانا سنت مؤکدہ ہے بلاوجہ اسے نہ چھوڑا جائے لہذا اس کےترک پر سجدہ سہو واجب نہیں ہوگا اور نماز ہو جائے گی ۔وتر نماز قضا اد ا کررہے ہوں تو لوگوں کے سامنے ہاتھ نہ اٹھائے جائیں کہ لوگ اس کی کوتاہی پر مطلع ہونگے۔
فتاویٰ عالمگیری میں ہے
”ومنھا القنوت فاذا ترکہ یجب علیہ السھو۔۔۔۔۔۔ولو ترك التكبيرة التي بعد القراءة قبل القنوت سجد للسهو؛ ولأنها بمنزلة تكبيرات العيد، كذا في التبيين“
یعنی واجبات نماز میں سے دعائے قنوت بھی ہے،تو جب نمازی نے اسے (بھولے سے) ترک کر دیا تو اس پر سجدۂ سہو واجب ہے اور اگر قراءت کے بعد اور قنوت سے پہلے والی تکبیر ترک کردی تب بھی سجدہ سہو واجب ہوگا کیونکہ یہ بمنزلہ تکبیرات عیدین کے ہے جیسا کہ تبیین میں ہے۔ (الفتاویٰ الھندیہ،ج1،ص141،دارالکتب العلمیہ،بیروت)
بہار شریعت میں واجبات کے بیان میں ہے کہ
وتر میں دعائے قنوت پڑھنا
اور تکبیر قنوت ۔(بہار شریعت، جلد 1، حصہ 3، صفحہ 521 ،مکتبہ المدینہ کراچی)
مزید بہار شریعت میں ہے:
”قنوت یا تکبیر قنوت یعنی قراء ت کے بعد قنوت کے ليے جو تکبیر کہی جاتی ہے بھول گیا سجدۂ سہو کرے۔“
اسی میں ہے:
”قصداً واجب ترک کیا تو سجدۂ سہو سے وہ نقصان دفع نہ ہو گا بلکہ اعادہ واجب ہے۔ يوہيں اگر سہواً واجب ترک ہوا اور سجدۂ سہو نہ کیا جب بھی اعادہ واجب ہے۔“ (بہارشریعت، جلد 1،حصہ 4، ص 714/708، مکتبۃ المدینہ کراچی )
درالمحتار میں ہے
”( ولا يسن ) مؤكداً ( رفع يديه إلا في ) سبع مواطن كما ورد۔۔۔۔ثلاثة في الصلاة ( تكبيرة افتتاح وقنوت وعيد) “
یعنی رفع یدین کرنا سات مواقع پر سنتِ مؤکدہ ہے جیسا کہ روایت میں بیان ہوا۔۔۔۔ان میں سے تین مواقع نماز میں ہے تکبیرِ تحریمہ، تکیبرِ قنوت اور تکبیراتِ عیدین کے وقت۔ (ردالمحتار مع الدر المختار، کتاب الصلاۃ، ج02،ص263-262،مطبوعہ کوئٹہ، ملتقطاً)
ردالمختار میں ہے
” (رافعاً يديه) أي سنة إلى حذاء أذنيه كتكبيرة الإحرام، وهذا كما في الإمداد عن مجمع الروايات لو في الوقت، أما في القضاء عند الناس فلا يرفع حتى لا يطلع أحد على تقصيره۔اهـ “
یعنی تکبیرِ قنوت میں سنت یہ ہے کہ ہاتھوں کو کانوں تک اٹھائے جیسا کہ تکبیرِ تحریمہ میں ہاتھوں کو اٹھایا جاتا ہے، ایسا ہی حکم “امداد” میں “مجمع الروایات “کے حوالے سے بیان کیا گیا ہے اور یہ اسی وقت ہے کہ جب وقت میں نمازِ وتر ادا کرے۔ بہر حال اگر لوگوں کی موجودگی میں نمازِ وتر کی قضا پڑھے تو اس وقت اپنے ہاتھوں کو بلند نہ کرے تاکہ کوئی اُس کی کوتاہی پر مطلع نہ ہوں۔(ردالمحتار مع الدر المختار، کتاب الصلاۃ، ج02،ص533،مطبوعہ کوئٹہ)
بہار شریعت میں سننِ نماز کے بیان میں ہے:
”(۱) تحریمہ کے ليے ہاتھ اٹھانا۔ ۔۔۔۔ (۵) تکبیر سے پہلے ہاتھ اٹھانا یوہیں (۶) تکبیر قنوت و (۷) تکبیرات عیدین میں کانوں تک ہاتھ لے جانے کے بعد تکبیر کہے اور ان کے علاوہ کسی جگہ نماز میں ہاتھ اٹھانا سنت نہیں۔ “(بہارشریعت ، ج 01، ص521-520، مکتبۃ المدینہ،کراچی)
بہار شریعت میں ہے :
”تیسری رکعت میں قراء ت سے فارغ ہو کر رکوع سے پہلے کانوں تک ہاتھ اُٹھا کر اللہ اکبر کہے جیسے تکبیر تحریمہ میں کرتے ہیں پھر ہاتھ باندھ لے اور دعائے قنوت پڑھے۔۔۔۔۔ البتہ قضا میں تکبیر قنوت کے ليے ہاتھ نہ اٹھائے جب کہ لوگوں کے سامنے پڑھتا ہو کہ لوگ اس کی تقصیر پر مطلع ہوں گے۔ “ (بہارشریعت ، ج 01، ص658-654، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
حلبی کبیری میں ہے:
”لا یجب بترک السنن والمستحبات کالتعوذ والتسمیۃ والثناء والتامین“
یعنی سنن و مستحبات جیسے تعوذ، تسمیہ، ثنا اور آمین کے چھوڑ دینے سے سجدۂ سہو واجب نہیں ہوتا۔ (حلبی کبیری، ص 455،سہیل اکیڈمی، لاھور)
سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ ترکِ سنت سے متعلق کیے گئے ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں:
”نماز ہوگئی اور سجدہ سہو کی اصلاً حاجت نہیں۔“(فتاوٰی رضویہ، ج 08، ص 216، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
بہارِ شریعت میں ہے:
”سنن و مستحبات مثلاً:تعوذ ، تسمیہ، ثنا، آمین ، تکبیراتِ انتقال کے ترک سے بھی سجدۂ سہو نہیں ، بلکہ نماز ہوگئی۔“(بہارِ شریعت،ج 01،ص 709، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم
کتبـــــــــــــــــــــــــــہ
ممبر فقہ کورس
10شوال المکرم 1445ھ19 اپریل 2024ء
نظرثانی:
مفتی محمد انس رضاقادری