امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کو اعلی حضرت کیوں کہا جاتا ہے؟
کیا اعلی حضرت علیہ الرحمہ کو اعلی حضرت کہنا درست ہے؟ کیونکہ دیگر بزرگان دین یا صحابہ کو تو محض حضرت کہا جاتا ہے ؟
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق و الصواب
اعلی حضرت رحمہ اللہ تعالی کو اعلی حضرت کہنا بالکل بجا اور درست ہے۔ اللّٰہ پاک نے ایمان والوں اور اہل علم کے درجات بلند فرمائے ہیں۔ علماء کرام کے علم و فضل کو مختلف القابات کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے۔اور یہ سلسلہ دور صحابہ سے جاری ہے، مثلاً حضرت ابوعبیدہ بن جراح رضی اللّٰہ عنہ کا لقب حضور علیہ السلام نےامت کا امین عطا فرمایا ، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللّٰہ عنہ کا لقب حِبْر یعنی مُتَبَحِّر عالِم احادیث میں موجود ہے۔امام ابوحنیفہ رحمہ اللّٰہ تعالی کا لقب امام اعظم بزرگان دین نے ذکر کیا۔ امام سرخسی امام حلوانی کا لقب شمس الائمہ، اسی طرح صاحب ہدایہ کا لقب شیخ الاسلام اور دیگر فقہاء کے لئے کمال الدین، برہان الدین وغیرہ القاب علماء نے ذکر فرمائے ہیں، جنہیں خواص و عوام لکھتے، بولتے ہیں، کوئی اعتراض نہیں کرتا۔ کیونکہ کسی بھی شخصیت کے جو القاب ہیں وہ اس دور کے ہم عصر دیگر شخصیات سے ممتاز کرنے کے لیے بولے جاتے ہیں۔ پہلے کے اکابرین و بزرگانِ دین یا صحابہ پر فضیلت ہرگز یہ مقصود نہیں ہوتی۔ معاذاللہ!
اب جو اعتراض لفظ “اعلی حضرت” پر کیا جائے تو وہ تو گزشتہ القاب پر بھی ہو سکتا ہے کہ امین الامت ابوعبیدہ ہیں، حِبر یعنی مُتَبَحِّر عالم عبداللہ بن مسعود ہیں، تو کیا خلفاء راشدین رضی اللّٰہ عنھم میں یہ کمالات نہیں ؟
اسی طرح لقب صدیق اکبر، فاروق اعظم پر بھی کوئی اعتراض کرے گا کہ سب سے بڑے صدیق و فاروق اعظم تو حضور صلی اللّٰہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم ہیں۔ تو ابکر و عمر کےلئے کیوں استعمال کیا جاتا ہے۔ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہما۔
امام ابوحنیفہ کو امام اعظم کہا جاتا ہے جبکہ عموماً صحابہ کے نام کے ساتھ لفظ امام بھی نہیں لگایا جاتا، اہلبیت کی ہستیوں کے نام کے ساتھ صرف امام لکھا،بولا جاتا ہے، حالانکہ وہ شریعت و طریقت کے بڑے امام ہیں۔ تو امام ابوحنیفہ کو امام اعظم کیوں کہا جاتا ہے ؟
پتہ چلا کہ کسی بھی شخصیت کے لقب سے ہرگز یہ مراد نہیں ہوتا کہ اس سے بڑے مرتبے والے، بزرگانِ دین پر برتری دی جا رہی ہے بلکہ اس کے ہم عصر اور اس کے زمانے کے جو حضرات ہیں ان سے ممتاز کرنے کے لیے بزرگ کو کسی لقب سے ملقب کیا جاتا ہے۔ اسے اس مثال سے سمجھیں کہ “قائد اعظم” مسٹر محمد علی جناح کو کہا جاتا ہے۔ تو کوئی یہ اعتراض کرے کہ مسلمانوں کے سب سے بڑے لیڈر تو حضور علیہ الصلوۃ والسلام ہیں تو کسی اور کو یہ کیوں کہا گیا؟
اعلی حضرت علیہ رحمۃ رب العزت کو اعلی حضرت کہنا بھی اسی طرح ہے کہ ان کے دور کے علماء پر ان کو فضیلت حاصل ہے نہ کے پہلے اکابرین پر، چہ جائیکہ صحابہ کرام کی بات کی جائے۔ تو مشائخ عظام و علماء کرام نے ان کے علم و فضل کا اعتراف کر کے انہیں اعلی حضرت کے لقب سے یاد کیا، چشم و چراغ خاندان برکاتیہ شاہ احمد حسین نوری، حضرت محدث سورتی، محدث اعظم ہند وغیرہ بے شمار علماء و فقہاء نے سیدی امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن کو “اعلی حضرت” کہہ کر سلام عقیدت و محبت پیش کیا۔
نیز اور بھی بزرگ ہستیوں کو اعلی حضرت کہا جاتا ہے جیسے حضور سیدی مہر طریقت رہبر شریعت پیر سید مہر علی شاہ رحمۃ اللہ تعالی علیہ کو اعلی حضرت کہا جاتا ہے۔
مزید یہ کہ کئی مریدین و محبین اپنے صاحب مزار بزرگوں کے لیے بھی لفظ اعلی حضرت استعمال کرتے ہیں اور علمائے حق اس سے منع نہیں کرتے۔ جبکہ وہ ممدوح نیک صالح متقی پرہیز عالِم دین ولیُّ اللہ ہوں۔
اللّٰہ پاک نے ارشاد فرمایا:
”یَرْفَعِ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ دَرَجٰتٍ“
ترجمۂ کنز العرفان:اللہ تم میں سے ایمان والوں کے اور ان کے درجات بلند فرماتا ہے جنہیں علم دیا گیا۔(پارہ 28،سورۃ المجادلہ،آیت:11)
مشکوۃ المصابیح میں متفق علیہ حدیث پاک ہے:
”وَعَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” لِكُلِّ أُمَّةٍ أَمِينٌ وَأَمِينُ هَذِهِ الْأُمَّةِ أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ. (مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ)“
روایت ہے حضرت انس سے فرماتے ہیں فرمایا رسول الله صلی الله علیہ و سلم نے کہ ہر امت کا کوئی امین ہوتا ہے اور اس امت کا امین ابو عبیدہ ابن جراح ہیں۔ بخاری و مسلم۔ (مشکوٰۃ المصابیح،کتاب الفضائل،دس صحابہ کے فضائل ،فصل اول،ج2، ص573، مطبوعہ لاہور)
اس حدیث کے تحت مرآۃ المناجیح میں ہے:
”یعنی ہر امت میں بعض لوگ ایسے گزرے ہیں کہ ان پر قوم پورا پورا بھروسہ کرتی تھی سب کو ان پر اعتماد تھا،ثقہ اور قوم میں پسندیدہ تھے،میری امت میں ان صفات کے ایسے مظہر حضرت ابو عبیدہ ہیں جو الله تعالیٰ اور مخلوق اور اپنے نفس کے حقوق پورے پورے ادا کرتے ہیں ان میں کسی قسم کی خیانت نہیں کرتے۔خیال رہے کہ یہ صفات تمام صحابہ میں تھیں مگر حضرت ابوعبیدہ میں علی وجہ الکمال تھیں اور حضرت ابو عبیدہ میں امانت داری کے سواء اور بہت صفات تھیں مگر یہ صفات نمایاں تھی اس لیے فرمایا کہ اس امت کے امین ابو عبیدہ ہیں لہذا اس سے نہ تو یہ لازم ہے کہ باقی صحابہ امین نہ تھے،نہ یہ کہ جناب ابوعبیدہ میں سوائے امانت داری کے اور کوئی صفت نہ تھی۔“ (مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح، کتاب الفضائل ،دس صحابہ کے فضائل ،فصل اول، جلد:8، حدیث نمبر:6115، ایپ فیضان حدیث)
بخاری شریف میں ہے:
”فقال لاتسئلونی مادام الحبر فیکم“
یعنی حضرت ابوموسٰی اشعری رضی اللّٰہ عنہ نے فرمایا جب تک یہ متبحر عالِم یعنی حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللّٰہ عنہ تمارے درمیان موجود ہوں مجھ سے کوئی مسئلہ دریافت نہ کیا کرو۔(بخاری،کتاب المیراث،باب میراث ابنۃ ابن مع ابنۃ، ج2، ص997 ، مطبوعہ کراچی)
حافظ شمس الدین الذہبی امام ابوحنیفہ رحمہ اللّٰہ کا تذکرہ کرت ہوئے لکھتے ہیں:
”أبو حنيفة الإمام الأعظم فقيه العراق النعمان بن ثابت بن زوطا … وكان إماما ورعا عالما عاملا متعبدا كبير الشأن لا يقبل جوائز السلطان بل يتجر ويتكسب“
ترجمہ:ابو حنیفہ ، امام اعظم، فقیہ عراق، نعمان بن ثابت بن زوطا،… آپ امام، پرہیزگار، عالم، عامل، عبادت گزار اور بڑی شان کے مالک تھے۔ آپ نے کبھی سلطان کے تحائف قبول نہیں کئے بلکہ تجارت اور اپنے ہاتھ کی روزی سے گزارہ کیا۔(تذكرة الحفاظ، ج 1، ص 126-127)
حضور داتا گنج بخش علی ہجویری علیہ الرحمہ(سال وفات:465ھ) نے امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللّٰہ کا یوں ذکر فرمایا:
”امام الائمہ مقتدائے اہلسنت شرف فقہاء عزِّ علماء سیدنا امام اعظم ابوحنیفہ نعمان بن ثابت رضی اللّٰہ تعالی عنہ“(کشف المحجوب مترجم، صفحہ 158، مطبوعہ زاویہ پبلیشرز لاہور)
برہان الدین ابوالحسن علی بن ابوبکر فرغانی حنفی علیہ الرحمہ (سال وفات:593ھ)نے ایک سے زائد مقامات پر امام سرخسی کا “شمس الائمہ” لقب کے ساتھ ذکر کیا۔
”كذا ذكره شمس الأئمة السرخسي“
اسی طرح شمس الائمہ سرخسی نے ذکر کیا۔(ہدایہ شرح بدایہ، کتاب البیوع، باب خیار الرؤیۃ ، ج3 ص36، دار احیاء التراث العربی بیروت)
برہان الدین ابوالمعالی محمود بن احمد بخاری حنفی(سال وفات: 616ھ) نے محیط میں سینکڑوں بار “شمس الائمہ” لقب ذکر کیا، امام حلوانی کا یوں ذکر کیا ہے۔
”وذكر شمس الأئمة الحلواني رحمه الله“
اور شمس الائمہ حلوانی نے ذکر کیا۔(المحیط البرہانی فی الفقہ النعمانی، الفصل الأول في الوضوء، ج1 ،ص33، دار الکتب العلمیہ بیروت)
انہوں نے ہی اپنی کتاب میں امام سرخی کے لئے “شیخ الاسلام” لقب ذکر کیا:
”وذكر شيخ الإسلام السرخسي“
اور شیخ الاسلام سرخسی نے ذکر کیا۔(المحیط البرہانی فی الفقہ النعمانی،قبیل فصل الكلام في صلاة الخوف، ج1 ،ص242 ،دار الکتب العلمیہ بیروت )
امام کمال الدین محمد ابن ہمام حنفی(سال وفات:681ھ) نے صاحب ہدایہ کے لئے دیگر القاب کے ساتھ”شیخ الاسلام”کا لقب لکھا:
”فهذا تعليق على كتاب الهداية للإمام العلامة برهان الدين أبي الحسن علي بن أبي بكر بن عبد الجليل الرشداني المرغيناني شيخ الإسلام، أسكنه الله برحمته دار السلام“
یعنی یہ(فتح القدیر)امام شيخ الإسلام علامة برهان الدين أبو الحسن علي بن أبو بكر بن عبد الجليل الرشداني المرغيناني کی کتاب ہدایہ کی شرح ہے۔ اللّٰہ اپنی رحمت کے سبب انہیں جنت میں جگہ دے۔ (خطبہ فتح القدیر، ج1، ص7، دار الفکر بیروت)
اسی فتح القدیر کے مقدمے میں تکملہ شرح فتح القدیر بنام: “نتائج الافکار فی کشف الرموز والاسرار” کے مصنف کا ذکر ان الفاظ کے ساتھ موجود ہے:
علامہ شیخ شمس الدین احمد المعروف بقاضی زادہ (المتوفی سنۃ 988ھ)
کتاب “فیضان اعلی حضرت” میں “سوانح امام احمد رضا”صفحہ 8، کے حوالے سے ہے:
”خاندان کے لوگ امتیاز و تعارف کے طور پر اپنی بول چال میں انہیں (یعنی سیدی امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن کو) اعلی حضرت (یعنی بڑے حضرت) کہتے تھے معارف و کمالات اور فضائل و مکارم میں اپنے معاصرین کے درمیان برتری کے لحاظ سے یہ لفظ اپنے ممدوح کی شخصیت پر اس طرح منطبق ہو گیا کہ آج ملک کے عوام و خواص ہی نہیں بلکہ ساری دنیا کی زبانوں پر چڑھ گیا۔ اور اب قبول عام کی نوبت یہاں تک پہنچ گئی کیا موافق کیا مخالف، کسی حلقے میں بھی اعلی حضرت کہے بغیر شخصیت کی تعبیر ہی مکمل نہیں ہوتی۔ “(فیضان اعلی حضرت، صفحہ 78، مطبوعہ شبیر برادرز لاہور)
ملک العلماء خلیفہ اعلی حضرت مولانا ظفر الدین بہاری علیہ الرحمہ لکھتے ہیں:
”حضرت سیدنا شاہ ابو الحسین احمد نوری علیہ الرحمہ اعلی حضرت کے پیر و مرشد حضرت شاہ آل رسول مارہروی علیہ الرحمہ کے پوتے اور سجادہ نشین تھے، اعلی حضرت سے خصوصیت کے ساتھ محبت فرمایا کرتے تھے، اکثر دعا فرمایا کرتے تھے: الہی میری عمر میں سے اعلی حضرت کو عطا فرمائے۔“(حیات اعلی حضرت صفحہ 1006، مطبوعہ مکتبہ نبویہ لاہور، فیضان اعلی حضرت صفحہ 329، شبیر برادرز لاہور)
حضرت مولانا شاہ وصِیّ احمد محدث سورتی اعلی حضرت علی رحمہ کے ہم عصر تھے زبردست محدث فقیہ اور عالم دین تھے آپ بھی اعلی حضرت کی بے انتہا قدردانی فرمایا کرتے۔
حضرت محدث اعظم ہند مولانا سید محمد محدث کچھوچھوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
”میرے استاد، فن حدیث کے امام، مولانا شاہ وصِیّ احمد صاحب محدث سورتی سے ایک بار میں نے پوچھا کہ آپ تو مولانا شاہ فضل الرحمن گنج مراد ابادی سے مرید ہیں لیکن میں دیکھتا ہوں کہ آپ کو جتنی عقیدت و محبت اعلی حضرت سے ہے وہ کسی سے نہیں، اعلی حضرت کی یاد، ان کا تذکرہ، ان کے علم و فضل کا خطبہ آپ کی زندگی کے لیے روح کا مقام رکھتا ہے اس کی کیا وجہ ہے تو حضرت محدث سورتی نے فرمایا سب سے بڑی دولت وہ علم نہیں جو میں نے مولوی اسحاق محشی بخاری سے پایا۔ اور سب سے بڑی نعمت وہ بیعت نہیں جو میں مجھے مولانا شاہ فضل الرحمن صاحب گنج مراد ابادی سے حاصل ہوئی۔ بلکہ سب سے بڑی دولت اور سب سے بڑی نعمت وہ ایمان ہے جو مدار نجات ہے وہ میں نے صرف اعلی حضرت سے پایا اور میرے سینے میں پوری عظمت کے ساتھ مدینے کے بسانے والے اعلی حضرت ہی ہیں اسی لیے ان کے تذکرے سے میری روح میں بالیدگی پیدا ہوتی ہے اور ان کے ایک ایک کلمے کو اپنے لیے مشعل ہدایت جانتا ہوں۔ میں نے عرض کیا علم الحدیث میں وہ آپ کے برابر ہیں فرمایا:ہرگز نہیں۔ پھر فرمایا شہزادے صاحب آپ کچھ سمجھے کہ ہرگز نہیں۔ کا کیا مطلب ہے؟ سنیئے اعلی حضرت اس فن میں “امیر المومنین فی الحدیث” ہیں کہ میں سالہا سال صرف اس فن میں تلمذ یعنی شاگردی کروں تو بھی ان کا پاسنگ نہ ٹھہروں۔“(تجلیات امام احمد رضا از مولانا قاری امانت رسول صفحہ نمبر 60 مطبوعہ برکاتی کراچی ، فیضان اعلی حضرت صفحہ 332، شبیر برادرز لاہور)
حضرت مفتی محمد نظام الدین رضوی مدظلہ العالی فرماتے ہیں:
”اعلی حضرت کا معنی ہے ” بڑے حضرت” عام طور پر علما و حفاظ و قراء و مشایخ کو حضرت کے لقب سے پکارتے ہیں، یہ حضرات معظم ہوتے ہیں اور ان کی عظمت کے اظہار کے لیے یہ لفظ عرفاً مناسب ہے۔ اور اگر کسی عالم دین کو اللہ عزوجل نے اس کے عصر میں سب سے افضل و ممتاز کیا ہو، مجدد اسلام کے شرف سے نوازا ہو، وہ علماے صغار و کبار کا مرجع ہو تو حضرت کے لفظ سے علماے زمانہ میں اس کی افضلیت کا اظہار نہیں ہو سکتا، اس لیے علما و مشایخ نے مجدد اسلام، امام احمد رضا رحمہ اللہ تعالی کے لیے اعلی حضرت کا لقب پسند کیا۔ وہ یقینا اپنے علم و فضل کے لحاظ سے کئی صدیوں کے علما میں بڑے حضرت اور اعلی حضرت تھے اور آج بھی ہیں۔
اگر عام طور پر علما و مشایخ کو حضرت کہنے میں کوئی حرج نہیں تو جو ان سب میں افضل و ممتاز ہو اسے اعلی حضرت کہنے میں بھی کوئی حرج نہیں سمجھنا چاہیے۔
جیسے امام ابو حنیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کو دوسرے ائمہ مذاہب پر فوقیت و فضیلت حاصل ہے تو انھیں امام اعظم کہا جاتا ہے،
اولیا میں حضور غوث پاک کا مرتبہ سب سے اونچا ہے تو انھیں غوث اعظم کہا جاتا ہے،
اور کچھ اسی طرح کے فضائل و امتیازات کی بنا پر پہلے کے کچھ فقہا و محدثین کو شیخ الاسلام، صدرالشریعہ، تاج الشریعہ، امام المحدثین وغیرہ القاب سے یاد کیا جاتا ہے۔
حالانکہ انھیں امام، غوث اور شیخ و فقیہ و محدث کہنا بھی بجا تھا مگر ان کے علم و فضل کا اظہار انھی القاب سے ہوتا ہے اس لیے صدیوں پہلے کے علما و فقہا و محدثین نے اس طرح کے تعظیمی القاب ان کے لیے اختیار فرمائے ایسے ہی لفظ حضرت اور اعلی حضرت کو بھی عرف زمانہ کے تناظر میں سمجھنا چاہیے۔
مسلم کامل کے لیے اعلیٰ کا لفظ بولنا قرآن حکیم کی آیت کریمہ وَاَنتُمُ الْاَعْلَوْنَ سے ثابت ہے کہ اَلاَعْلَونَ جمع ہے اعلی کی، تو ایک عالم کامل کے لیے حضرت کے ساتھ اعلیٰ کا لفظ لگا کر اعلیٰ حضرت بولنا بھی بجا ہوگا۔
اس طرح کے القاب پہلے اور بعد کے تمام زمانوں کو سامنے رکھ کر نہیں چنے جاتے بلکہ اپنے زمانے کو سامنے رکھ کر چنے جاتے ہیں اس لیے یہ حقیقت ہمیشہ ملحوظ خاطر رہنی چاہیے۔ در اصل اعلی حضرت کا لفظ تعظیم و عزت کا لقب ہے جو بڑے علما و مشایخ اور بادشاہوں کے لیے بولا جاتا ہے، ایسا نہیں کہ مجدد اسلام کے لیے پہلی مرتبہ اس کی ایجاد ہوئی۔ یہاں تک کہ جو لوگ عقائد میں امام احمد رضا رحمہ اللہ تعالی سے عناد رکھتے ہیں اور انھیں اعلی حضرت کہنے پر غیر مناسب بنیادوں پر اعتراض کرتے ہیں وہ بھی اپنے بزرگوں اور علما کے لیے یہ لفظ بولتے رہے ہیں جیسا کہ تذکرہ رشید احمد وغیرہ میں اس کے شواہد موجود ہیں۔“(دارالاِفتاء جامعہ اشرفیہ، فتاوی
1267، مبارکپور ہند )
واللّٰہ تعالی اعلم و رسولہ اعلم باالصواب
صلی اللّٰہ تعالی علیہ و علی آلہ و اصحابہ و بارک و سلم
ابوالمصطفٰی محمد شاہد حمید قادری
11رجب المرجب1445ھ
23جنوری2023ء، منگل