تسبیح کی نماز باجماعت

تسبیح کی نماز باجماعت

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس بارے میں کہ کیا رمضان المبارک میں آخری عشرے کی طاق راتوں میں جو صلوة التسبیح جماعت سے ادا کی جاتی ہے اس کا کیا حکم ہے ؟

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایہ الحق والصواب

صورت مسئولہ کے مطابق تراویح ،کسوف اور نماز استسقاء کے علاوہ شب قدر و شب برات میں صلوة التسبیح ہو یا دیگر نفل کی جماعت کا حکم یہ ہے کہ تداعی کے ساتھ مکروہ ہے اور بغیر تداعی کے مضائقہ نہیں ہے تداعی کا لغوی معنی بلانا اور جمع کرنے کے ہے جبکہ یہاں تداعی سے مراد یہ ہے کہ جب اس جماعت میں مقتدیوں کی تعداد چار یا اس سے زائد ہو اگر تین یا اس سے کم ہے تو مکروہ بھی نہیں اور یہ مکروہ مکروہ تنزیہی ہے جس کا حاصل خلاف اولی ہے گناہ اور حرام نہیں اور بہت سے اکابر دین سے نوافل کی جماعت بالتداعی ثابت ہے لہذا اگر لوگ اس نفل کی جماعت کی وجہ سے مساجد کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور ان بابرکت راتوں میں فضولیات سے بچ کر عبادات میں بسر کرتے ہیں تو انہیں متنفر نہ کیا جائے اور اس کار خیر سے منع نہ کیا جائے ۔

درمختار میں ہے

’’یکرہ ذلک لو علی سبیل التداعی بان یقتدی اربعۃ بواحد‘‘

ترجمہ:تداعی کے طور پر نوافل کی جماعت مکروہ ہے ۔ تداعی کا مطلب یہ ہے کہ چار شخص ایک کی اقتداء کریں ۔

(درمختار،کتاب الصلاۃ،ج2،ص604،مطبوعہ کوئٹہ )

حلبی کبیر میں ہے

”واعلم أن النفل بالجماعة علی سبيل التداعي مكروه“

اور جان لو کہ تداعی کے طور نفل نماز کی جماعت مکروہ ہے۔(حلبی کبیر ،تتمات من النوافل، صفحہ 436 ، سہیل اکیڈمی)

ردالمختار میں ہے

”النفل بالجماعہ غیر مستحب لانه لم تفعله الاصحابه فى غير رمضان وهو کالصریح فی انھا کراھه تنزیه“

اور جماعت کے ساتھ نفل غیر مستحب ہے کیونکہ صحابہ کرام نے رمضان کے علاوہ ایسا نہیں کیا اور یہ اس کے مکروہ تنزیہی ہونے میں صریح ہے۔(فتاویٰ شامی ،جلد 2، صفحہ 794 ، مطبوعہ کراچی)

فتویٰ رضویہ میں اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں :

’’جماعتِ نوافل میں ہمارے ائمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا مذہب معلوم ومشہوراور عامۂ کتب ِمذہب میں مذکورومسطور ہے کہ بلا تداعی مضائقہ نہیں۔‘‘(فتاوی رضویہ،ج7،ص430،رضا فائونڈیشن،لاھور)

مزیدفرماتے ہیں:

’’تراویح وکسوف واستسقاء کے سوا جماعت ِنوافل میں ہمارے ائمہ رضی اللہ تعالی عنہم کا مذہب معلوم ومشہور اور عامہ کتب مذہب میں مذکور ومسطور ہے کہ بلاتداعی مضائقہ نہیں اور تداعی کے ساتھ مکروہ ۔ تداعی ایک دوسرے کو بلانا جمع کرنا اور اسے کثرت جماعت لازم عادی ہے۔

بالجملہ دو مقتدیوں میں بالاجماع جائز اور پانچ میں بالاتفاق مکروہ اور تین اور چارمیں اختلاف نقل ومشائخ ،اور اصح یہ کہ تین میں کراہت نہیں، چار میں ہے، تو مذہب ِمختار یہ نکلاکہ امام کے سوا چار یا زائد ہوں تو کراہت ہے ورنہ نہیں پھر اظہر یہ ہے کہ یہ کراہت صرف تنزیہی ہے یعنی خلاف اولیٰ لمخالف التوارث، نہ تحریمی کہ گناہ وممنوع ہو ۔‘‘(فتاوی رضویہ ،ج7،ص 430تا431،مطبوعہ، رضا فاؤنڈیشن،لاھور )

بہار شریعت میں ہے :

”نوافل اور علاوہ رمضان کے وتر میں اگر تداعی کے طور پر ہو تو مکروہ ہے۔ تداعی کے یہ معنی ہیں کہ تین سے زیادہ مقتدی ہوں ۔ سورج گہن میں جماعت سنت ہے اور چاند گہن میں تداعی کے ساتھ مکروہ۔“(بہار شریعت، جلد 1 ،حصہ 3، صفحہ 586 ،مکتبہ المدینہ کراچی)

فتاویٰ مرکز تربیت افتاء میں ہے:

”جماعت نفل کے بارے میں ہمارے آئمہ کا مذہب معلوم ومشہور یہ ہے کہ بلاتداعی مضائقہ نہیں اور تداعی کے ساتھ مکروہ ہے لغت میں تداعی کا معنی بلانا اور جمع کرنا ہے لیکن مذہب اصح میں تداعی اس وقت متحقق ہوگی جب چار یا اس سے زائد مقتدی ہوں دو تین ہو تو کراہت نہیں اور کراہت صرف تنزیہی یعنی خلاف اولی ہے ۔۔۔۔۔۔لہذا شب قدر و شب برات میں میں نوافل جماعت کے ساتھ ادا کرنا ناجائز و گناہ نہیں بلکہ صرف مکروہ تنزیہی خلاف اولی ہے ۔“(فتاویٰ مرکز تربیت افتاء ،جلد 1 صفحہ 273، فقیہ ملت اکیڈمی)

در مختار میں ہے

’’ولا یتنفل قبلھا مطلقاوکذالا یتنفل بعدھا فی مصلاھا،فانہ مکروہ عند العامۃ وھذا للخواص اما العوام فلا یمنعون من تکبیر ولا تنفل اصلا لقلۃ رغبتھم فی الخیرات ان علیا رضی اللہ عنہ رای رجلا یصلی بعد العید فقیل اما تمنعہ یا امیر المؤمنین؟ فقال:اخاف ان ادخل تحت الوعید،قال اللہ تعالی{ارایت الذی ینھی عبدااذا صلی}‘‘

ترجمہ:نماز عید سے پہلے گھراور عید گاہ دونوں میںاور عیدین کے بعد فقط عید گاہ میں نوافل ادا کرنا عامۃ الفقہاء کے نزدیک مکروہ ہے ،لیکن یہ حکم خواص کے لئے ہے ،بہر حال عوام کو تکبیرات اوران نوافل سے بالکل منع نہیں کیا جائے گا کہ عوام کی پہلے ہی نیکیوں میںرغبت کم ہوتی ہے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک شخص کو نماز عید کے بعد (عید گاہ میں )نوافل ادا کرتے دیکھا ،تو ان سے عرض کی گئی : اے امیر المومنین آپ اسے منع کیوں نہیں کرتے ؟ارشاد فرمایا:میں ڈرتا ہوں کہ کہیں اس وعید میں نہ داخل ہو جاؤں کہ اللہ تبارک وتعالی نے ارشاد فرمایا:بھلا دیکھو تو جو منع کرتا ہے بندہ کو جب وہ نماز پڑھے۔(تنویر الابصار مع در مختار،کتاب الصلاۃ ، باب العیدین،ج 3 ،ص57تا60،مطبوعہ کوئٹہ)

حدیقہ ندیہ میں ہے

’’ومن ھذا القبیل نھی الناس عن صلاۃ الرغائب بالجماعۃ وصلاۃ لیلۃ القدر ونحو ذلک وان صرح العلماء بالکراھۃ بالجماعۃ فیھا ،لا یفتی بذلک للعوام لئلا تقل رغبتھم فی الخیرات وقد اختلف العلماء فی ذلک ۔۔۔ صنف فی جوازھا جماعۃ من المتاخرین، فابقاء العوام راغبین فی الصلاۃ اولی من تنفیرھم منھا‘‘

ترجمہ:اخلاق مذمومہ کی قبیل سے یہ بھی ہے کہ لوگوں کو صلوٰۃ الرغائب باجماعت ا دا کرنے،اورلیلۃ القدر کی رات اوراسی طرح دیگر مواقع پر نوافل ادا کرنے سے منع کر دیا جائے،اگرچہ علماء نے تصریح فرمائی ہے کہ باجماعت نوافل ادا کرنا مکروہ ہے مگرلوگوں کو اس کی کراہت کا فتوی نہیں دیا جائے گاتا کہ نیکیوں میںان کی رغبت کم نہ ہو ،بلکہ علماء ِ متاخرین نے تو اس کے جواز پر لکھا بھی ہے،لہٰذا عوام کو نماز کی طرف راغب رکھنا انہیں نفرت دلانے سے کہیں بہتر ہے۔(حدیقہ ندیہ ،الخلق الثامن والاربعون من الاخلاق الستین المذمومۃ،ج2،ص150،مطبوعہ مکتبہ نوریہ رضویہ،فیصل آباد )

فتویٰ رضویہ میں ہے :

’’نفل غیر تراویح میں امام کے سوا تین آدمیوں تک تو اجازت ہے ہی ،چار کی نسبت کتب ِفقہیہ میں کراہت لکھتے ہیں یعنی کراہت تنزیہہ جس کاحاصل خلاف اولیٰ ہے نہ کہ گناہ وحرام ۔ کما بیناہ فی فتاوٰنا(جیسا کہ ہم نے اس کی تفصیل اپنے فتاویٰ میں ذکر کردی ہے) اور بہت اکابر دین سے جماعت نوافل بالتداعی ثابت ہے اور عوام فعل خیر سے منع نہ کیے جائیں گے ۔ علمائے امت و حکمائے ملت نے ایسی ممانعت سے منع فرمایا ہے۔‘‘( فتاوی رضویہ،ج7،ص465،مطبوعہ، رضا فاؤنڈیشن،لاھور )

واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم

کتبـــــــــــــــــــــــــــہ

ممبر فقہ کورس

17رمضان المبارک1445ھ27مارچ 2024ء

اپنا تبصرہ بھیجیں