اپنی دوکا ن نائی کو کرایہ پر دینا

اپنی دوکا ن نائی کو کرایہ پر دینا

کیا فرماتے ہیں علماے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ نائی (hair dreesser) کو کرائے پر دکان دینا جائز ہے یا نہیں؟

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

نائی کو کرائے پر دکان دینا جائز ہے، جبکہ نائی کی دکان پر ہونے والے ناجائز کام جیسے داڑھی مونڈنا یا ایک مشت سے چھوٹی کرنا وغیرہ کاموں پر مدد کی نیت نہ ہو صرف کرائے پر دکان دینے سے ہی غرض ہو۔ البتہ ایسے لوگ جو دکان میں جائز و ناجائز دونوں طرح کے کام کرتے ہوں ان کو اپنی دکان کرائے پر دینے سے بچنا چاہیے۔

ہدایہ شریف میں ہے:

”من آجر بیتا لیتخذ فيه بیت نار أو کنیسة أو بیعة أو یباع فيه الخمر بالسواد فلا بأس به وھذا عند أبي حنیفة رحمه ﷲ تعالى“

ترجمہ: اگر کوئی شخص کرائے پر اس لیے مکان دے کہ وہاں آتش کدہ، گرجا یا کلیسا بنایا جائے گا یا عوام کو شراب فروخت کی جائے گی تو حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ ﷲ علیہ کے نزدیک اس میں کرائے پر مکان دینے والے کے لئے کوئی حرج نہیں۔(ہدایہ، کتاب الکراہیۃ، فصل فی البیع، جلد4، صفحہ378، دار المعرفۃ، بیروت)

خلاصة الدلائل في تنقيح المسائل شرح قدوری میں ہے:

”ولا بأس ببيع العصير ممن يعلم أنه يتخذه خمرا”. لأنه يصلح لأمور شتى، والمعصية إنما تحصل بفعل فاعل مختار، فلا يضاف إليه“

ترجمہ: ایسے شخص کو شیرہ بیچنے میں کوئی حرج نہیں کہ جس کے متعلق معلوم ہو کہ یہ اس شیرہ سے شراب بنائے گا؛ اس لیے کہ شیرہ مختلف کاموں میں استعمال ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے، اور گناہ بااختیار شخص کے اپنے فعل سے حاصل ہوتا ہے؛ اس لیے شیرہ بیچنے والے کی طرف گناہ کی نسبت نہیں کی جائے گی۔ (خلاصة الدلائل في تنقيح المسائل، كتاب الحظر والإباحة، جلد3، صفحہ348، دار النشر: جامعة أم القرى)

فتاوی بزازیہ میں ہے:

”كل موضع تعلقت المعصية بفعل فاعل مختار كما إذا آجر منزله لیتخذه بيعة أو كنيسة أو بيت نار يطيب له“

ترجمہ: ہر وہ صورت کہ جس کا تعلق بااختیار شخص سے ہو جیسے کوئی شخص اپنا گھر کسی کو عبادت خانہ، گرجا یا آتش کدہ بنانے کے لیے کرایہ پر دے تو اس کے لیے کرایہ حلال ہے۔ (فتاوی بزازیہ، کتاب الاجارات، جلد1، صفحہ486، مطبوعہ: دار الکتب العملیہ، بیروت)

امام اہلسنت اعلی حضرت رضی ﷲ تعالی عنہ فاحشہ عورت کو کرائے پر گھر دینے کے جواز کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

”گناہ کرنا نہ کرنا اس کا اپنا فعل ہے جیسے مکان، رنڈی زانیہ کو کرایہ پردینا۔“(فتاوی رضویہ، جلد24، صفحہ179، مطبوعہ: رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

فتاوی امجدیہ میں تصویر والے کو مسجد کی دکان کرائے پر دینے سے متعلق سوال کے جواب میں لکھا ہے:

”اس شخص کو دکان کرایہ پر دی جاسکتی ہے، مگر یہ کہہ کر نہ دیں کہ اس میں تصویر کھینچئے۔ اب یہ اس کا فعل ہے کہ تصویر بناتا ہے اور عذاب آخرت مول لیتا ہے۔ پھر بھی بہتر یہ ہےکہ مسجد کے آس پاس خصوصاً دکانِ مسجد کو محرمات سے پاک رکھیں اور ایسے کو کرایہ پر دیں جو جائز پیشہ کرتا ہو۔ “(فتاویٰ امجدیہ، جلد3، صفحہ272، مکتبہ رضویہ، کراچی)

فتاوی اہلسنت میں بیوٹی پارلر کے لیے کرائے پر دکان دینے کے متعلق لکھا ہے:

”اگرچہ ازروئے اجارہ بیوٹی پارلر کے لیے کرائے پر دکان دینا جائز ہے جبکہ بیوٹی پارلر میں ہونے والے ناجائز امور پر مدد کی نیت نہ کی جائے بلکہ محض اجارے سے ہی غرض ہو۔ تاہم ایسے لوگ جو دکان میں جائز و ناجائز دونوں قسم کے کام کریں گے ان کو اپنی دکان کرائے پر دینے سے بچنا چاہئے۔ “(دار الافتاء اہلسنت، ویب سائٹ، فتوی نمبر: 80، تاریخ اجراء: 18اکتوبر2017)

واللہ تعالی أعلم بالصواب

کتبه

ابو معاویہ محمد ندیم عطاری مدنی حنفی

نظر ثانی: ابو احمد مفتی انس رضا قادری

مؤرخہ 06رجب المرجب 1445ھ بمطابق 18جنوری 2024ء، بروز جمعرات

اپنا تبصرہ بھیجیں