اقامت میں کب کھڑے ہو ں؟

اقامت میں کب کھڑے ہو ں؟

کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس بارے میں کہ اقامت بیٹھ کر سننی چاہیئے یا کھڑے ہو کر ؟ اگر بیٹھ کر سننی ہے تو کب تک بیٹھنا ہے ؟

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

الجواب بعون الملک الوہاب الھم ہدایۃ الحق و الصواب

صورت مسئولہ کا حکم یہ ہے کہ اقامت بیٹھ کر سننا سنت اور”حی علی الفلاح“ پر کھڑے ہونا مستحب ہے۔کھڑے ہوکر اقامت سننا مکروہ عمل ہےاور دیوبندی وہابی جو خود کو حنفی کہتے ہیں دیگر مسائل کی طرح اس مسئلہ میں بھی فقہ حنفی کی مخالفت کرتے ہیں۔صحابہ کر ام سے اور کتب فقہ میں صراحت ہےکہ اقامت بیٹھ کرسنی جائے، باقی کس وقت اٹھیں اس میں مختلف روایتیں ہیں، بعض کے نزدیک ”قد قامت الصلوۃ“پر کھڑا ہونا ہےا ور بعض کے نزدیک ”حی علی الصلوۃ“ پر اور کثیر فقہاء نے فرمایا ”حی علی الفلاح“ پر کھڑا ہونا چاہیے۔

بعض علماء نے تطبیق دی ہے کہ ”حی علی الصلوۃ“پر کھڑا ہونا شروع ہو اور ”حی علی الفلاح“ پر مکمل کھڑا ہو جائے تاکہ مؤذن کے اس قول: قدقامت الصلاۃ یعنی جماعت کھڑی ہوئی، سے مطابقت ہو جائے اور اس سے پہلے لوگ کھڑے ہو چکے ہوں۔

مزید اس مسئلہ کی بیان کردہ صورتیں مندرجہ ذیل ہیں:

(1): پہلی اور عام صورت جو پیش آتی ہے وہ یہ کہ اگر مؤذن امام کا غیر ہو اور امام و مقتدی مسجد میں ہوں تو علماء ثلاثہ یعنی حضرت امام اعظم ابوحنیفہ، امام ابویوسف اور امام محمد رحمۃ اللّٰہ تعالی علیہم کے نزدیک امام اور مقتدی بیٹھ کر تکبیر سنیں، اس وقت کھڑے ہوں جب مؤذن ”حَیَّ عَلَی الْفَلَاح“ کہے اور یہی صحیح قول ہے۔

(2): دوسری یہ کہ امام مسجد سے باہر ہو، تو اگر امام صفوں والی جانب سے داخل ہو تو جس جس صف سے امام تجاوز کرے اس صف والے کھڑے ہو جائیں۔

(3): تیسری یہ کہ اگر امام مسجد میں سامنے سے داخل ہو تو نمازی جیسے ہی امام کو دیکھیں کھڑے ہو جائیں۔

(4):چوتھی یہ کہ موذن اور امام ایک ہی ہے، تو اگر امام خود ہی اقامت کہے تو قوم کھڑی نہ ہو جب تک کہ امام اقامت سے فارغ نہ ہو جائے۔

(5): پانچویں صورت یہ ہے کہ اگر اقامت مسجد کے باہر کہے تو ہمارے مشائخ کا اتفاق ہے کہ نمازی اس وقت کھڑے ہوں جب امام مسجد میں داخل ہو جائے۔

امام بیہقی اپنی السنن ُالکبریٰ میں سیدنا عبد اللہ بن ابی اوفیٰ صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا

’’کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اذا قال بلال قد قامت الصلوٰۃ نھض فکبّر‘‘

ترجمہ: جب حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ اقامت میں ’’قد قامت الصلوٰۃ‘‘ کہتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُٹھ کھڑے ہوتے پھر اللہ اکبر کہتے۔(السنن الکبریٰ بیہقی، کتاب الصلوٰۃ، باب من زعم انہ یکبر قبل فراغ المؤذن من الاقامۃ،،حدیث2345،جلد2،صفحہ304، دارالفکر ، بیروت)

موطا امام محمد میں ہے:

”قال محمد ینبغی للقوم اذا قال المؤذن حی علی الفلاح ان یقوم الی الصلوۃ فیصفوا ویسو والصفوف“

یعنی محرر مذہب حنفی حضرت امام محمد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ تکبیر کہنے والا جب حی علی الفلاح پر پہنچے تو متقدیوں کو چاہئے کہ نماز کے لئے کھڑے ہوں پھر صف بندی کرتے ہوئے صفوں کوسیدھی کریں۔ (موطا امام محمد، باب تسویۃ الصف، ص 88)

بخاری شریف کی حدیث پاک ”اذا اقیمت الصلٰوۃ فلا تقوموا حتی ترونی“ کے تحت ”عمدۃ القاری شرح بخاری“ میں صحابۂ کرام کے عمل کے بارے میں ہے:

”وکان انس رضی اللہ تعالٰی عنہ یقوم اذا قال المؤذن قد قامت الصلٰوۃ“

یعنی حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ اس وقت کھڑے ہوتے تھے جب مؤذن “قد قامت الصلوۃ” کہتا۔

مزید اسی صفحہ پر ہے:

”و فی المصنف کرہ ھشام یعنی ابن عروہ ان یقوم حتی یقول المؤذن قد قامت الصلوۃ“

یعنی مصنف میں ہے کہ ہشام بن عروہ اقامت میں قَدْ قَامَتِ الصَّلوۃُ سے پہلے کھڑے ہو نے کو مکروہ جانتے تھے۔(عمدۃ القاری شرح بخاری، کتاب الاذان، باب متی یقوم الناس للصلٰوۃ، ج5، ص224، دارالکتب العلمیہ بیروت)

مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح میں ہے:

”قال ائمتنا یقوم الامام والقوم عند حی علی الصلاۃ“

یعنی ہمارے ائمہ کرام نے فرمایا کہ امام اور مقتدی حی علی الصلاۃ کے وقت کھڑے ہوں۔(مرقاۃ شرح مشکوٰۃ، جلد اوّل، ص 419)

حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی بخاری رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں:

فقہا گفتہ اند مذہب آنست نزدحی علی الصلاۃ باید برخاست۔

یعنی فقہائے کرام نے فرمایا مذہب یہ ہے کہ حی علی الصلاۃ کے وقت اٹھنا چاہئے۔(اشعۃ اللمعات شرح مشکوۃ، جلد اوّل ،ص321)

علامہ ابو بکر بن مسعود کاسانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی بدائع الصنائع میں فرماتے ہیں:

”والجملۃ فیہ ان المؤذن اذا قال حی علی الفلاح فان کان الامام معھم فی المسجد یستحب للقوم ان یقوم فی الصف“

یعنی خلاصۂ کلام یہ کہ امام قوم کے ساتھ مسجد میں ہو تو سب کو اس وقت کھڑا ہو نا مستحب ہے جب مؤذن حَیَّ عَلَی الْفَلَاح کہے۔( بدائع الصنائع،كتاب الصلاة، فصل بيان حكم التكبير أيام التشريق، ج1 ،ص200، دار الكتب العلميه بيروت)

تَبْیِیْنُ الْحَقَائِق میں ہے:

”والقیام حین قیل حی الفلاح لانہ امر بہ و یستحب المسارعۃ الیہ“(تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق،ج 1،ص283)

حاشیۂ شلبی علی التبیین میں ہے:

”قال فی الوجیز: والسنۃ ان یقوم الامام و القوم اذا قال المؤذن حی علی الفلاح اھ و مثلہ فی المبتغی“

یعنی وجیز میں ہے:سنّت یہ ہے کہ امام اور قوم اس وقت کھڑے ہوں جب موذن حَیَّ عَلَی الْفَلَاح کہے۔ اسی بات کے مثل”المبتغی“ میں ہے۔(حاشیہ شلبی علی تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق، ج1، ص283)

تنویر الابصار مع درمختار میں ہے:

”(والقيام) لإمام ومؤتم (حين قيل حي على الفلاح) خلافا لزفر؛ فعنده عند حي على الصلاة ابن كمال (إن كان الإمام بقرب المحراب وإلا فيقوم كل صف ينتهي إليه الإمام على الأظهر وإن) دخل من قدام حين يقع بصرهم عليه إلا إذا أقام الإمام بنفسه في مسجد فلا يقفوا حتى يتم إقامته ظهيرية، وإن خارجه قام كل صف ينتهي إليه بحر“

ترجمہ:امام اور مقتدی کا قیام اس وقت ہوگا جب حی الفلاح کہا جائے۔ بر خلاف امام زفر کے کہ ان کے نزدیک حی علی الصلاۃ کے وقت کھڑا ہونا ہے،ابن کمال، اگر امام محراب کے قریب ہو۔ ورنہ یعنی اگر محراب کے قریب نہ ہو تو ہر صف والے اس وقت کھڑے ہو جائیں جب امام ان تک پہنچے، اظہر قول پر۔ اور اگر امام اگے،سامنے سے داخل ہو تو اس وقت کھڑے ہوں جب ان کی انکھ امام پر پڑھے۔ مگر جب امام خود اقامت کہے مسجد میں تو کھڑے نہ ہو حتی کہ امام اقامت پوری کر لے، ظہیریہ۔ اور اگر امام مسجد سے باہر اقامت کہے تو ہر صف والے اس وقت کھڑے ہوں جب ان تک امام پہنچے،بحر۔

اس کے تحت فتاوی شامی میں ہے:

”کذا فی الکنز ونور الایضاح والاصلاح والظھیریۃ والبدائع وغیرھا والذی فی الدرر متنا وشرحا عند الحیعلۃ الاولی:یعنی حیث یقال حی علی الصلاۃ اھ وعزاہ الشیخ اسماعیل فی شرحہ الی عیون المذاھب والفیض والوقایۃ والنقایۃ والحاوی والمختار اھ قلت واعتمدہ فی متن الملتقی،وحکی الاولی بقیل، لکن نقل ابن الکمال تصحیح الاول ونص عبارتہ:قال فی الذخیرۃ: یقوم الامام والقوم اذا قال الموذن حی علی الفلاح عند علمائنا الثلثۃ“

یعنی اسی طرح (1)کنز (2) نور الایضاح (3)اِصلاح (4)ظہیریہ (5)بدائع وغیرہ میں ہے، (6)درر کے متن اور شرح میں یہ ہے کہ حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃ کہنے پر کھڑا ہو، شیخ اسماعیل رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے اس قول کو (7) عیون المذاھب (8)فیض (9) وقایہ (10)نقایہ (11)حاوی (12) مختار کی طرف منسوب فرمایا، میں کہتا ہوں کہ اس پر (13)ملتقی کے متن میں اعتماد کیا ہے، اور پہلے کو قیل کے ساتھ نقل کیا ہے، لیکن علامہ ابنِ کمال رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے پہلے قول ہی کی تصحیح نقل کی ہے ان کی عبارت یہ ہے: (14)ذخیرہ میں فرمایا: ”امام اور مقتدی اس وقت کھڑے ہوں جب مؤذن حَیَّ عَلَی الْفَلَاح کہے یہی ہمارے علماء ثلاثہ کے نزدیک حکم ہے۔(درمختار مع رد المحتار،کتاب الصلاۃ، آداب الصلٰوۃ، ج1، ص479، دار الفکر بیروت)

ردالمحتار میں ہے:

”يقوم الإمام والقوم إذا قال المؤذن حي على الفلاح عند علمائنا الثلاثة. وقال الحسن بن زياد وزفر: إذا قال المؤذن قد قامت الصلاة قاموا إلى الصف وإذا قام مرة ثانية كبروا والصحيح قول علمائنا الثلاثة“

ترجمہ:امام اور مقتدی اس وقت کھڑے ہوں گے جب مؤذن حی الفلاح کہے ہمارے تینوں علماء کے نزدیک۔ اور امام حسن بن زیاد اور زفر نے کہا جب موذن کہے قدقامت الصلوۃ تو صف بنانے کے لئے کھڑے ہو جائیں۔ اور صحیح علمائے ثلاثہ یعنی

حضرت امامِ اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ و امام ابو یوسف و محمد رحمہما اللہ تعالی کا قول ہے۔(درمختار مع رد المحتار،کتاب الصلاۃ، آداب الصلٰوۃ، ج1، ص479، دار الفکر بیروت)

درمختار میں ہے:

دخل المسجد والمؤذن يقيم قعد إلى قيام الإمام في مصلاه.

ترجمہ:مسجد میں داخل ہوا اور مؤذن اقامت کہہ رہا ہے تو امام کے مصلی پر کھڑا ہونے تک بیٹھ جائے۔

اس کے تحت ردالمحتار میں ہے:

”یکرہ لہ الانتظار قائماً و لکن یقعد ثم یقوم اذا بلغ المؤذن حی علی الفلاح“

یعنی کھڑے ہو کر انتظارِ نماز نہ کرے کہ مکروہ ہے، بلکہ بیٹھ جائے پھر جب مؤذن ”حَیَّ عَلَی الْفَلَاح“ کہے تو کھڑا ہو۔(درمختار مع ردالمحتار،كتاب الصلاة، باب الاذان، ج1،ص400، دار الفكر بيروت)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

”اذا دخل الرجل عند الاقامۃ یکرہ لہ الانتظار قائما لکن یقعد ثم یقوم اذا بلغ المؤذن قولہ حی علی الفلاح کذا فی المضمرات.

إن كان المؤذن غير الإمام وكان القوم مع الإمام في المسجد فإنه یقوم الامام والقوم اذاقال المؤذن حی علی الفلاح عند علمائنا الثلثۃ ھوالصحیح فأما إذا كان الإمام خارج المسجد فإن دخل المسجد من قبل الصفوف فكلما جاوز صفا قام ذلك الصف وإليه مال شمس الأئمة الحلواني والسرخسي وشيخ الإسلام خواهر زاده وإن كان الإمام دخل المسجد من قدامهم يقومون كما رأى الإمام وإن كان المؤذن والإمام واحد فإن أقام في المسجد فالقوم لا يقومون ما لم يفرغ من الإقامة وإن أقام خارج المسجد فمشايخنا اتفقوا على أنهم لا يقومون ما لم يدخل الإمام المسجد“

ترجمہ:جب آدمی اقامت کے وقت داخل ہو تو کھڑے ہو کر انتظار کرنا مکروہ ہے لیکن بیٹھ جائے پھر اس وقت کھڑا ہو جب مؤذن اپنے قول حی علی الفلاح تک پہنچے.اسی طرح مضمرات میں ہے۔اگر مؤذن امام کے علاوہ ہو اور قوم امام کے ساتھ مسجد میں ہو تو علماء ثلاثہ یعنی حضرت امام اعظم، امام ابویوسف اور امام محمد رحمۃ اللہ علیہم اجمعین کے نزدیک امام اور قوم یعنی مقتدی اس وقت کھڑے ہوں جب مؤذن حی علی الفلاح کہے۔ اور یہی صحیح قول ہے۔ اور جب امام مسجد سے باہر ہو تو اگر امام داخل ہوا صفوں والی جانب سے تو جیسے جیسے وہ صف سے تجاوز کرے اس صف والے کھڑے ہو جائیں اور اسی کی طرف مائل ہوئے شمس الائمہ حلوانی اور سرخسی اور شیخ الاسلام خواہر زادہ۔ اور اگر امام مسجد میں سامنے سے داخل ہو تو نمازی کھڑے ہو جائیں جب امام کو دیکھیں۔ اور اگر موذن اور امام ایک ہی ہے تو اگر امام خود ہی اقامت کہے تو قوم کھڑی نہ ہو جب تک امام اقامت سے فارغ نہ ہو جائے اور اگر اقامت مسجد کے علاوہ یعنی مسجد سے باہر کہے تو ہمارے مشائخ کا اتفاق ہے کہ وہ کھڑے نہیں ہوں گے جب تک امام مسجد میں داخل نہ ہو جائے۔(الفتاوی الہندیۃ،کتاب الصلوٰۃ، الفصل الثانی فی کلمات الاذان والاقامۃ و کیفیتھا، ج1، ص57، دارالفکر بیروت)

مراقی الفلاح و طحطاوی میں ہے:

”(و) من الأدب (القیام) أی قیام القوم والامام ان کان حاضرا بقرب المحراب (حین قیل) أی وقت قول المکبر (حی علی الفلاح) لأنہ أمربہ فیجاب وإن لم يكن حاضرا يقوم كل صف حين ينتهي إليه الإمام في الأظهر…وفي عبارة بعضهم فكلما جاوز صفا قام ذلك الصف اهـ وإن دخل من قدامهم قاموا حين رأوه“

یعنی ادب میں سے یہ بات ہے کہ مقتدی اور امام اگر محراب سے قریب ہو تو دونوں مکبرکے حی علی الفلاح کہنے کے وقت کھڑے ہوجائیں۔ اس لیے کہ قول حی الفلاح میں نماز کی دعوت دی جاتی ہے۔ لہٰذا اس کی اجابت کرنا چاہیے(یعنی کھڑا ہونا چاہئے)۔اور اگر امام حاضر نہ ہو تو اظہر قول پر جس صف تک امام پہنچے اس صف والے کھڑے ہو جائیں۔ اور بعض کی عبارت میں یوں ہے کہ امام جس صف سے تجاوز کرے اس صف والے کھڑے ہو جائیں۔ اور اگر امام آگے سے آئے تو جب اسے دیکھیں کھڑے ہو جائیں۔(مراقی الفلاح مع طحطاوی، فصل:من آدابها، ص277-278، دار الكتب العلميه بيروت)

طحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے:

”واذا أخذ المؤذن فی الاقامۃ و دخل الرجل المسجد فانہ یقعد ولاینتظر قائما فانہ مکروہ کما فی المضمرات قہستانی ویفہم منہ کراہۃ القیام ابتداء الاقامۃ والناس عنہ غافلون“

یعنی مؤذن نے جب اقامت شروع کی اور کوئی شخص داخل مسجد ہوا تو بتحقیق وہ شخص بیٹھ جائے کھڑا ہوکر انتظار نماز نہ کرے اس لیے کہ یہ (کھڑے ہوکر انتظارکرنا) مکروہ ہے۔ ایسا ہی مضمرات میں لکھا ہے اور اس سے ہی ابتدائے اقامت میں کھڑے ہونے کی کراہت معلوم ہوئی۔ لوگ اس مسئلہ سے غافل ہیں،(کہ شروع سے کھڑے ہوجاتے ہیں)۔(طحطاوی علی مراقی الفلاح، فصل:من آدابها، ص278، دار الكتب العلميه بيروت)

شرح وقایہ میں ہے:

”یقوم الامام والقوم عند حی علی الصلاۃ“

یعنی امام اور مقتدی حی علی الصلاۃ کہنے کے وقت کھڑے ہوں۔(شرح وقایہ ،جلد اوّل، صفحہ 136، مطبوعہ مجیدی کانپور)

مولوی عبدالحئی صاحب فرنگی محلی لکھتے ہیں:

”اذا دخل المسجد یکرہ لہ الانتظار الصلوٰۃ قائماً بل یجلس فی موضع ثم یقوم عند حی علی الفلاح وبہ صرح فی جامع المضمرات“

یعنی جو شخص مسجد کے اندر داخل ہوا اسے کھڑے ہو کر نماز کا انتظار کرنا مکروہ ہے بلکہ کسی جگہ بیٹھ جائے پھر “حی علی الفلاح” کے وقت کھڑا ہو اس کی تصریح جامع المضمرات میں ہے۔(عمدۃ الرعایہ حاشیہ شرح وقایہ ،جلد اوّل، صفحہ 136، مطبوعہ مجیدی کانپور)

سیدی اعلی حضرت علیہ رحمۃ رب العزت “فتاوی رضویہ” میں فرماتے ہیں:

’’ولا تعارض عندی بین قول الوقایۃ واتباعھا یقومون عند حی علی الصلوۃ والمحیط والمضمرات ومن معھما عند حی علی الفلاح فانا اذا حملنا الاول علی الانتھاء والاٰ خر علی الابتداء اتحد القولان ای یقومون حین یتم المؤذن ’’حی علی الصلوۃ‘‘ ویاتی حی علی الفلاح‘‘

یعنی میرے نزدیک وقایہ اور ان کے متبعین کے قول ’’یقومون عند حی علی الصلوۃ‘‘(یعنی “حی علیٰ الصلوۃ” کے وقت کھڑے ہوں) اور محیط اور مضمرات اور ان دونوں کے ہم خیالوں کے قول عند حی الفلاح یعنی “حی علی الفلاح” کے وقت کھڑے ہوں، میں کوئی تعارض نہیں ۔اس لئے کہ ہم اول یعنی حی علی الصلوۃ کہنے کے وقت کھڑے ہونے کو انتہا پر حمل (محمول) کریں۔ یعنی جب حی علی الصلوۃ کہہ لے، اور دوسرے قول یعنی حی علی الفلاح کہنے کے وقت کھڑے ہونے کو ابتدا پر محمول کریں تو دونوں قول متحد ہو جائیں۔

آگے فرماتے ہیں:

’’ھذا مایعطیہ قول المضمرات یقوم اذا بلغ المؤذن حی علی الفلاح‘‘ یہ تطبیق قول مضمرات سے سمجھی جاتی ہے کہ انہوں نے فرمایا اس وقت کھڑا ہو جب مؤذن حی علی الفلاح پر پہنچے۔ اور یہ اس سے بہتر ہے جو مجمع الانہر میں اس کا قول ہے: وقایہ میں ہے کہ امام اور نمازی حی علی الصلاۃ کے وقت یعنی اس سے تھوڑا سا پہلے کھڑے ہوں۔

یہ(مذکورہ حکم)اُس صورت میں ہے کہ امام بھی وقتِ تکبیر مسجد میں ہو،اور اگروہ حاضر نہیں تو مؤذن جب تک اُسے آتا نہ دیکھتے تکبیر نہ کہے نہ اُس وقت تک کوئی کھڑا ہولقولہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم لاتقوموا حتی ترونی(کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: تم نہ کھڑے ہواکرو یہاں تک کہ مجھے دیکھ لو۔ ت) پھر جب امام آئے اور تکبیر شروع ہو اس وقت دو 2 صورتیں ہیں اگر امام صفوں کی طرف سے داخل مسجد ہوتو جس صفت سے گزرتا جائے وہی صف کھڑی ہوتی جائے اور اگر سامنے سے آئے تو اُسے دیکھتے ہی سب کھڑے ہوجائیں اور اگر خود امام ہی تکبیر کہے تو جب تک پُوری تکبیر سے فارغ نہ ہولے مقتدی اصلاً کھڑے نہ ہوں بلکہ اگر اس نے تکبیر مسجد سے باہر کہی تو فراغ پر بھی کھڑے نہ ہوں جب وہ مسجد میں قدم رکھے اُس وقت قیام کریں۔(فتاوی رضویہ، ج5، مسئلہ:344، ص380-381، رضا فاونڈیشن لاہور)

فتاوی رضویہ میں ہے:

”مقتدیوں کو حکم یہ ہے کہ تکبیر بیٹھ کر سُنیں، جب مکبّر “حی علی الفلاح” پر پہنچے اس وقت کھڑے ہوں تاکہ اس کے اس قول کی مطابقت ہو جو وہ اس کے بعد کہے گا:”قدقامت الصلاۃ” یعنی جماعت کھڑی ہوئی۔ یہاں تک کہ اگر تکبیر ہورہی ہے اور اس وقت کوئی شخص باہر سے آیا تو یہ خیال نہ کرے کہ چند کلمات رہ گئے ہیں پھر کھڑا ہونا ہوگا بلکہ فوراً بیٹھ جائے اور حی علی الفلاح پرکھڑا ہو۔“(فتاوی رضویہ، ج5، مسئلہ380، ص422، رضا فاونڈیشن لاہور)

حضرت مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:

”اقامت کے وقت کوئی شخص آیا تو اسے کھڑے ہو کر انتظار کرنا مکروہ ہے، بلکہ بیٹھ جائے جب “حَیَّ عَلَی الْفَلَاحِ” پر پہنچے اس وقت کھڑا ہو۔ یوہیں جو لوگ مسجد میں موجود ہیں، وہ بیٹھے رہیں، اس وقت اٹھیں، جب مُکَبِّر “حَیَّ عَلَی الْفَلَاحِ” پر پہنچے، یہی حکم امام کیلئے ہے۔ آج کل اکثر جگہ رواج پڑگیا ہے کہ وقت اقامت سب لوگ کھڑے رہتے ہیں بلکہ اکثر جگہ تو یہاں تک ہے کہ جب تک امام مصلے پر کھڑا نہ ہو، اس وقت تک تکبیر نہیں کہی جاتی،یہ خلافِ سنّت ہے۔“(بہار شریعت ،ج1،حصہ3، ص471، مکتبۃ المدینہ کراچی)

حضرت مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ نماز کا گیارہواں مستحب بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

”جب مکبّر حَیَّ عَلَی الْفَلَاحِ کہے تو امام و مقتدی سب کا کھڑا ہو جانا۔“(بہار شریعت،نماز کا بیان ،ج1، حصہ3، نماز کے مستحبات، مکتبۃ المدینہ کراچی)

عمدۃ المحققین حضرت علامہ مفتی محمد حبیب اللہ نعیمی بھاگلپوری علیہ رحمۃ اللّٰہ القوی فرماتے ہیں:

”جب اقامت شروع کرنے سے پہلے مقتدی مسجد میں حاضر ہوں اور امام بھی اپنے مصلے پر یا اس کے قریب میں موجود ہو اور اقامت کہنے والا شخص خود امام نہ ہو تو اس صورت میں سب کو حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃ یا حَیَّ عَلَی الْفَلَاح پر کھڑا ہونا چاہئے، یہی مسنون و مستحب ہے۔ اس صورت میں ابتدائے اقامت سے کھڑے ہونے کو حنفی مسلک میں ہمارے فقہائے کرام نے مکروہ تحریر فرمایا ہے۔“(حبیب الفتاویٰ،ج1،مسئلہ:25، ص134)

فتاوی فیض الرسول میں ہے:

”بیشک جو لوگ اقامت کے وقت مسجد میں موجود ہیں بیٹھے رہیں۔ جب مکبر حی علی الصلاۃ حی علی الفلاح پر پہنچے تو اٹھیں۔ یہی حکم امام اور مقتدی دونوں کے لئے ہے۔ اور جو شخص اقامت کے وقت آئے اس کے لئے بھی حکم ہے کہ بیٹھ جائے کھڑے ہو کر انتظار کرنا مکروہ ہے۔ جب تکبیر کہنے والا حی علی الصلاۃ، حی علی الفلاح پر پہنچے تو اس وقت کھڑا ہو۔“ (فتاوی فیض الرسول،باب الاذان ،جلد1، مسئلہ حاجی محمد رضا، شبیر برادرز لاہور)

فتاوی تاج الشریعہ میں ہے:

”(بوقتِ اقامت حی علی الفلاح پر کھڑا ہونا)مستحب ہے۔ درمختار میں اسے آداب کی گنتی میں شمار کیا اور مستحب وہ ہے جس کا کرنا اولیٰ و موجبِ اجر ہو‘ اور ترک خلافِ اولیٰ ہو نے کا مطلب شاید عقاب نہ ہو۔ اور شروع اقامت میں کھڑا ہونا مکروہ ہے کہ حی علی الفلاح یا حی علی الصلاۃ یا قد قامت الصلٰوۃ تک بیٹھے رہنا مسنون ہے اور ہمارے ائمہ ثلثہ کے نزدیک بہتریہی ہے کہ حی علی الفلاح پر کھڑے ہوں۔“(فتاوی تاج الشریعہ،جلد:3، باب الاذان، مسئلہ:77)

مفتی جلال الدین امجدی علیہ الرحمہ ایک سوال کے جواب میں دلائل دے کر فرماتے ہیں:

”حدیث و فقہ کی مذکورہ بالا عبارتوں سے روز روشن کی طرح واضح ہو گیا کہ مقتدیوں کو اقامت کے وقت کھڑا رہنا مکروہ ہے‘ اور یہی حکم امام کے لئے بھی ہے تفصیل کے لئے ہمارے رسالہ ’’آٹھ مسئلے‘‘ کا محققانہ فیصلہ دیکھئے مگر نہ معلوم کیوں وہابی دیوبندی اس مسئلہ میں عمل کرنے والوں سے جھگڑتے اور اس کو بدعت قرار دیتے ہیں حالانکہ ان کے پیشواؤں نے اردو کی چھوٹی چھوٹی کتابوں میں بھی اس مسئلہ کو اسی طرح لکھا ہے۔

“مفتاح الجنہ”صفحہ 33 میں دیوبندیوں کے پیشوا مولوی کرامت علی جونپوری نے لکھا ہے کہ جب اقامت میں حی علی الصلوۃ کہے تب امام اور سب لوگ کھڑے ہو جائیں۔

اور “راہ نجات” صفحہ 14 میں ہے: حی علی الصلوۃ کے وقت امام اٹھے۔

لوگوں کا اب بھی اس مسئلہ کی مخالفت کرنا کھلی ہوئی ہٹ دھرمی ہے۔ خداتعالیٰ انہیں حق قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔“(فتاوی فیض الرسول ،کتاب الصلٰوۃ ،جلد اول،صفحہ191، شبیر برادرز لاہور)

تاج الشریعہ مفتی اختر رضا خان ازہری علیہ الرحمہ ایک پوسٹر کے جواب میں دلائل دے کر فرماتے ہیں:

”حضرت امامِ اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ و امام ابو یوسف و محمد رحمہما اللہ تعالی کا مذہب یہی ہے کہ حی علی الفلاح پر کھڑا ہونا مستحب ہے، شاید ان حضرات کو پوسٹر میں نقل کردہ آیات واحادیث کی خبر نہ ہوئی ہو‘ چودہ سو برس کے بعد دیوبندیوں وہابیوں کو الہام ہوا ہے کہ ان آیات سے اذان و اقامت شروع ہوتے ہی کھڑا ہونا بہتر ہے مگر کوئی وہابی دیوبندی اذان شروع ہوتے ہی کھڑا نہیں ہوتا ہے اور جھوٹ یہ لکھ دیا کہ معتبر روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابۂ کرام کا معمول یہی تھا حالانکہ اوپر علامہ بدر الدین عینی وغیرہ کی تصریح ہے کہ صحابۂ کرام ابتدائے اقامت سے کھڑے نہیں ہوتے تھے حضرت انس وہشام رضی اللہ عنہما کا صریح قول نقل ہوا‘ ائمہ ثلثہ کا قول بھی نقل ہوا‘ مگر دیوبندیوں کو ابھی وہی رٹ ہے کہ جس ضد وہٹ دھرمی پروہ قائم ہیں وہ حق ہے۔ والعیاذ باللہ تعالیٰ۔“(فتاوی تاج الشریعہ،جلد3،باب الاذان، مسئلہ:128)

واللّٰہ تعالیٰ اعلم و رسولہ اعلم باالصواب

صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ و علی آلہ و اصحابہ و بارک و سلم

ابوالمصطفٰی محمد شاہد حمید قادری

18جمادی الاخری1445ھ

1جنوری2023ء پیر

اپنا تبصرہ بھیجیں