تسبیح کی نماز میں تسبیحات کو انگلیوں پر شمار کرنا
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں کہ صلوٰۃ التسبیح کا کیا حکم ہے اور اس میں تسبیح انگلیوں پر شمار کرنے کا کیا حکم ہے اور اگر سجدہ سہو واجب ہو جائے تو کیا اس میں بھی تسبیح پڑھنی ہوگی اور اگر ایک رکن میں تسبیح کی تعداد کم پڑھ لی تو اب کیا حکم ہوگا ؟
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایہ الحق والصواب
صورت مستفسرہ کے مطابق صلوٰۃ التسبیح کی چار رکعات تین سو تسبیحات کے ساتھ پڑھنا مستحب ہے البتہ تسبیحات انگلیوں پر شمار کرنا مکروہ تنزیہی ہے اور زبان سے شمار کی تو نماز ہی فاسد ہو جائے گی بہتر یہ ہے کہ دل میں شمار کرے اور اگر دل میں شمار کرنے پر قادر نہیں تو انگلیوں کے پورے دبا کر شمار کرے اس طرح شمار کرنے میں کراہت بھی نہیں ہے اور اگر صلوٰۃ التسبیح میں کوئی واجب رہ گیا جس کے سبب سے سجدہ سہو واجب ہوگیا تو ان میں دو سجدے کرے گا البتہ ان میں تسبیحات نہیں پڑھے گا اور اگر کسی رکن میں تسبیحات معین تعداد سے کم پڑھی تو ان بقایا تسبیحات کو دوسرے رکن میں پورا کرلے۔
ردالمختار میں ہے
”واربع صلاة التسبیح بثلاثمائة تسبيحة وفضلها عظیم “
اور نماز تسبیح چار رکعات تین سو تسبیحات کے پڑھنا مستحب ہے اور اس کی فضیلت عظیم ہے ۔(رد المحتار،جلد2، باب الوتر والنوافل،صفحہ472،دار الکتب العلمیۃ،بیروت)
بدائع الصنائع میں ہے
”یکرہ عد الآی والتسبیح فی الصلاۃ عند أبی حنیفۃ۔۔۔لأبی حنیفۃ أن فی العد بالید ترکا لسنۃالید وذلک مکروہ ،ولانہ لیس من اعمال الصلاۃ فالقلیل منہ ان لم یفسد الصلاۃ فلا أقل من أن یوجب الکراھۃ “
ترجمہ:امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک نماز کے اندر ہاتھوں سے آیتیں یا تسبیحات شمارکرنا مکروہ ہے۔۔۔امام اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی دلیل یہ ہے کہ ہاتھوں سے شمارکرنے میں ہاتھوں کی مسنون حالت کا ترک ہوگااور یہ مکروہ ہے۔دوسری دلیل یہ ہے کہ یہ شمارکرنا نمازکے کاموں میں سے نہیں ہے ،لہذا یسا عمل اگرقلیل ہو، تو اگرچہ وہ نماز کو فاسد نہیں کرتا، مگرکم سے کم کراہت ضرور پیدا کرتا ہے۔ (بدائع الصنائع، جلد1،صفحہ507،مطبوعہ کوئٹہ)
فتح القدیر میں ہے
”ثم محل الخلاف فیما عد بالاصابع او بخیط یمسکہ ،اما اذا احصی بقلبہ او غمز باناملہ فلا کراھۃ “
ترجمہ:(یعنی امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اور صاحبین کے درمیان) اختلاف اس وقت ہے جبکہ انگلیوں سے شمارکرے یا کوئی دھاگا نماز کے اندر لے کے رکھے،اگردل سےشمارکیا یا انگلیوں کے پوروں پر زوردے کرشمارکیا، تو اس میں کوئی کراہت نہیں ہے۔ (فتح القدیر،جلد1،صفحہ431،مطبوعہ کوئٹہ)
مراقی الفلاح میں ہے
”قولہ ”بالید “ قید لکراھۃ عد الآی والتسبیح عند ابی حنیفۃ رضی اللہ تعالی عنہ خلافا لھمابان یکون بقبض الأصابع ولا یکرہ الغمز بالانامل فی موضعھا ولا الاحصاء بالقلب اتفاقا کعدد تسبیحہ فی صلاۃ التسبیح،وھی معلومۃ،وباللسان مفسد اتفاقا“
ترجمہ:ہاتھ سے گننے کی قید لگائی،کیونکہ صاحبین کے برخلاف امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک ہاتھوں پرتسبیح گننا مکروہ ہے ،اس طرح کہ گنتے وقت ایک ایک انگلی کو بند کرتا جائے۔البتہ پورے اپنی جگہ پرہی رہیں ،ان پرزوردے کراگرشمارکیا جائے ،اسی طرح اگردل میں شمارکیا جائے ،تو یہ بالاتفا ق مکروہ نہیں ہے،جیسے صلاۃ التسبیح کی تسبیحات کو شمارکرنا،اور یہ تسبیحات معلوم ہیں۔زبان سے شمارکرنا بالاتفاق نماز کو فاسد کردے گا۔ (مراقی الفلاح متن الطحطاوی، صفحہ360،مطبوعہ کوئٹہ)
درمختار میں فرمایا ہے
”(و)کرہ تنزیھا (عد الآی والسور والتسبیح بالید فی الصلاۃ مطلقا)أی ولو نفلا“
ترجمہ: آیتیں،سورتیں،تسبیحات ، نماز کے اندرہاتھوں سے شمارکرنا مطلقا مکروہ تنزیہی ہے، اگرچہ نماز نفل ہو۔ (درمختارمع ردالمحتار ،جلد2،صفحہ507، مطبوعہ کوئٹہ)
فتاویٰ شامی میں ہے
”وفي القنية: لايعد التسبيحات بالأصابع إن قدر أن يحفظ بالقلب وإلا يغمز الأصابع“
اور قنیہ میں ہے کہ اگر دل میں تسبیحات گننے پر قادر نہ ہو تو انگلیوں سے تسبیحات کا شمار نہ کرے ورنہ انگلیاں دبا کر شمار کرلے۔(رد المحتار،جلد2، باب الوتر والنوافل،صفحہ472،دار الکتب العلمیۃ،بیروت)
فتاویٰ شامی میں ہے:
’’إن سها ونقص عددا من محل معين، يأتي به في محل آخر تكملة للعدد المطلوب… أما تسبيح الركوع فيأتي به في السجود أيضا لا في الاعتدال لأنه قصير…قلت: وكذا تسبيح السجدة الأولى يأتي به في الثانية لا في الجلسة لأن تطويلها غير مشروع عندنا ‘‘
ترجمہ:اگر (صلوۃ التسبیح میں)بھول گیا اورکسی معین محل میں تسبیح کی تعداد کم کردی تو اب دوسرے محل میں اسے پڑھ لے تاکہ مطلوبہ عدد مکمل ہوجائے، اگر رکوع کی تسبیح میں ایسا ہو تو اسے سجدہ میں پڑھ لے ،قومہ میں نہ پڑھے کیونکہ قومہ کی مقدار تھوڑی ہوتی ہے،(علامہ شامی فرماتے ہیں)میں کہتا ہوں اسی طرح پہلے سجدہ میں بھول جائے تو دوسرے سجدے میں مکمل کرلے جلسہ میں نہ پڑھے کیونکہ جلسہ کو طویل کرنا ہمارے نزدیک مشروع نہیں۔(رد المحتار،جلد2، باب الوتر والنوافل،صفحہ472،دار الکتب العلمیۃ،بیروت)
بہار شریعت میں ہے :
” اگر سجدۂ سہو واجب ہو اور سجدے کرے تو ان دونوں میں تسبیحات نہ پڑھی جائیں اور اگر کسی جگہ بھول کر دس بار سے کم پڑھی ہیں تو دوسری جگہ پڑھ لے کہ وہ مقدار پوری ہو جائے اور بہتر یہ ہے کہ اس کے بعد جو دوسرا موقع تسبیح کا آئے وہیں پڑھ لے مثلاً قومہ کی سجدہ میں کہے اور رکوع میں بھولا تو اسے بھی سجدہ ہی میں کہے نہ قومہ میں کہ قومہ کی مقدار تھوڑی ہوتی ہے اور پہلے سجدہ میں بھولا تو دوسرے میں کہے جلسہ میں نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔
تسبیح اُنگلیوں پر نہ گنے بلکہ ہو سکے تو دل میں شمار کرے ورنہ اُنگلیاں دبا کر۔۔“(بہار شریعت ، جلد 1 ، حصہ 4، صفحہ 689 ، مکتبہ المدینہ کراچی)
واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم
کتبـــــــــــــــــــــــــــہ
ممبر فقہ کورس
18رمضان المبارک1445ھ28مارچ 2024ء